پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کر دی، کیا لوگوں نے اس لیے ووٹ دیے تھے، چیف جسٹس

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کر دی، کیا لوگوں نے اس لیے ووٹ دیے تھے، چیف جسٹس

لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے کب سے بدمعاشی شروع کردی، کیا لوگوں نے اس لیے ووٹ دیے، نیا پاکستان بدمعاشوں کی پیروی کر کے بنانے چلے ہیں۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قبضہ گروپ منشا بم کی گرفتاری سے متعلق شہری کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے ملک کرامت کھوکھر کو ملزم منشا بم کی سفارش کرنے پر طلب کیا۔عدالتی حکم پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر اور رکن صوبائی اسمبلی ندیم عباس بارا پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا منشا بم کون ہے؟ جس پر ایس پی پولیس نے عدالت کو بتایا یہ جوہر ٹاؤن کا بہت بڑا قبضہ گروپ ہے، عدالت کے حکم پر کارروائی کی تو سفارشیوں کے فون آنا شروع ہو گئے۔

ایم این اے ملک کرامت کھوکھر نے منشا بم کی گرفتاری روکنے کی درخواست کی، پولیس
چیف جسٹس نے ایس پی سے پوچھا سفارش کے لیے کس کا فون آیا جس پر ایس پی نے بتایا ایم این اے ملک کرامت کھوکھر نے منشا بم کی گرفتاری روکنے کی درخواست کی جس پر عدالت نے انہیں فوری طلب کیا۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ منشا بم اپنے بیٹوں کے ساتھ جوہر ٹاؤن میں زمینوں پر قبضےکرتا ہے اور اس کے خلاف 70 مقدمات درج ہیں جس پر چیف جسٹس نے ملزم منشا بم کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رانا سرور کی سرزنش کی۔

وکیل نے کیس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے غیر مشروط معافی مانگی اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملزم منشا کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے میں دیکھتا ہوں کون یہاں بدمعاش ہے، پولیس کے ساتھ بدتمیزی کسی صورت برداشت نہیں کروں گا اور سیاسی مداخلت کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔

قبضہ گروپ کی پیروی ثابت ہوئی تو ملک کرامت کھوکھر بطور ایم این اے واپس نہیں جاؤ گے، چیف جسٹس
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا 'کیا لوگوں نے بدمعاشی کے لیے ووٹ دیے ہیں، انکوائری میں قبضہ گروپ کی پیروی ثابت ہوئی تو ملک کرامت کھوکھر بطور ایم این اے واپس نہیں جاؤ گے۔

پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ندیم عباس بارا نے کہا کہ کیس شروع ہونے سے پہلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میرے خلاف ایس پی نے جھوٹے مقدمات درج کروائے، اگر مقدمات میں غلطی ثابت ہوئی تو استعفی دے دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا 'تم پہلے استعفیٰ دو جلدی کرو، اتنی تم لوگوں میں جرات نہیں کہ استعفی دے دو'۔

عدالت میں پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی رو پڑے
دوران سماعت ندیم عباس بارا نے رونا شروع کر دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باہر بدمعاشی کرتے ہو، اندر انکار اور پھر رونا شروع کر دیتے ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کر کے ڈیرے بنا رکھے ہیں، کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا جس پر ملک کرامت کھوکھر نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ میں منشا بم کو نہیں جانتا، میں نے ایس پی کو نہیں ڈی آئی جی کو فون کیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ بلائیں اس ڈی آئی جی آپریشنز کو جس نے سفارش کی جس کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈی آئی جی آپریشنز نے عدالت میں پیش ہوکر اعتراف کیا کہ کرامت کھوکھر نے سفارش کے لیے فون کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے ایم این اے کرامت کھوکھر کو جھوٹ بولنے پر نوٹس جاری کر دیا۔

جھوٹ بولنے والا صادق اور امین نہیں ہوتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ غلط بیانی پر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، آپ نے عدالت میں کہا کہ آپ منشا بم کو نہیں جانتے اور پھر ڈی آئی جی کو منشا کے بیٹے کی رہائی کے لیے کیوں فون کیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا سب کچھ میری ڈیوائس میں ریکارڈ ہو چکا ہے جس پر کرامت کھوکھر نے کہا میں عدالت سے معذرت چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جھوٹ بولنے والا صادق اور امین نہیں ہوتا، جھوٹ بولنے پر سزا دوں گا تب تمھیں پتا چلے گا، یہ کردار ہے آپ لوگوں کا، جھوٹ بولو گے تو کیا جواب دو گے، خدا کا خوف کرو لوگوں نے تمھیں ووٹ دیا ہے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی ایم پی اے ندیم عباس بارا نے روسٹرم پر چیف جسٹس کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ 'مجھے معاف کر دیں میں تو ایسے ہی غلطی سے سپریم کورٹ آگیا'۔

چیف جسٹس نے ندیم عباس بارا کو کہا 'تم بھی کل اسلام آباد آؤ دیکھتے ہیں معافی دینی ہے یا نہیں اور اپنا استعفی ساتھ لےکر آنا ورنہ میں خود تمھاری جگہ پر استعفی لکھ دوں گا۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے ایم این اے کرامت کھوکھر اور ایم پی اے ندیم عباس بارا کو کل سپریم کورٹ اسلام آباد طلب کرلیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کر دی، کیا لوگوں نے اس لیے ووٹ دیے تھے، چیف جسٹس

لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے کب سے بدمعاشی شروع کردی، کیا لوگوں نے اس لیے ووٹ دیے، نیا پاکستان بدمعاشوں کی پیروی کر کے بنانے چلے ہیں۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قبضہ گروپ منشا بم کی گرفتاری سے متعلق شہری کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے ملک کرامت کھوکھر کو ملزم منشا بم کی سفارش کرنے پر طلب کیا۔عدالتی حکم پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر اور رکن صوبائی اسمبلی ندیم عباس بارا پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا منشا بم کون ہے؟ جس پر ایس پی پولیس نے عدالت کو بتایا یہ جوہر ٹاؤن کا بہت بڑا قبضہ گروپ ہے، عدالت کے حکم پر کارروائی کی تو سفارشیوں کے فون آنا شروع ہو گئے۔

ایم این اے ملک کرامت کھوکھر نے منشا بم کی گرفتاری روکنے کی درخواست کی، پولیس
چیف جسٹس نے ایس پی سے پوچھا سفارش کے لیے کس کا فون آیا جس پر ایس پی نے بتایا ایم این اے ملک کرامت کھوکھر نے منشا بم کی گرفتاری روکنے کی درخواست کی جس پر عدالت نے انہیں فوری طلب کیا۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ منشا بم اپنے بیٹوں کے ساتھ جوہر ٹاؤن میں زمینوں پر قبضےکرتا ہے اور اس کے خلاف 70 مقدمات درج ہیں جس پر چیف جسٹس نے ملزم منشا بم کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رانا سرور کی سرزنش کی۔

وکیل نے کیس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے غیر مشروط معافی مانگی اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملزم منشا کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے میں دیکھتا ہوں کون یہاں بدمعاش ہے، پولیس کے ساتھ بدتمیزی کسی صورت برداشت نہیں کروں گا اور سیاسی مداخلت کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔

قبضہ گروپ کی پیروی ثابت ہوئی تو ملک کرامت کھوکھر بطور ایم این اے واپس نہیں جاؤ گے، چیف جسٹس
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا 'کیا لوگوں نے بدمعاشی کے لیے ووٹ دیے ہیں، انکوائری میں قبضہ گروپ کی پیروی ثابت ہوئی تو ملک کرامت کھوکھر بطور ایم این اے واپس نہیں جاؤ گے۔

پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ندیم عباس بارا نے کہا کہ کیس شروع ہونے سے پہلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میرے خلاف ایس پی نے جھوٹے مقدمات درج کروائے، اگر مقدمات میں غلطی ثابت ہوئی تو استعفی دے دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا 'تم پہلے استعفیٰ دو جلدی کرو، اتنی تم لوگوں میں جرات نہیں کہ استعفی دے دو'۔

عدالت میں پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی رو پڑے
دوران سماعت ندیم عباس بارا نے رونا شروع کر دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باہر بدمعاشی کرتے ہو، اندر انکار اور پھر رونا شروع کر دیتے ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کر کے ڈیرے بنا رکھے ہیں، کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا جس پر ملک کرامت کھوکھر نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ میں منشا بم کو نہیں جانتا، میں نے ایس پی کو نہیں ڈی آئی جی کو فون کیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ بلائیں اس ڈی آئی جی آپریشنز کو جس نے سفارش کی جس کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈی آئی جی آپریشنز نے عدالت میں پیش ہوکر اعتراف کیا کہ کرامت کھوکھر نے سفارش کے لیے فون کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے ایم این اے کرامت کھوکھر کو جھوٹ بولنے پر نوٹس جاری کر دیا۔

جھوٹ بولنے والا صادق اور امین نہیں ہوتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ غلط بیانی پر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، آپ نے عدالت میں کہا کہ آپ منشا بم کو نہیں جانتے اور پھر ڈی آئی جی کو منشا کے بیٹے کی رہائی کے لیے کیوں فون کیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا سب کچھ میری ڈیوائس میں ریکارڈ ہو چکا ہے جس پر کرامت کھوکھر نے کہا میں عدالت سے معذرت چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جھوٹ بولنے والا صادق اور امین نہیں ہوتا، جھوٹ بولنے پر سزا دوں گا تب تمھیں پتا چلے گا، یہ کردار ہے آپ لوگوں کا، جھوٹ بولو گے تو کیا جواب دو گے، خدا کا خوف کرو لوگوں نے تمھیں ووٹ دیا ہے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی ایم پی اے ندیم عباس بارا نے روسٹرم پر چیف جسٹس کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ 'مجھے معاف کر دیں میں تو ایسے ہی غلطی سے سپریم کورٹ آگیا'۔

چیف جسٹس نے ندیم عباس بارا کو کہا 'تم بھی کل اسلام آباد آؤ دیکھتے ہیں معافی دینی ہے یا نہیں اور اپنا استعفی ساتھ لےکر آنا ورنہ میں خود تمھاری جگہ پر استعفی لکھ دوں گا۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے ایم این اے کرامت کھوکھر اور ایم پی اے ندیم عباس بارا کو کل سپریم کورٹ اسلام آباد طلب کرلیا۔
آپ کی جانب سے اس خبر کی تشہیر کو خود احتسابی شمار کیا جائے یا اسے خود اذیتی کے تناظر میں دیکھا پرکھا جاوے؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کی جانب سے اس خبر کی تشہیر
یہ اور اس جیسے دیگر کیسز (جہانگیر ترین کی برقرار نا اہلی) تحریک انصاف کے ناقدین کیلئے مشعل راہ ہیں۔ جوعدالتوں کو تحریک کی بی ٹیم کہتے ہیں۔
ملک میں انصاف ہورہا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ البتہ تحریک انصاف بالکل نہیں ہو رہا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ اور اس جیسے دیگر کیسز (جہانگیر ترین کی برقرار نا اہلی) تحریک انصاف کے ناقدین کیلئے مشعل راہ ہیں۔ جوعدالتوں کو تحریک کی بی ٹیم کہتے ہیں۔
ملک میں انصاف ہورہا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ البتہ تحریک انصاف بالکل نہیں ہو رہا۔
عدالتیں وہی پرانی ہیں، آپ حکومت میں اب آئے ہیں۔ اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا رہے گا۔ ماضی کی حکومتوں میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ انصاف تب ہو گا، جب بلاامتیاز کاروائی کی جائے گی؛ ججوں، جرنیلوں، سیاست دانوں، صحافیوں وغیرہ کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے گا۔ ہم تو یہ کہیں گےکہ ناؤ فیس دا میوزک پلیز :)
 

فرقان احمد

محفلین
آئی رے آئی رے تبدیلی آئی رے :)
خدا نے آپ کو عقلِ سلیم عطا فرمائی ہے تو ان معاملات کو کرامت کھوکھر اور ندیم عباس بھارا کے تناظر میں دیکھنے سے گریز فرمائیں۔ :) جزو کو کُل پر منطبق کرنا غیر مناسب طرز عمل اور غیر منطقی طرز فکر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان معاملات کو کرامت کھوکھر اور ندیم عباس بھارا کے تناظر میں دیکھنے سے گریز فرمائیں۔
ویسے میں نے تو انصاف کے تناظر میں ہی بات کی تھی۔ مجھے بنیادی اعتراض عدالت میں جاکر معافیاں مانگنے پر ہے۔ یہ ادارہ اس کام کیلئے نہیں ہے۔ معافیاں عدالت سے باہر فریقین کے مابین مانگی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ غلط ہوگیا۔ دوسرا عدالت عظمیٰ کا لیگیوں کے لئے اور انصافیوں کے لئے الگ معیار ہے۔ جس سے ادارہ کی رہی سہی ساخت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے میں نے تو انصاف کے تناظر میں ہی بات کی تھی۔ مجھے بنیادی اعتراض عدالت میں جاکر معافیاں مانگنے پر ہے۔ یہ ادارہ اس کام کیلئے نہیں ہے۔ معافیاں عدالت سے باہر فریقین کے مابین مانگی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ غلط ہوگیا۔ دوسرا عدالت عظمیٰ کا لیگیوں کے لئے اور انصافیوں کے لئے الگ معیار ہے۔ جس سے ادارہ کی رہی سہی ساخت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
عدالت نے احسن اقبال صاحب اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی معذرت بھی قبول کی تھی۔ عدالت سے معافی مانگ لینا کوئی ایسا بڑا معاملہ نہیں۔ تاہم، غیر ضروری عدالتی فعالیت غلط ہے۔ ججوں کو خبروں میں رہنے کا شوق بھی نہیں ہونا چاہیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بظاہر لگتا ہے چیف جسٹس صاحب نے معافی ناموں کا کوٹا رکھا ہوا ہے۔ وہ ختم ہوتے ہی سزائیں دینا شروع کر دیتے ہیں :)
سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھنا چاہیے تاہم ہر مقدمے کی نوعیت کُلی طور پر ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ چیف جسٹس کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
 
Top