پیکر ہستی کو جب مشکوک سا پاتا ہوں میں

شاکرالقادری

لائبریرین
یہ کلام اکثر میری نانی اماں سناتی ہیں مجھے
تو سوچا آپ محفلین کی خدمت میں پیش کروں۔ اگر کسی کو معلوم ہو تو ضرور بتائیں کہ یہ کس کا کلام ہے۔

پیکرِ ہستی کو جب مشکوک سا پاتا ہوں میں
آئینے میں آئینہ بن کر سما جاتا ہےں میں
اک ذرا سی بات پر مرا جاتا ہوں میں
اک تیری آنکھوں کا ساگر
اک تیرے رخ کی بہار
یہ میّسر ہوں تو جنت کو بھی ٹھکراتا ہوں میں
وہ اگر جاتے ہیں تو
ان کو جانے دو اے امیر
ان سے کہہ دو
کوچہء در چھوڑکے جاتا ہوں میں
آگے آگے چلا جاتا ہے وہ محشر خرام
پیچھے پیچھے نقشِ پا کو چومتا جاتا ہوں میں

باباجی سبحان اللہ۔۔۔ اللہ کریم آپ کی نانی جان کے دامان رحمت کو آپ کے لیے تادیر وا رکھے۔ اردو شاعری کی روایت ہمیشہ تصوف سے جڑی رہی ہے۔ اوپر دیے گئے اشعار اسی شاندار روایت کے عکاس ہیں۔ گوکہ آج کل روایت سے بغاوت کا چلن ہے لیکن اس کے باوجود اردو شاعری سے تصوف کے رنگوں کو جدا نہیں کیا جا سکا اور جہاں ایسا کیا گیا ہے وہاں اردو غزل بے رنگ ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔۔اور اہل دل۔۔ ۔ ۔ ان کا کیا ہے وہ تو ہر مجاز میں حقیقت کو تلاش کرتے ہیں۔ اور حقیقت ہے بھی یہی کہ ہر مجاز در اصل حقیقت کا غماز ہوتا ہے۔ اور مجاز کی راہ سے ہی حقیقت کو تلاشا جاتا ہے۔ اشعار کر ترتیب کو کچھ درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
پیکرِ ہستی کو جب مشکوک سا پاتا ہوں میں
آئینے میں آئینہ بن کر سما جاتا ہوں میں
۔۔۔۔۔

اک تری آنکھوں کا ساگراک ترے رخ کی بہار
یہ میّسر ہوں تو جنت کو بھی ٹھکراتا ہوں میں
۔۔۔۔۔
وہ اگر جاتے ہیں تو (اب) ان کو جانے دو امیر
ان سے کہہ دوکوچہء در چھوڑکے جاتا ہوں میں
۔۔۔۔۔
آگے آگے (تو) چلا جاتا ہے وہ محشر خرام
پیچھے پیچھے نقشِ پا کو چومتا جاتا ہوں میں
۔۔۔۔

مجھے لگتا ہے شاید یہ امیر مینائی کا کلام ہو۔۔۔۔ اگر کسی کے پاس ان کا دیوان یا کلیات ہو تو اس میں تلاش کیا جا سکتا ہے
امیر مینائی کی ایک اور غزل
جسے اعجاز حسین حضروری نے بھی گایا ہے اور کندن لال سہگل نے بھی ۔۔۔ ویسے مجھے یہ غزل اعجاز حسین حضروی کی آواز میں زیادہ پسند ہے

غزل از امیر مینائی

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
۔۔۔۔۔
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے
۔۔۔۔۔
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
۔۔۔۔۔
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
۔۔۔۔۔
باغباں، کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سِن کے لئے
۔۔۔۔
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لئے
۔۔۔۔۔
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
۔۔۔۔۔
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیر
بھیجتے تحفہ مؤذن کے لیے
۔۔۔۔۔
ایک اور شعر جو میرے بچپن کے حافظے میں سے برآمد ہوا ہے
وائے قسمت وہ بھی کہتے ہیں برا
ہم برے سب سے ہوئے جن کے لیے
۔۔۔
 

باباجی

محفلین
باباجی سبحان اللہ۔۔۔ اللہ کریم آپ کی نانی جان کے دامان رحمت کو آپ کے لیے تادیر وا رکھے۔ اردو شاعری کی روایت ہمیشہ تصوف سے جڑی رہی ہے۔ اوپر دیے گئے اشعار اسی شاندار روایت کے عکاس ہیں۔ گوکہ آج کل روایت سے بغاوت کا چلن ہے لیکن اس کے باوجود اردو شاعری سے تصوف کے رنگوں کو جدا نہیں کیا جا سکا اور جہاں ایسا کیا گیا ہے وہاں اردو غزل بے رنگ ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔ ۔اور اہل دل۔۔ ۔ ۔ ان کا کیا ہے وہ تو ہر مجاز میں حقیقت کو تلاش کرتے ہیں۔ اور حقیقت ہے بھی یہی کہ ہر مجاز در اصل حقیقت کا غماز ہوتا ہے۔ اور مجاز کی راہ سے ہی حقیقت کو تلاشا جاتا ہے۔ اشعار کر ترتیب کو کچھ درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
پیکرِ ہستی کو جب مشکوک سا پاتا ہوں میں
آئینے میں آئینہ بن کر سما جاتا ہوں میں
۔۔۔ ۔۔

اک تری آنکھوں کا ساگراک ترے رخ کی بہار
یہ میّسر ہوں تو جنت کو بھی ٹھکراتا ہوں میں
۔۔۔ ۔۔
وہ اگر جاتے ہیں تو (اب) ان کو جانے دو امیر
ان سے کہہ دوکوچہء در چھوڑکے جاتا ہوں میں
۔۔۔ ۔۔
آگے آگے (تو) چلا جاتا ہے وہ محشر خرام
پیچھے پیچھے نقشِ پا کو چومتا جاتا ہوں میں
۔۔۔ ۔

مجھے لگتا ہے شاید یہ امیر مینائی کا کلام ہو۔۔۔ ۔ اگر کسی کے پاس ان کا دیوان یا کلیات ہو تو اس میں تلاش کیا جا سکتا ہے
امیر مینائی کی ایک اور غزل
جسے اعجاز حسین حضروری نے بھی گایا ہے اور کندن لال سہگل نے بھی ۔۔۔ ویسے مجھے یہ غزل اعجاز حسین حضروی کی آواز میں زیادہ پسند ہے

غزل از امیر مینائی

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
۔۔۔ ۔۔
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے
۔۔۔ ۔۔
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
۔۔۔ ۔۔
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
۔۔۔ ۔۔
باغباں، کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سِن کے لئے
۔۔۔ ۔
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لئے
۔۔۔ ۔۔
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
۔۔۔ ۔۔
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیر
بھیجتے تحفہ مؤذن کے لیے
۔۔۔ ۔۔
ایک اور شعر جو میرے بچپن کے حافظے میں سے برآمد ہوا ہے
وائے قسمت وہ بھی کہتے ہیں برا
ہم برے سب سے ہوئے جن کے لیے
۔۔۔
واہ مرشد جی
میں بے شک یہی چاہتا تھا
میں نے یہ کلام پڑھا نہیں
بچپن سے آج تک سُنتا آیا ہوں
اتنا کہ خامشی میں بھی یہی تکرار سنائی دیتی تھی
"پیکرِ ہستی کو جب مشکوک ساپاتا ہوں میں"
اور نانی کی آواز میں اتنا لطف دیتا ہے یہ کلام کے آپ کوبتا نہیں سکتا
رات کا وقت
سناٹا
اور میری نانی کی آواز میں اپنے بڑوں کی محبت
اور یہ سیاہ رُو
اس وقت اپنے بخت پر ناز کرتا ہے
 
Top