پیغامَ قرآن: 30 پاروں کے مضامین

یوسف-2

محفلین
۹۲۔ عذابِ الٰہی سے بے خوف لوگوں کی چالیں
پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کی مخالفت میں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو، یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑے، یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں؟ وہ کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی نرم خُو اور رحیم ہے۔(سورة النحل:۷۴)


۰۳۔سایہ اللہ کے حضور سجدہ کرتا ہے
اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟سب کے سب اس طرح اظہار عجز کررہے ہیں۔ زمین اور آسمان میںجس قدر جان دار مخلوقات اور جتنے ملائکہ، سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ (سورة النحل....۰۵)

۱۳۔ سار ی نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں
اللہ کا فرمان ہے کہ”دو خدا نہ بنالو،خدا تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو“۔ اسی کا ہے وہ کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں) چل رہا ہے۔ پھر کیااللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کروگے؟ تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو۔ مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو (اس مہربانی کے کریے میں) شریک کرنے لگتا ہے، تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے۔اچھا، مزے کرلو، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں ان کے حصے ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں۔ خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے؟( النحل۶۵)

۲۳۔ خدا کے لےے بیٹیاں اپنے لےے بیٹے؟
یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! اور ان کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیداہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کررہ جاتا ہے۔ لوگوں چُھپتا پھرتا ہے کہ اس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبادے؟.... دیکھو کیسے بُرے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں۔ بُری صفات سے متصف کیے جانے کے لائق تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے۔ رہا اللہ تو اس کے لیے سب سے برتر صفات ہیں، وہی تو سب پر غالب اور حکمت میں کامل ہے۔ اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے، پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ آج یہ لوگ وہ چیزیں اللہ کے لیے تجویز کررہے ہیں جو خود اپنے لیے انہیں ناپسند ہیں، اور جھوٹ کہتی ہیں ان کی زبانیںکہ ان کے لیے بھلا ہی بھلا ہے۔ ان کے لیے تو ایک ہی چیز ہے،ا ور وہ ہے دوزخ کی آگ۔ ضرور یہ سب سے پہلے اس میں پہنچائے جائیں گے( النحل۲۶)

۳۳۔شیطان بُرے کام خوشنما بناکر دکھاتا ہے
خدا کی قسم، اے نبی ﷺ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے اُن کے بُرے کرتوت انہیں خوشنما بناکر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی)۔ وہی شیطان آج ان لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں۔ ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم ان اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں۔ یہ کتاب رہنمائی اور رحمت بن کر اُتری ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے مان لیں۔ (سورة النحل....۴۶)

۴۳۔مردہ زمیں بارش سے زندہ ہوجاتی ہے
(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکایک مردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقینا اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے۔(سورة النحل....۵۶)

۵۳۔دودھ گوبر اور خون کے درمیان بنتا ہے
اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ اُن کے پیٹ سے گوبر اورخُون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔ ( النحل....۶۶)

۶۳۔ پاک کھجورو انگورکو نشہ آوربنالینا
(اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ یقینا اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔ (سورة النحل....۷۶)

۷۳۔ شہد میںلوگوں کے لےے شفا ہے
اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں، اور ٹٹّیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں، اپنے چھتّے بنا، اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس، اوراپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوںپر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (سورة النحل....۹۶)

۸۳۔بد ترین عمر کو پہنچنے والے
اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔ (النحل:۰۷)

۹۳۔اللہ ہی نے رزق میں فضیلت عطا کی ہے
اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔ پھر جن لوگوںکو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموںکی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں۔ تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟ (سورة النحل....۱۷)

۰۴۔اللہ ہی نے ہم جنس بیویاں بنائیں
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اُسی نے ان بیویوں میں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں۔پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کرہی سکتے ہیں؟ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔( النحل....۴۷)

۱۴۔ غلام اور مالک برابر نہیں
اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ایک تو ہے غلام، جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ دوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھلے اور چھپے خوب خرچ کرتا ہے۔ بتا¶، کیا یہ دونوںبرابر ہیں؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو) نہیں جانتے۔ (سورة النحل....۵۷)

۲۴۔گونگے بہرے آدمی کی مثال
اللہ ایک اور مثال دیتا ہے۔ دو آدمی ہیں۔ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیںکرسکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے،جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے بن نہ آئے۔دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے۔ بتا¶ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟ (سورة النحل....۶۷)

۳۴۔اللہ نے سوچنے والے دل کیوں دیئے؟
اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے،بلکہ اسے بھی کچھ کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔اللہ نے تم کو تمہاری ما¶ں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دیئے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیئے، اس لیے کہ تم شکرگزار بنو۔ (سورة النحل....۸۷)

۴۴۔ پرندوں کو فضا میں کس نے تھام رکھا ہے؟
کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخّر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوںکے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ (سورة النحل....۹۷)

۵۴۔اللہ نے گھروں کو جائے سکون بنایا
اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا۔اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے امکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ اس کے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں۔ اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا،پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیںگرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں۔اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرمانبردار بنو۔ اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیﷺ، تم پر صاف صاف پیغامِ حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکارکرتے ہیں۔اور ان میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ (سورة النحل....۳۸)

۶۴۔ عذاب دیکھنے کے بعد مہلت نہیں ملے گی
(انہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جب کہ ہم ہر امت میںسے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیاجائے گا نہ اُن سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ظالم لوگ جب ایک دفعہ عذاب دیکھ لیں گے تو اس کے بعد نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ انہیں ایک لمحہ بھر مہلت دی جائے گی۔ اور جب وہ لوگ جنہوںنے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوںکو دیکھیں گے تو کہیں گے ”اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے“۔ اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ ”تم جھوٹے ہو“۔ اس وقت یہ سب اللہ کے آگے جھک جائیں گے اور ان کی وہ ساری افتراپردازیاں رفوچکر ہوجائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے اُس فساد کے بدلے جو وہ دنیا میں برپا
کرتے رہے۔ (سورة النحل....۸۸)

۷۴۔ ہرامت کے اندر سے ایک گواہ ہوگا
(اے نبی ﷺ، انہیں اُس دن سے خبردار کردو) جبکہ ہم ہرامت میں خود اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے۔ اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پرنازل کردی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اورہدایت و رحمت اور بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوںنے سرِتسلیم خم کردیا ہے۔ (سورة النحل....۹۸)

۸۴۔سوت کات کر خود ہی ٹکڑے کرنے والی
اللہ عدل اور احسان اور صلہ¿ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپرگواہ بنا چکے ہو۔اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے آپ ہی محنت سے سُوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکروفریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے۔حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعے سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا ، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے
چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے، اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی بازپُرس ہوکر رہے گی۔ (سورة النحل....۳۹)

۹۴۔ قسموں کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بناﺅ
(اور اے مسلمانو،) تم اپنی قسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنالینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے اور تم اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، بُرا نتیجہ دیکھو اور سزا بھگتو۔ اللہ کے عہد کو تھوڑے سے فائدے کے بدلے نہ بیچ ڈالو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے، اور ہم ضرور صبرسے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے ۔ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہووہ مومن،اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے( النحل....۷۹) 

۰۵۔ شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو
پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔اُسے اُن لوگوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اوراپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ اس کا زور تو اُنہی لوگوںپر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں۔جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں .... اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیانازل کرے....تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خودگھڑتے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ ان سے کہوکہ اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پُختہ کرے اور فرمانبرداروں کو زندگی کے معاملات میںسیدھی راہ بتائے اورا نہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے۔ (سورة النحل....۲۰۱)

۱۵۔ اللہ کی آیات کو نہ ماننے والے جھوٹے ہیں
ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑرہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے، وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔ (سورة النحل....۵۰۱)

۲۵۔مجبوراََ کفر اختیار کرنا قابلِ معافی ہے
جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیاگیاہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پراللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا، اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اورآنکھوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے، یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں۔ ضرور ہے کہ آخرت میںیہی خسارے میں رہیں۔ بخلاف اس کے جن لوگوںکا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے تو انہوں نے گھر بار چھوڑدیئے، ہجرت کی، راہ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا، ان کے لیے یقینا تیرا رب غفور و رحیم ہے۔ (ان سب کا فیصلہ اس دن ہوگا) جبکہ ہر متنفس اپنے ہی بچا¶ کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور وہ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیاجائے گا اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا۔ (سورة النحل....۱۱۱)

۳۵۔کفرانِ نعمت پر بھوک اور خوف کی مصیبتیں
اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے۔وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کردیا۔تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھاگئیں۔ان کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا۔ مگر انہوں نے اس کو جھٹلادیا۔ آخرکار عذاب نے ان کو آلیا جبکہ وہ ظالم ہوچکے تھے۔ (النحل....۳۱۱)

۴۵۔بھوک سے بے قرار ہوکر حرام کھانا
پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھا¶ اورا للہ کے احسان کا شکر ادا کرو اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو۔اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے ،وہ ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاگیا ہو۔البتہ بھوک سے مجبور اور بیقرار ہوکر اگر کوئی ان چیزوں کو کھالے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقینا اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگاکر اللہ پر جھوٹ نہ باندھو۔جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیںپایا کرتے۔دنیاکا عیش چند روزہ ہے۔ آخرکار ان کے لیے دردناک سزا ہے۔وہ چیزیں ہم نے خاص طور پر یہودیوں کے لیے حرام کی تھیں جن کا ذکر اس سے پہلے ہم تم سے کرچکے ہیں اور
یہ ان پرہمارا ظلم نہ تھا بلکہ ان کا اپنا ہی ظلم تھا جو وہ اپنے اوپر کررہے تھے۔ البتہ جن لوگوں نے جہالت کی بنا پر بُرا عمل کیا اور پھر توبہ کرکے اپنے عمل کی اصلاح کرلی تو یقینا توبہ و اصلاح کے بعد تیرا رب ان کے لیے غفور اور رحیم ہے۔(سورة النحل....۹۱۱)

۵۵۔ سبت کا قانون اللہ نے مسلط کیا تھا
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم ؑاپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سُو۔وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ دنیا میںاس کو بھلائی دی اور آخرت میں وہ یقینا صالحین میں سے ہوگا۔ پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سُو ہوکر ابراہیم ؑکے طریقے پرچلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ رہا سبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوںنے اس کے احکام میں اختلاف کیا اور یقینا تیرا رب قیامت کے روز اُن سب باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ (سورة النحل....۴۲۱)

۶۵۔ حکمت کے ساتھ دعوت اور مباحثہ کرو
اے نبی ﷺ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پرجو بہترین ہو۔تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اُسی قدر لے لو جس قدر تم پرزیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔ اے نبیﷺ، صبر سے کام کیے جاﺅ .... اور تمہارا یہ صبراللہ ہی کی توفیق سے ہے .... ان لوگوں کی حرکات پررنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔ (سورة النحل....۸۲۱)
 

یوسف-2

محفلین
پارہ ۔ 15 کے مضامین
۱۔ بنی اسرائیل کادو تین مرتبہ فسادِ عظیم برپا کرنا
سورہ بنی اسرائیل: اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ہم نے اس سے پہلے موسٰی ؑکو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ¿ ہدایت بنایا تھا اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح ؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوح ؑ ایک شکرگزار بندہ تھا۔ پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کروگے اور بڑی سرکشی دکھا¶ گے۔ آخرکار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گُھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہوکر ہی رہنا تھا۔ اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میںاسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں.... ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے ، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اورکافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے ( بنی اسرائیل:۰۱)

۲۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے
انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیرمانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلدباز واقع ہوا ہے۔ دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کردیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کرسکو۔ اسی طرح ہم نے ہرچیزکو الگ الگ ممیزکرکے رکھا ہے۔ ( بنی اسرائیل....۲۱)

۳۔ ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا ہے
ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔ پڑھ اپنا نامہ¿ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔ جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور ہم عذاب دینے والے نہیںہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔ (سورة بنی اسرائیل....۵۱)

۴۔ امراءکی نافرمانیاں، بستی کی ہلاکت کا سبب
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہوجاتا ہے۔ اورہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیںجو نوح ؑکے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔ تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ (سورة بنی اسرائیل....۷۱)

۵۔ دنیا ہی میں فائدے کے خواہشمند لوگ
جو کوئی (اس دنیا میں) جلدی حاصل ہونے والے فائدوںکا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہوکر۔ اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔ اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں) سامانِ زیست دیے جارہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والاکوئی نہیں ہے۔ مگردیکھ لو، دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پرکیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میںاُس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔تُو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بے یارومددگار بیٹھا رہ جائے گا۔( بنی اسرائیل:۲۲)

۶۔ بوڑھے والدین کو اُف تک نہ کہو
تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیںجھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جُھک کر رہو، اور دعا کیاکرو کہ ”پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوںنے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا“۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پر متنبہ ہوکر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں(سورة بنی اسرائیل....۵۲)

۷۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں
رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ اگران سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کررہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو۔ نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جا¶۔ تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے ( بنی اسرائیل۰۳)

۸ ۔ رب کے نزدیک ناپسندیدہ چندبرے امور
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ۔ قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اورجو شخص مظلومانہ قتل کیاگیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی۔ مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔ عہدکی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیںعلم نہ ہو۔ یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپرس ہونی ہے۔ زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ان امور سے بھی ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ یہ وہ حکمت کی باتیں ہیںجو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں۔ اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تو جہنم میں ڈال دیاجائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہوکر۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنالیا؟ بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔ (سورة بنی اسرائیل....۰۴)

۹۔ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے
ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں، مگر وہ حق سے اور زیادہ دور ہی بھاگے جارہے ہیں۔ ا ے نبیﷺ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے جیساکہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالک عرش کے مقام کو پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ اس کی پاکی تو ساتوں آسمانوں اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کررہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بُردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔ (سورة بنی اسرائیل....۴۴)

۰۱۔ جب تم قرآن پڑھتے ہو
جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پرایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں، اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کردیتے ہیں۔ اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگاکرتمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحرزدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جارہے ہو۔ دیکھو،کیسی باتیں ہیں جو یہ لوگ تم پر چھانٹتے ہیں، یہ بھٹک گئے ہیں، انہیں راستہ نہیں ملتا۔ ( سورة بنی اسرائیل....۸۴)

۱۱۔ ہم خاک ہوکر دوبارہ اٹھا ئے جائیں گے
وہ کہتے ہیں ”جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہوکر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے“؟.... ان سے کہو ”تم پتھر یا لوہا بھی ہوجا¶،یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز تمہارے ذہن میں قبولِ حیات سے بعید تر ہو“ (پھر بھی تم اٹھ کررہوگے)۔ وہ ضرور پوچھیں گے ”کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا“؟ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا“۔ وہ سر ہلا ہلاکر پوچھیں گے ”اچھا، تو یہ ہوگا کب“؟ تم کہو ”کیاعجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو۔ جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آ¶ گے اور تمہارا گمان اس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں“۔(سورة بنی اسرائیل....۲۵)

۲۱۔ فساد ڈلوانے کی کوشش شیطان کرتا ہے
اور اے نبی ﷺ، میرے بندوں (یعنی مومن بندوں) سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ تمہارا رب تمہارے حال سے خوب واقف ہے۔ وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دےدے۔ اور اے نبی ﷺ، ہم نے تم کو لوگوںپر حوالہ دار بناکرنہیں بھیجا ہے۔تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیئے، اور ہم نے ہی دائود ؑکو زبور دی تھی۔ (سورة بنی اسرائیل....۵۵)

۳۱۔ جھوٹے معبودکسی تکلیف کو ہٹانہیںسکتے
ان سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوںکو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹاسکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہوجائے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔اور کوئی بستی ایسی نہیںہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب نہ دیں، یہ نوشتہ¿ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ (سورة بنی اسرائیل....۸۵)

۴۱۔ تنبیہ پر نافرمانوں کی سرکشی میں اضافہ
اور ہم کو نشانیاںبھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کو جھٹلاچکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے عَلانیہ اونٹنی لاکر دی اور انہوںنے اس پرظلم کیا۔ ہم نشانیاںاسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔ یاد کرو اے نبی ﷺ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے،اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بناکر رکھ دیا۔ ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جارہے ہیں، مگر ہر تنبیہ ان کی سرکشی میں اضافہ کیے جاتی ہے۔ (سورة بنی اسرائیل....۰۶)

۵۱۔ شیطان کا وعدہ ایک دھوکہ ہے
اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا ، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے کہا ”کیا میںاس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟“ پھر وہ بولا ” دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مُہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کرڈالوں، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے“۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ”اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت ان سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزا ہے۔ تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلاسکتا ہے پھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میںپھانس.... اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں.... یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا، اور توکل کے لیے تیرا رب کافی ہے“۔ (سورة بنی اسرائیل....۵۶)

۶۱۔ خشکی و تری میں سواریاںعطا ہوئیں
تمہارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندرمیں تمہاری کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہوجاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچاکرخشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا، تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میںدھنسا دے، یا تم پر پتھرا¶ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پا¶؟ اور کیا تمہیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کردے اور تم کو ایساکوئی نہ ملے جو اس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے؟ .... یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیںخشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔ (سورة بنی اسرائیل....۰۷)

۷۱۔ لوگوں کو ان کے پیشوا کے ہمراہ بلایا جائے گا
پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ اس وقت جن لوگوں کو ان کا نامہ¿ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیاگیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔ (سورة بنی اسرائیل....۲۷)

۸۱ ۔ رسولوں کے معاملے میں اللہ کا طریقہ
اے نبی ﷺ، ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میںڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیںاپنا دوست بنالیتے۔ اور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمہیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جُھک جاتے۔ لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دنیا میں بھی دُوہرے عذاب کا مزا چکھاتے اور آخرت میں بھی دُوہرے عذاب کا۔ پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔اور یہ لوگ اس بات پر بھی تُلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہرکریں۔ لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے۔یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا۔ اور ہماے طریقِ کار میں تم کوئی تغیرنہ پا¶ گے( بسورة بنی اسرائیل....۷۷)

۹۱۔ فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو
نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔ اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔اور دُعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔اور اعلان کردو کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے“۔ (سورة بنی اسرائیل....۱۸)

۰۲۔ قرآن ماننے والوں کے لےے رحمت ہے
ہم اس قرآن کے سلسلہ¿ تنزیل میں وہ کچھ نازل کررہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا ہے اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ اے نبیﷺ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ ”ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے، اب یہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پرکون ہے“۔ (بنی اسرائیل....۴۸)

۱۲۔ روح اللہ کے حکم سے آتی ہے
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔کہو ”یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے“۔ اور اے نبی ﷺ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطاکیا ہے۔ پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پا¶ گے جو اسے واپس دلاسکے۔ یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے رب کی رحمت سے ملا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔ (سورة بنی اسرائیل....۷۸)

۲۲۔ جن و انس مل کر بھی قرآن نہیں بنا سکتے
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔ہم نے اس قرآن میں لوگوںکو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے اور انہوں نے کہا ”ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تُوہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کردے۔ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کردے۔ یا تُو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے۔ یا تُو آسمان پر چڑھ جائے، اورتیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں“ اے نبیﷺ، ان سے کہو ”پاک ہے میرا پرورردگار!کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اوربھی کچھ ہوں“؟(سورة بنی اسرائیل....۳۹)
 

یوسف-2

محفلین
۳۲۔انسانوں کے بیچ انسان ہی پیغمبر بھیجا گیا
لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے اُن کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر اُن کے اسی قول نے کہ ”کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بناکر بھیج دیا؟“ ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبر بناکر بھیجتے۔اے نبی ﷺ، ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان بس ایک اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں ڈال دے تو اس کے سوا ایسے لوگوں کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں پاسکتا۔ ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گونگے اور بہرے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا ”کیا جب ہم صرف ہڈیاں اورخاک ہوکر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اٹھاکھڑا کیا جائے گا؟“ کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اورآسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اُس نے ان کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔اے نبی ﷺ، ان سے کہو، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے۔واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔ (سورة بنی اسرائیل....۰۰۱)

۴۲۔ فرعون کو ساتھیوں سمیت غرق کیا گیا
ہم نے موسٰی ؑکو نو نشانیاںعطا کی تھیں جو صریح طور پردکھائی دے رہی تھیں۔ اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب موسٰی ؑان کے ہاں آئے تو فرعون نے یہی کہا تھا نا کہ ”اے موسٰی ؑ، میںسمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سِحرزدہ آدمی ہے“۔ موسٰی ؑنے ا س کے جواب میں کہا ”تُو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں زمین اور آسمانوں کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون، تو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے“۔ آخرکارفرعون نے ارادہ کیا کہ موسٰی ؑاور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کردیا اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پورا ہوگا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لاحاضر کریں گے۔ (سورة بنی اسرائیل....۴۰۱)

۵۲۔ قرآن کو بتد ریج نازل کیا گیا
اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے، اور اے نبیﷺ، تمہیں ہم نے اس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے) بشارت دے دو اور (جو نہ مانے اُسے) متنبہ کردو۔ اوراس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سنا¶، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے۔ اے نبیﷺ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیاگیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں ”پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا“۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سُن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ( بنی اسرائیل:۹۰۱)

۶۲۔اللہ کو اچھے ناموں سے پکارو
اے نبی ﷺ، ان سے کہو، ”اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں“۔ اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔اور کہو تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پُشتیبان ہو“۔ اور اس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی۔ (بنی اسرائیل:۱۱۱)

۷۲۔ پوری زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی
سورہ¿ کہف:اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کردے، اور ایمان لاکر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ محض جُھوٹ بکتے ہیں۔اچھا، تو اے نبی ﷺ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخرکار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ (سورة الکھف....۸)

۸۲۔ اصحابِ کہف غار میں لمبی نیند سُلادیے گئے
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتبے والے ہماری کوئی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہاکہ ”اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کردے“، تو ہم نے انہیںاسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلادیا، پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ (سورة الکھف....۲۱)

۹۲۔ اصحابِ کہف کا اصل قصہ
ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبوط کردیئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ ”ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے“۔ (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) ”یہ ہماری قوم تو ربّ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اس شخص سے بڑا ظ©الم اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبود ان غیراللہ سے بے تعلق ہوچکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سروسامان مہیا کردے گا“۔ (سورة الکھف....۶۱)

۰۳۔ سورج غار کو چھوڑ کر طلوع و غروب ہوتا رہا
تم انہیںغار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سُورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیںجانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں پاسکتے۔ (الکھف:۷۱)

۱۳۔ کتا غار کے دہانے پر بیٹھا رہا
تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سورہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور ان کا کُتاّ غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو اُلٹے پا¶ں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔ (الکھف....۸۱)

۲۳۔ اصحابِ کہف کا طویل نیند سے بیدار ہونا
اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اٹھا بٹھایا تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ اُن میں سے ایک نے پوچھا، ”کہو، کتنی دیر اس حالت میں رہے؟“ دوسروں نے کہا ”شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے“۔ پھر وہ بولے ”اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حالت میں گزرا۔ چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے کچھ کھانے کے لیے لائے۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اگر کہیں ان لوگوںکا ہاتھ ہم پر پڑگیا تو بس سنگسار ہی کرڈالیں گے، یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پاسکیں گے“....اس طرح ہم نے اہل شہرکو اُن کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بیشک آکر رہے گی۔ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ”ان پر ایک دیوار چُن دو، ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے“۔ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا ”ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے“۔ (سورة الکھف....۱۲)

۳۳۔ اصحابِ کہف: صحیح تعداد اللہ ہی جانتا ہے
کچھ لوگ کہیںگے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتاّ تھا۔ اور کچھ دوسرے کہہ دیںگے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتاّ تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتاّ تھا۔ کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو۔(سورة الکھف....۲۲)

۴۳۔ وہ غار میں تین سو سال تک سوتے رہے
اوردیکھو، کسی چیز کے بارے میں کبھی نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کردوں گا۔ (تم کچھ نہیں کرسکتے) الاّیہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے رب کو یاد کرو اور کہو ”امید ہے کہ میرا رب اس معاملے میں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرمادے گا“۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ مدت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں۔ تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدت زیادہ جانتا ہے،آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سُننے والا! (زمین و آسمان کی مخلوقات کا) کوئی خبرگیر اس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (سورة الکھف....۶۲)

۵۳۔ افراط و تفریط پر مبنی طریقِ کار والے
اے نبی ﷺ، تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیاگیا ہے اسے (جوں کا توں) سُنا دو،کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردوبدل کروگے تو) اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پا¶ گے۔ اور اپنے دل کوان لوگوں کی معیت پرمطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کرصبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میںلے چکی ہیں۔ وہاں اگروہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور اُن کے منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بُری آرام گاہ! (سورة الکھف....۹۲)

۶۳۔ جنتی ،سونے کے کنگن، اورریشمی لباس
رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں،تو یقینا ہم نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اوراطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیںگے، اور اُونچی مسندوں پر تکیے لگاکر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام!(سورة الکھف....۱۳)

۷۳۔انگور کے باغ پر گھمنڈ کرنے والے کا حشر
اے نبی ﷺ، ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ دو شخص تھے۔ ان میں سے کو ہم نے انگور کے دو باغ دیئے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بارآور ہونے میں انہوںنے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کردی اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پاکر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ”میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں“۔ پھر وہ اپنی جنت میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ”میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہوجائے گی، اورمجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پا¶ں گا“۔ اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ”کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بناکھڑا کیا؟ رہا میں، تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہورہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاءاللہ، لاقوة الاباللہ؟ اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرمادے اورتیری جنت پرآسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے، یا اس کا پانی زمین میں اترجائے اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے“ آخرکار ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ ماراگیا اور وہ اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیّوں پر الٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ”کاش! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا“ نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھاّ کہ اس کی مدد کرتا ، اور نہ کرسکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ اس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔ (سورة الکھف....۴۴)

۸۳۔ مال و اولاد محض دنیوی ہنگامی آرائش ہےں
اور اے نبی ﷺ، انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھا¶ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسادیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بُھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ فکر اس دن کی ہونی چاہیے جبکہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پائو گے ، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چُھوٹے گا، اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے جائیں گے ....لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کوپہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے....اور نامہ¿ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اورکہہ رہے ہوں گے کہ ”ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہوگئی ہو“۔ جو جو کچھ انہوںنے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔ (سورة الکھف....۹۴)

۹۳۔ ابلیس انسان کا دشمن ہے
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ؑکو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔ اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذُریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کررہے ہیں۔ میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت ان کو نہیں بلایا تھا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔ میراکام یہ نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنایا کروں۔ پھرکیاکریں گے یہ لوگ اس روز جبکہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ ان کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کردیں گے۔ سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ (الکھف....۳۵)

۰۴۔انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے
ہم نے اس قرآن میں لوگوںکو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ ان کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر ان کو کس چیز نے روک دیا؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہوچکا ہے،یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں! (سورة الکھف....۵۵)

۱۴۔ رسولوں کا کام بشارت و تنبیہ دینا ہے
رسولوںکو ہم اس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دے دیں۔ مگر کافروں کا یہ حال ہے کہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور انہوں نے میری آیات کو اور ان تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنالیا ہے۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سُناکرنصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سروسامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیئے ہیںجو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے اور ان کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کردی ہے۔ تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلا¶، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہوںنے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا، اوران میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کررکھا تھا۔(سورة الکھف....۹۵)

۲۴۔ سفرِ موسٰی ؑ اور مچھلی کا دریا میں گرنا
(ذرا ان کو وہ قصہ سنا¶ جو موسٰی ؑکو پیش آیا تھا) جبکہ موسٰی ؑنے اپنے خادم سے کہا تھا کہ ”میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریا¶ں کے سنگم پر نہ پہنچ جا¶ں، ورنہ میں ایک زمانہ¿ دراز تک چلتا ہی رہوں گا“۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہوگئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسٰی ؑنے اپنے خادم سے کہا ” لا¶ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں“۔ خادم نے کہا ”آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی“۔ موسٰی ؑنے کہا، ”اسی کی توہمیں تلاش تھی“۔ (سورة الکھف....۴۶)

۳۴۔ صاحب ِدانش سے موسٰی ؑ کی ملاقات
چنانچہ و ہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔موسٰی ؑنے اس سے کہا ”کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟“ اس نے جواب دیا، ”آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے، اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟“ موسٰی ؑ نے کہا ”انشاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا“۔ اس نے کہا ”اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔(سورة الکھف....۰۷)

۴۴۔ کشتی میں شگاف اور لڑکے کا قتل
اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اُس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسٰی ؑنے کہا ”آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبودیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کرڈالی“۔ اس نے کہا ”میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے؟“ موسٰی ؑنے کہا ”بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں“۔پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اُس شخص نے اسے قتل کردیا۔ موسٰی ؑنے کہا ”آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اُس نے کسی کا خون نہ کیا تھا؟یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا“۔ (سورة الکھف....۴۷)
 
Top