پیر اور جمعرات کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:

احسان اللہ

محفلین
پیر اور جمعرات کے دن کی اہمیت :
تحریر:احسان اللہ کیانی
ہم جو بھی عمل کرتے ہیں ،اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے
یہ پیش کرنا تین طرح سے ہوتا ہے
پہلی صورت :
ہر دن اور ہر رات کے اعمال پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیےجاتے ہیں
دوسری صورت :
پھر سات دنوں کے اعمال پیر اور جمعرات کے دن پیش کیے جاتے ہیں
تیسری صورت :
پھر سارے سال کے اعمال شعبان کی پندرہویں شب کو پیش کیے جاتے ہیں ۔
اسی لیے نبی کریم علیہ السلام پیر ، جمعرات اور شعبان کی پندرہوریں تاریخ کا روزہ رکھا کرتے تھے
آپ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ،مجھے پسند ہے کہ جس دن اللہ کی بارگاہ میں میرے اعمال پیش کیے جائیں ،اس دن میں روزہ کی حالت میں ہوں
پیر کے دن روزہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام اس دن پیدا ہوئے تھے ،اسی دن آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی ۔
ہمیں بھی ان دنوں کو خاص اہتمام کے ساتھ گزارنا چاہیے ،ان دنوں میں کثرت سے عبادت کرنی چاہیے ،روزہ رکھنا چاہیے ،ان دنوں میں اللہ سے بخشش طلب کرنی چاہیے ،توبہ کرنی چاہیے ،ان دنوں سے پہلے پہلے لوگوں سے بھی معافی مانگ لینی چاہیے
کیونکہ
پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازہ کھو ل دیے جاتے ہیں ،اس دن اللہ تعالی لوگوں کے گناہ معاف فرماتا ہے ،اس دن جو مغفرت طلب کرتا ہے ،اسے بخش دیا جاتا ہے ،جو توبہ کرتا ہے ،اسکی توبہ قبول کی جاتی ہے
البتہ
جو مسلمان آپس میں لڑے ہوئے ہوتے ہیں ،جو آپس میں ناراض ہوتے ہیں ،انکی بخشش ان دنوں میں بھی نہیں کی جاتی ،اسی طرح جو شخص رشتہ داروں سے رشتہ داری ختم کر دیتا ہے ،اسکی بھی ان دنوں میں بخشش نہیں کی جاتی ۔
یہی وجہ ہے کہ
نبی کریم علیہ السلام نے منع فرمایا ہے کہ
کوئی مسلمان دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے
کیونکہ
اگر کوئی ناراض رہے گا ،تو وہ بخشش سے محروم رہ جائے گا
آپ غور کریں
مسلمانوں کی باہمی لڑائی اور رشتہ داروں سے تعلق ختم کرنا کیسے گناہ ہیں ،کہ ان کی وجہ سے مغفرت رُک جاتی ہے ،ہاں اگر لوگ آپس میں صلح کر لیں ،ایک دوسرے سے معافی مانگ لیں ،تو پھر اللہ تعالی بھی انہیں معاف فرمادیتا ہے
اب ہم اپنی بات کو قابل اعتبار بنانے کیلئے ،تحر یر میں لکھے گئے، ہر ہر جملے پر ایک ایک دلیل پیش کردیتے ہیں،تاکہ آپ اسے پورے اطمینان کے ساتھ دوسروں تک بھی پہنچا سکیں ۔

ملاحظہ فرمائیں
ہماری باتوں کے دلائل :

صبح و شام اعمال کا پیش ہونا :
حدیث شریف میں ہے :
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ
ترجمہ :
بے شک اللہ تعالی سوتا نہیں ہے ،یہ اس کی شان کے لائق بھی نہیں ہے کہ وہ سو جائے ،وہ میزان کو پست اور بلند کرتا ہے
رات کے عمل ،دن کے عمل سے پہلے اسکی طرف بلند کیے جاتے ہیں اور دن کے عمل رات کے عمل سے پہلےاسکی طرف بلند کیے جاتے ہیں
اس کی ذات کا حجاب نور ہے ،اگر وہ اس نور کے حجاب کو ہٹا دے ،تو اسکی ذات کے انوار تمام مخلوقات کو جلادیں ،مخلوقات میں سے کسی کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی ۔
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ان اللہ لا ینام )

پیر اور جمعرات کے دن اعمال کا پیش ہونا :
حدیث شریف میں ہے
تُعْرَضُ الأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ»
اعمال پیر اور جمعرات کے دن اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ،اس لیے میں پسند کرتا ہوں ،جب میرے اعمال پیش کیے جائیں ،تو میں روزہ دار ہوں
(سنن ترمذی ،ابواب الصوم ،باب ما جاء فی صوم یوم الاثنین والخمیس،حدیث :747،مصطفی البابی الحلبی ،مصر)

توجہ طلب :

پیرا ور جمعرات کے دن روزہ رکھنا بھی سنت ہے
اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ،یہ بات صراحت کے ساتھ سنن نسائی میں موجود ہے

پیر اور جمعرات کے دن مغفرت کی جاتی ہے :
حدیث شریف میں ہے :
تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ خَمِيسٍ وَاثْنَيْنِ، فَيَغْفِرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، لِكُلِّ امْرِئٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا امْرَأً كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "
ترجمہ :
پیر اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،اللہ ان دنوں میں ہر شخص کی بخشش فرما دیتا ہے ،جو مشرک نہ ہو اور مسلمان سے بغض ،کینہ اور دشمنی نہ رکھنے والے ہو ۔
دشمنی والوں کے لیے حکم ہوتا ہے ،انہیں چھوڑ دو ،یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں
(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ ،باب النھی عن الشحناء)

پیر و جمعرات کو لوگوں کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں :
حدیث شریف میں ہے:
تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ، فَيَغْفِرُ اللَّهُ الذُّنُوبَ، إِلَّا قَاطِعَ رَحِمٍ، أَوْ مُشَاحِنًا
ہر پیر اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،ان دنوں میں اللہ گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے ،سوائے قاطع رحم اور مشاحن کے
(مساوئ الاخلاق ،امام خرائطی ،ج 1 ،ص 136،حدیث 276،مکتبۃ السوادی ،جدہ )

توجہ طلب :
رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والوں اور آپس میں عداوت رکھنے والوں کے گناہ ان ایام میں بھی معاف نہیں کیے جاتے

امام مناوی وغیرہ نے اس طرح کی حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے :
اس دن صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ، کبیرہ گناہوں کی معافی کیلئے توبہ کرنا ضروری ہے
(التیسیر شرح الجامع الصغیر ،امام مناوی ،ج1،ص 450،مکتبۃ الامام الشافعی ،الریاض )

ان دنوں لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے :
حدیث شریف میں ہے
تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَمِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَيُغْفَرُ لَهُ، وَمِنْ تَائِبٍ فَيُتَابُ عَلَيْهِ، وَيُرَدُّ أَهْلُ الضَّغَائِنِ لِضَغَائِنِهِمْ حَتَّى يَتُوبُوا
ترجمہ :
پیر اور جمعرات کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،جو مغفرت طلب کرنے والا ہوتا ہے اسکی بخشش کی جاتی ہے ،جو توبہ کرنے والا ہوتا ہے ،اسکی توبہ قبول کی جاتی ہے ،کینہ رکھنے والوں کو کینہ کی وجہ سے رد کر دیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ وہ توبہ کر لیں ۔
(المعجم الکبیر ،حدیث 7419،دار الحرمین ،القاھرہ)

شعبان میں اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں :
حدیث شریف میں ہے
إِنَّهُ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ وَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ
شعبان وہ ماہ ہے ،جس میں لوگوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں ،میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے اور میں روزے کی حالت میں ہوں
(مرقاۃ شرح المشکاۃ ،ج4،ص 1422،دار الفکر ،بیروت )

شب برات میں گزشتہ سال کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں :
ملاعلی قاری فرماتے ہیں :
وَالَّذِي يَلُوحُ لِي الْآنَ أَنَّ لَيْلَةَ النِّصْفِ هِيَ الَّتِي تُعْرَضُ فِيهَا أَعْمَالُ السَّنَةِ الْمَاضِيَةِ كَمَا أَنَّهَا تُكْتَبُ فِيهَا جَمِيعُ مَا يَقَعُ فِي السَّنَةِ الْآتِيَةِ، وَلِذَا قَالَ: " قُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا
جو مجھ پر ابھی ظاہر ہوا ہے کہ وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہی وہ رات ہے جس میں گزشتہ سال کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،جیسے اسی رات اگلے سال کے رونماہونے والے واقعات لکھے جاتے ہیں ۔
اسی لیے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا
اس رات قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو
(مرقاۃ شرح المشکاۃ ،ج4،ص 1422،دارالفکر ،بیروت )

ان روایات کو سمجھنے کیلئے ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں :
امام ابن حجر کا قول :
َقَالَ ابْنُ حَجَرٍ: أَعْمَالُ الْأُسْبُوعِ إجْمَالًا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ وَأَعْمَالُ الْعَامِ إجْمَالًا لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلَيْلَةَ الْقَدْرِ وَأَمَّا عَرْضُهَا تَفْصِيلًا فَبِرَفْعِ الْمَلَائِكَةِ لَهَا بِاللَّيْلِ مَرَّةً وَبِالنَّهَارِ مَرَّةً
ترجمہ:
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں
ہفتے کے اعمال اجمالا پیر اور جمعرات کے دن پیش کیے جاتے ہیں ،سال کے اعمال اجمالا شعبان کی پندرہویں شب اور لیلۃ القدر کو پیش کیے جاتے ہیں ،تفصیلا اعمال صبح شام ایک ایک مرتبہ فرشتے پیش کر تے ہیں
(حاشية البجيرمي على شرح المنهج )

پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں :
حدیث شریف میں ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فِي كُلِّ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ - وَتُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ، فَيَغْفِرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، إِلَّا الْمُتَشَاحِنَيْنِ، يَقُولُ اللهُ لِلْمَلَائِكَةِ: ذَرُوهُمَا حَتَّى يَصْطَلِحَا
ترجمہ:
پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور پیر اور جمعرات کے دن اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ،اس دن اللہ تعالی ہر اس بند ے کو معاف فرمادیتا ہے ،جو کافر نہ ہو اور کسی مسلمان سے بغض او رعداوت نہ رکھتا ہو ۔
جو مسلمان آپس میں ناراض ہوتے ہیں ۔۔۔اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے ۔۔۔انہیں چھوڑ دو ۔۔۔۔حتی کہ یہ آپس میں صلح کر لیں ۔
(مسند احمد :7639)
اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ،یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔

صحیح مسلم کی شرح اکمال المعلم میں ہے
معنى فتح أبوابها: كثرة الصفح والغفران فى هذين اليومين، ورفعة المنازل، وإعطاء الجزيل من الثواب، ويحتمل أن يكون على ظاهره، وأن فتح أبوابها علامة على ذلك ودليل عليه.
ترجمہ :
جنت کے دروازے کھلنے سے مراد ،ان دنوں میں کثرت سے معافی ،بخشش ،درجات کی بلندی اور ثواب کی زیادتی ہے
یہ بھی احتمال ہے کہ ان الفاظ کے ظاہر ی معنی ہی مراد ہو ،اور جنت کے دروازے کھلنا ،اس پر دلیل اور علامت ہو۔
(اکمال المعلم ،قاضی عیاض ،ج8،ص 33،دار الوفاء ،مصر )

پیر کے دن روزہ رکھنے کی دوسری وجہ :
نبی کریم علیہ السلام سے پیر کے روزے کے متعلق پوچھا گیا ،تو آپ نے فرمایا :
ذَلِكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ
ترجمہ
یہ وہ دن ہے،جس دن میں پیدا ہوا اور مجھ پر پہلی وحی نازل ہوئی
(رواہ احمد فی مسندہ ،ومسلم فی صحیحہ ،و ابودائود فی سننہ )

اللہ تو سب جانتا ہے ،پھر اعمال پیش کرنے کا مقصد :
علامہ بیجوری فرماتے ہیں :
حكمة العرض أن الله تعالى يباهي بالطائعين الملائكة،
وإلا فهو غني عن العرض لأنه أعلم بعبادة من الملائكة
ترجمہ :
اعمال پیش کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے اطاعت گزار بندوں کی وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے ،ورنہ وہ تو پیش کرنے سے بے نیاز ہے ،کیونکہ وہ فرشتوں سے زیادہ بندوں کے اعمال کو جاننے والا ہے
(مرعاۃ شرح مشکوۃ ،علامہ مبارکپوری )

دوسری وجہ :
امام قلیوبی فرماتے ہیں:
وَكُلُّ ذَلِكَ لِإِظْهَارِ الْعَدْلِ وَإِقَامَةِ الْحُجَّةِ
یہ سب تو صرف اظہارِعدل اور اتمام حجت کیلئے ہے
(حاشیہ قلیوبی علی المحلی ،ج2،ص 92،دار الفکر ،بیروت )

تحریر لکھنے کے مقاصد :
یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ ان دنوں کو اہمیت دیں ،ان دنوں میں کثرت سے نیکیاں کریں ،دن کو روزہ رکھیں ،انکی راتوں میں قیام کریں ،ان دنوں میں اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگیں ،توبہ کریں ،جن بندوں سے بلاوجہ شرعی ناراض ہیں ،ان سے بھی معافی مانگیں ،ممکن ہو ،تو میرے لیے بھی ایمان پر موت کی دعا مانگیں ۔
طالب دعا :
احسان اللہ کیانی
5۔مئی ۔2018
 
Top