پہنچے جو مثلِ ابر ہم آنسو بھرے ہوئے - تعشق لکھنوی

حسان خان

لائبریرین
پہنچے جو مثلِ ابر ہم آنسو بھرے ہوئے
برسوں سے تھے جو خشک بیاباں ہرے ہوئے
آنسو بھر آئے دیکھ کے بادل بھرے ہوئے
صحرا کے ساتھ زخم جگر کے ہرے ہوئے
خالی ہوئے جو آنکھوں کے بادل بھرے ہوئے
گلزار و کوہ و شہر و بیاباں ہرے ہوئے
خوفِ شبِ فراق سے تھرا رہا ہے دل
دامن میں طفلِ اشک چھپے ہیں ڈرے ہوئے
وہ نخل خشک تھے نہ مبارک ہوئی بہار
بجلی گری فلک سے ذرا جب ہرے ہوئے
اٹھتے ہیں امتحان کو بادل بہار کے
ہم بھی بہت دنوں سے ہیں اے دل بھرے ہوئے
چمکی جو جوش میں ترے وحشی کی برقِ آہ
بیٹھے ہیں آشیانوں میں طائر ڈرے ہوئے
کھینچو نہ میرے سینے سے اے قاتلِ جہاں
تم کیا کرو گے تیر لہو میں بھرے ہوئے
بیتاب ہے پئے سرِ شوریدہ تیغِ یار
لڑکوں کے دامنوں میں ہیں پتھر بھرے ہوئے
وحشت سرائے دہر میں آیا نہ پھر کوئی
ایسے گئے یہاں سے مسافر ڈرے ہوئے
آنکھیں ہیں اپنی عالمِ غربت میں سدِ راہ
ہیں ہر قدم پہ اشک کے دریا بھرے ہوئے
نالے میں کیا کروں شبِ تاریکِ ہجر میں
چپکے ہیں آج مرغِ سحر تک ڈرے ہوئے
جھنجھلا کے باغباں نے مجھے ذبح تو کیا
اب رو رہا ہے منہ کو قفس پر دھرے ہوئے
اللہ رے پاسِ الفتِ پروانہ بعدِ مرگ
روتی ہے شمع سامنے لاشہ دھرے ہوئے
(تعشق لکھنوی)
 
Top