اعتبار ساجد پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی - اعتبار ساجد

جان

محفلین
غزل
اعتبار ساجد

پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی
اب تک ترے آنے کی شہادت نہیں آئی

موسم تھا نمائش کا مگر آنکھ نہ کھولی
جاناں ترے زخموں کو سیاست نہیں آئی

جو روح سے آزار کی مانند لپٹ جائے
ہم پر وہ گھڑی اے شبِ وحشت نہیں آئی

اے دشت انا الحق ترے قربان ابھی تک
وہ منزلِ اظہارِ صداقت نہیں آئی

ہم لوگ کہ ہیں ماؤں سے بچھڑے ہوئے بچے
حصے میں کسی کے بھی محبت نہیں آئی

ہم نے تو بہت حرف تری مدح میں سوچے
افسوس کہ سنوائی کی نوبت نہیں آئی

لرزے بھی نہیں شہر کے حساس در و بام
دل راکھ ہوئے پھر بھی قیامت نہیں آئی

ساجدؔ وہ سحر جس کے لئے رات بھی روئی
آئی تو سہی حسبِ ضرورت نہیں آئی

اعتبار ساجد
 
آخری تدوین:
Top