پھانسی کا قیدی ، شورش

فرید احمد

محفلین
پس دیوار زنداں ، از شورش کاشمیری سے ایک اقتباس

مجھے پھانسی پانے والے قیدیوں سے خاصی دل چسپی رہی ، میں ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھتا رہا ، میرے سامنے کوئی پانچ چھ سو قیدی تختہ دار پر لٹکے ہوں گے، ان میں صرف دو بے گناہ تھے، ایک نے کہا کہ اس نے کوءی قتل نہیں کیا، جس میں وہ پھانسی لگ رہا ہے، البتہ اس سے پہلے وہ ایک قتل کر چکا ہے، لیکن اس میں ہو گیا تھا، دوسرا پھانسی کے تختہ پر چلا چلا کر کہتا رہا میں بے ناہ ہوں، گواہ رہنا میں بے گناہ ہوں ، میں نے قتل نہیں کیا ، تھانیدار نے قاتلوں سے رشوت لے کر مجھے پھانسی لگوا دی ہے، میں بے گناہ ہوں ، باقہ جتنے قیدی بھی میرے سامنے پھانسی پاتے رہے میں ان کے ہاتھوں کی ریکھا بھی دیکھتا رہا اور پوچھتابھی رہا ، وہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ ناحق پھانسی نہیں پا رہے، انہوں نے قتل کیا ہے، عام طور پر قتل کے محرکات میں ذاتی عداوتیں ، خاندانی بدلے ، ڈاکہ اور اسی قسم کے دوسرے اسباب مضمر ہوتے ہیں ۔ اپنی ذات سے باہر کسی عشق یا مقصد کے لیے شاذ ہی کوءی جان دیتا ہے ،
اسی صوبہ کے ایک قصبہ پلول میں ایک ہندو سرکاری سرجن تھا، جس نے اپنے گدھے کا ( خاکم بدہن ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر رکھا تھا، ایک مسلمان نوجوان نے اسے قتل کر ڈالا ۔
عدالت نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا جو آخر تک بحال رہا، اس کے پھانسی پانے کے ایک پہلے میں اسے ملا، وہ چھریرے بدن کا ایک خوبصورت نوجوان تھا، بڑا مطمئن تھا، مطلقا پشیمان یا ہراساں نہ تھا، اسے یقین تھا کہ وہ بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہو رہا ہے، چنانچہ بڑی جواں مردی کے ساتھ دار کے تختہ پر گیا ، بڑے اطمینان کے ساتھ جان دی ،
مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ ابی و امی ) سے جو عشق ہے ، اور اسلام کے آثار و مظاہر سے جو محبت ہے وہ شاید ہی کسی پیرو مذبب کو اپنی ہادی یا مذہب سے ہو ،
مسلمانوں نے ١٨٥٧ سے لے کر تحریک خلافت ١٩٢٠ تک ذوق و شوق سے دار و رسن کو لبیک کہا ، اور جواں مردی کے بڑے بڑے نشان چھوڑے ، اس کے بعد بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد شہید گنج کے انہدام پر ( رہ نماؤں کے اغراض مشؤمہ سے قطع نظر ) نوجوانوں نے جس دلیری سے دو روز تک گولیاں کھائیں ، اور متواتر اڑتالیس اور ساتھ گھنٹے تک نورچہ باندھے رکھا بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ قرن اول کے غزوات ہی کا عکس تھا،
ہم جہاد و قربانی کے جو معرکے کتابوں میں پڑھتے ہیں ، ا کی تصویر سے اس کی نظیر مختلف ہو جاتی ہے، کہ یہاں ایک طرف حکومت کے جبر واستعداد کا سر وسامان تھا، دوسری طرف نہتے نوجوانوں کا شوق شہادت جو انہیں کھنیچ کھینچ کے گولیوں کے سامنے لایا تھا ۔
 
Top