محسن وقار علی
محفلین
پچیس کروڑ تو وہ رقم ہے جو اسلام آباد پولیس کو درکار تھی لانگ مارچ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے۔ یہ کیا کوئی معمولی رقم ہے؟ اور وہ رقم جو لاہور سے اسلام آباد تک کے بے مقصد، منزل ناآشنا مسافروں پر خرچ ہوئی اس کے سوا ہے۔ اس کا تخمینہ تو وہی لگائیں جن کی جیب نے یہ بھاری بوجھ برداشت کیا ہو۔ عوام کو دلچسپی یا تشویش ہے تو اس رقم سے جو حکومت کو خرچ کرنا پڑی، وہ رقم جس کا بوجھ عوامی خزانہ پر پڑا۔ رہی وہ رقم جو دراصل خرچ ہو ئی، اس کے اعداد و شمار تو بعد میں سامنے آئیں گے۔ فی الحال تو پچیس کروڑ روپے کا مطالبہ سامنے ہے۔ اس رقم کا سوچتے ہی ذہن ان اسکولوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جن میں بجلی نہیں ہے، بجلی ہے تو پنکھے نہیں، پانی ہے تو بیت الخلاء ندارد، ڈیسک ہیں تو اساتذہ نہیں ہے۔ یہ وہ اسکول ہیں جہاں اس ملک کی آئندہ قیادت تعلیم حاصل کرتی ہے۔ (یہ صرف کہنے کی بات ہے ورنہ وہاں تو ہم غریب غربا کے بچےّ پڑھتے ہیں، ’قائدین‘ کی اولادیں تو ایئرکنڈیشنڈ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں)۔پچیس کروڑ سے اور اس خطیر رقم سے جو اس بے معنیٰ مہم جوئی پر خرچ ہوئی، ان بہت سے اسکولوں کی حالت سنواری جاسکتی تھی۔ کسی کو کوئی اندازہ ہے اس ملک کے اسکولوں کی حالت کیا ہے؟ ڈھائی کروڑ بچے ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں، پورے ملک میں 35 فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے، 48 فیصد میں بیت الخلاء نہیں ہیں، 40 فیصد چاردیواری کے بغیر ہیں اور 61 فیصد بجلی سے محروم ہیں۔ صرف سندھ میں پچیس ہزار اسکولوں میں پانی موجود نہیں اور 35 ہزار بغیر بجلی کے ہیں۔ اسکولوں کی حالت زار کا ہی تذکرہ کیا، سرکاری اسپتال کون سے بہتر ہیں۔ پورے ملک میں اگر ہوا تو ایک آدھ اسپتال ہی ایسا ہوگا جہاں سے عام آدمی کو دوا مل جاتی ہو باقی معاملات کون سے ٹھیک ہیں۔ اس ملک کی98 فیصد آبادی جس مشکل میں زندگی گزارتی ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو کیسے ہوسکتا ہے جو محلوں میں رہتے ہیں، جن کے لانگ مارچ کیلئے بھی بلٹ پروف کنٹینر میں ہر قسم کی آسائشیں موجود ہوں، ریفریجریٹر سے لے کر مائیکروویو اوون تک اور وہ تمام سہولتیں جن سے عام آدمی عام زندگی میں محروم رہا ہے اور لانگ مارچ میں شرکت کے وقت بھی۔اس ملک میں پچیس کروڑ روپے اور جو کچھ بھی اس مہم جوئی پر خرچ ہوا، کوئی چھوٹی موٹی رقم نہیں ہے۔ یہ رقم کوئی صاحب کینیڈا سے اپنے ساتھ نہیں لائے ہیں۔ انہوں نے تو اپنی ساری زندگی میں بھی اتنا ٹیکس نہیں دیا ہو گا، اتنا تو کیا اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں دیا ہوگا۔ ایک عرصہ سے تو وہ اس ملک کی شہریت ہی تج چکے ہیں۔ وہ کسی اور ملک، اور وہاں کی ملکہ سے وفاداری کا حلف اٹھاچکے ہیں اور جب وہ یہاں تھے تو انہوں نے کون سا اتنا ٹیکس دیا ہوگا اپنی ساری زندگی میں۔
مگر اب ان کی حفاظت کے لئے اتنی بڑی رقم درکار ہے۔ اس ملک میں جہاں ایک عام آدمی کو کسی بھی قسم کا تحفظ نہیں ہے، جہاں دن دہاڑے درجنوں لوگ ہلاک کردیئے جاتے ہوں، جہاں عام آدمی سرِشام اور دن میں کسی بھی وقت لٹ جاتا ہو، وہاں ایک خودساختہ شیخ کا تحفّظ حکومت کے گلے پڑ گیا، ایک ایسی مہم کے دوران جس کا اگر کوئی ایجنڈا ہے تو عام آدمی سے اس کا کوئی تعلق ہے نہ آپ کا نہ میرا۔ وہ ان کا اپنا طے کردہ ایجنڈہ ہے، یہ کام ہم نے انہیں سونپا نہیں، جس نے سونپا ہے وہ جانتے ہوں گے یا یہ خود۔ اس ملک کے عوام نے تو یقینا ان سے نہیں کہا کہ آپ اس بے آسرا، درماندہ قوم کی حالت سدھارنے کے لئے یہاں تشریف لائیں۔ اس قوم کو شاید آپ کی ضرورت بھی نہیں۔ آپ کو خود بھی اندازہ تھا کہ آپ کی پیش گوئیوں اور خوابوں سے یہ قوم تنگ آچکی ہے اسی لئے آپ بیرون ملک سدھار گئے۔ وہاں ملکہ کے وفادار بن گئے اور پھر اچانک وارد ہوئے، دھمکیاں دینا شروع کردیں، مطالبات پیش کرنا شروع کردیئے، وہ مطالبات جن سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو یاد ہے اپنی جماعت سے آپ اکیلے ہی منتخب ہوسکے تھے، جس عوام کے نام پر آج آپ دھمکی دے رہے ہیں اس نے آپ کی قیادت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کہیں اسی لئے تو آپ انتخابات کے مخالف نہیں ہوگئے کہ سیدھے راستے سے آپ کو اقتدارکی لیلیٰ کا وصل نصیب نہیں ہو سکتا اور جب آپ قومی اسمبلی کے رکن تھے تو آئین پاکستان کی دفعہ 62 اور 63 اس وقت بھی موجود تھیں۔ جس نشست پر آپ براجمان ہوتے تھے، اس کے آس پاس موجود لوگ ان شرائط کی موجودگی میں ہی منتخب ہوئے تھے۔ آپ کو کچھ یاد ہے کبھی آپ نے اس وقت کوئی ترمیم پیش کی ہو؟ ان قوانین پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہو، اس زور شور سے نہ سہی، جیسے اب آپ کر رہے ہیں، ہلکے پھلکے انداز میں ہی سہی، یاد ہو تو بتا دیں۔
چلئے مانے لیتے ہیں کہ اب آپ یہ مطالبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یہ بھی مانے لیتے ہیں کہ یہ جائز مطالبات ہیں، درست کہ اچھی بات جہاں سے ملے لے لو، کہا تو یہی گیا ہے مگر اس کے لئے اتنی دھمکیاں دینے کی کیا ضرورت ہے؟ کسی نے آپ کو بتایا کہ جو زبان آپ استعما ل کررہے ہیں وہ علماء کے شایانِ شان نہیں، علمائے سو کی بات الگ ہے۔ کیا آپ کو خود یہ اندازہ ہوا کہ آپ نے پورے ملک کو تشنج میں مبتلا کردیا ہے، آپ نے انتخابات کے بارے میں شبہات پیدا کردیئے ہیں۔ جمہوریت پہلی بار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے، اس ملک کے عوام نئے انتخابات کے منتظر ہیں، متمنّی ہیں۔ انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملنے والا ہے، ایسے میں آپ آدھمکے، اور آپ نے اس ملک کے عوام کا یقین متزلزل کردیا، قوم کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی سعی فرمائی، خدشات پیدا کردیئے۔ لانگ مارچ، لانگ مارچ کی دھمکی بھی دی، یہ جانے بغیر کہ لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر لانگ مارچ سے دور کی مناسبت بھی نہیں رکھتا۔
آپ کے اس سفر کے دوران جو خرچ ہوا اور حکومت پر جو بوجھ پڑا، کسی مناسب فورم پر اس کا جواب طلب کیا جانا چاہئے۔ یہ رقم جو آپ نے خرچ کرائی، اس کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سے عوام کی بھلائی کے جو کام ہو سکتے تھے، وہ نہیں ہوسکے اور آپ کی اس بے مقصد مہم جوئی سے کاروبار کو جو دھچکا لگا، جو نقصان ہوا یہ کس نے کیا، اس کا ذمہ دار کون ہے،کون جواب دے گا۔ آپ تو اس کا بھی جواب نہیں دیتے کہ اپنے اس ’مس ایڈونچر ‘ پر آپ نے جو بے تحاشہ پیسہ بہایا ہے وہ کس کا ہے، کہاں سے آیا۔ آپ بھی جواب نہیں دیتے۔ یہاں کوئی جواب نہیں دیتا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
مگر اب ان کی حفاظت کے لئے اتنی بڑی رقم درکار ہے۔ اس ملک میں جہاں ایک عام آدمی کو کسی بھی قسم کا تحفظ نہیں ہے، جہاں دن دہاڑے درجنوں لوگ ہلاک کردیئے جاتے ہوں، جہاں عام آدمی سرِشام اور دن میں کسی بھی وقت لٹ جاتا ہو، وہاں ایک خودساختہ شیخ کا تحفّظ حکومت کے گلے پڑ گیا، ایک ایسی مہم کے دوران جس کا اگر کوئی ایجنڈا ہے تو عام آدمی سے اس کا کوئی تعلق ہے نہ آپ کا نہ میرا۔ وہ ان کا اپنا طے کردہ ایجنڈہ ہے، یہ کام ہم نے انہیں سونپا نہیں، جس نے سونپا ہے وہ جانتے ہوں گے یا یہ خود۔ اس ملک کے عوام نے تو یقینا ان سے نہیں کہا کہ آپ اس بے آسرا، درماندہ قوم کی حالت سدھارنے کے لئے یہاں تشریف لائیں۔ اس قوم کو شاید آپ کی ضرورت بھی نہیں۔ آپ کو خود بھی اندازہ تھا کہ آپ کی پیش گوئیوں اور خوابوں سے یہ قوم تنگ آچکی ہے اسی لئے آپ بیرون ملک سدھار گئے۔ وہاں ملکہ کے وفادار بن گئے اور پھر اچانک وارد ہوئے، دھمکیاں دینا شروع کردیں، مطالبات پیش کرنا شروع کردیئے، وہ مطالبات جن سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو یاد ہے اپنی جماعت سے آپ اکیلے ہی منتخب ہوسکے تھے، جس عوام کے نام پر آج آپ دھمکی دے رہے ہیں اس نے آپ کی قیادت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کہیں اسی لئے تو آپ انتخابات کے مخالف نہیں ہوگئے کہ سیدھے راستے سے آپ کو اقتدارکی لیلیٰ کا وصل نصیب نہیں ہو سکتا اور جب آپ قومی اسمبلی کے رکن تھے تو آئین پاکستان کی دفعہ 62 اور 63 اس وقت بھی موجود تھیں۔ جس نشست پر آپ براجمان ہوتے تھے، اس کے آس پاس موجود لوگ ان شرائط کی موجودگی میں ہی منتخب ہوئے تھے۔ آپ کو کچھ یاد ہے کبھی آپ نے اس وقت کوئی ترمیم پیش کی ہو؟ ان قوانین پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہو، اس زور شور سے نہ سہی، جیسے اب آپ کر رہے ہیں، ہلکے پھلکے انداز میں ہی سہی، یاد ہو تو بتا دیں۔
چلئے مانے لیتے ہیں کہ اب آپ یہ مطالبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یہ بھی مانے لیتے ہیں کہ یہ جائز مطالبات ہیں، درست کہ اچھی بات جہاں سے ملے لے لو، کہا تو یہی گیا ہے مگر اس کے لئے اتنی دھمکیاں دینے کی کیا ضرورت ہے؟ کسی نے آپ کو بتایا کہ جو زبان آپ استعما ل کررہے ہیں وہ علماء کے شایانِ شان نہیں، علمائے سو کی بات الگ ہے۔ کیا آپ کو خود یہ اندازہ ہوا کہ آپ نے پورے ملک کو تشنج میں مبتلا کردیا ہے، آپ نے انتخابات کے بارے میں شبہات پیدا کردیئے ہیں۔ جمہوریت پہلی بار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے، اس ملک کے عوام نئے انتخابات کے منتظر ہیں، متمنّی ہیں۔ انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملنے والا ہے، ایسے میں آپ آدھمکے، اور آپ نے اس ملک کے عوام کا یقین متزلزل کردیا، قوم کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی سعی فرمائی، خدشات پیدا کردیئے۔ لانگ مارچ، لانگ مارچ کی دھمکی بھی دی، یہ جانے بغیر کہ لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر لانگ مارچ سے دور کی مناسبت بھی نہیں رکھتا۔
آپ کے اس سفر کے دوران جو خرچ ہوا اور حکومت پر جو بوجھ پڑا، کسی مناسب فورم پر اس کا جواب طلب کیا جانا چاہئے۔ یہ رقم جو آپ نے خرچ کرائی، اس کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سے عوام کی بھلائی کے جو کام ہو سکتے تھے، وہ نہیں ہوسکے اور آپ کی اس بے مقصد مہم جوئی سے کاروبار کو جو دھچکا لگا، جو نقصان ہوا یہ کس نے کیا، اس کا ذمہ دار کون ہے،کون جواب دے گا۔ آپ تو اس کا بھی جواب نہیں دیتے کہ اپنے اس ’مس ایڈونچر ‘ پر آپ نے جو بے تحاشہ پیسہ بہایا ہے وہ کس کا ہے، کہاں سے آیا۔ آپ بھی جواب نہیں دیتے۔ یہاں کوئی جواب نہیں دیتا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک