پوشاک نہ تو پہنیو اے سرو رواں سرخ

معین الدین

محفلین
پروین ام مشتاق
پوشاک نہ تو پہنیو اے سرو رواں سرخ
ہو جائے نہ پرتو سے ترے کون و مکاں سرخ
یاں بادۂ احمر کے چھلکتے ہیں جو ساغر
اے پیر مغاں دیکھ کہ ہے ساری دکاں سرخ
پی بادۂ احمر تو یہ کہنے لگا گل رو
میں سرخ ہوں تم سرخ زمیں سرخ زماں سرخ
کیا پان کی سرخی نے کیا قتل کسی کو
شدت سے ہے کیوں آج تری تیغ زباں سرخ
سینہ میں دل غمزدہ خوں ہو گیا شاید
بے وجہ بھی ہوتے ہیں کہیں اشک رواں سرخ
کیا بھڑکے ہے سینہ میں مرے آتش فرقت
جو آہ کے ہمراہ نکلتا ہے دھواں سرخ
یہ قتل خزاں پر ہیں جوانان چمن شاد
ہر سمت گل و لالہ اڑاتے ہیں نشاں سرخ
گر میری شہادت کی بشارت نہیں پرویںؔ
پھر کیوں ہے خط شوق کے عنواں یہ نشاں سرخ
 
Top