پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کا سیکولرزم

squarened

معطل
میرے بچے ایک پرائیویٹ سکول میں غیر ملکی اساتذہ کے زیر تعلیم ہیں، ان کو ٹیوٹر بھی میسر ہیں، اگر نوکری کے وقت ان کا ایک گاؤں کے سرکاری سکول میں پڑھنے والے کو یکساں معیار سے پرکھا جائے گا تو گاؤں والے پیچھے ہی رہیں گے۔

پرائیویٹ سکول اور ٹیوٹر سے پڑھنے کے بعد اگر آپ کا بچہ جوتیاں چٹخاتا پھرے اور اس پر سرکاری نوکری کے داخلے عملا بند ہوں تو یہ اصولی طور پر درست ہوگا؟
اور یہ گاؤں والے آخر کب تک پیچھے رہیں گے؟ اس دورانیہ میں ان تک تعلیم پہنچانا کوٹہ مسلط کرنے والوں کا فرض نہیں تھا؟ ڈومیسائل دیہی کا بنواتے ہیں، تعلیم شہری حاصل کرتے ہیں پھر نوکری دیہی پر حاصل کرتے ہیں
میرے بچپن کے ایک بڑے پیارے مہاجر دوست ہیں جو روز مجھے وٹس ایپ پہ پنجاب کے ہر ضلع میں ہونے والے جرائم کی رپورٹ بھیجتے رہتے ہیں، مجھے اب ان باتوں کی عادت ہو گئی ہے۔
چیک کر لیں ایچ اے خان ہی تو آپ کے دوست نہیں؟
آپ کو عادت ہو بھی جائے تو اس سے غلط چیز درست نہیں ہو جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ منفی ریٹنگز، معطلی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ہے لیکن غلط چیز کا جواب اگر غلط طریقہ سے ہی دیا جائے تو پھر فرق کیا رہ جائے گا؟
پھر تو ایم کیو ایم بھی اپنے ہر کام کا جواز پیش کر سکتی ہے
 

عباس اعوان

محفلین
یہ بات مذاق کی نہیں اصل پاکستانی مہاجر ہیں باقی بعد میں بنے
پاکستانی وہ ہیں جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوؤں سے الگ قوم قرار پائے ۔ باقی آپ اپنی تعریف پر قائم رہیے۔
ویسے اگر کسی پر احسان کیا جائے بلکہ کسی کی نسلوں پر احسان کیا جائے اور پھر وہ کہے کیا احسان کیا ہے اس کو احسان فراموش بلکہ محسن کش کہتے ہیں۔ یہ بدترین قسم کا اخلاق ہے
میرے مراسلے میں کہیں آپ کو احسان، محسن، نسل، اخلاق، بد اخلاق اور ایسے دوسرے الفاظ دکھائی دیے ؟ میں نے کب کہا کہ احسان کیا ہے ؟ اگر نہیں تو آپ مجھ کو مخاطب کر کے یہ الفاظ کیوں استعمال کر رہے ہیں ؟
 
پاکستانی وہ ہیں جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوؤں سے الگ قوم قرار پائے ۔ باقی آپ اپنی تعریف پر قائم رہیے۔

میرے مراسلے میں کہیں آپ کو احسان، محسن، نسل، اخلاق، بد اخلاق اور ایسے دوسرے الفاظ دکھائی دیے ؟ میں نے کب کہا کہ احسان کیا ہے ؟ اگر نہیں تو آپ مجھ کو مخاطب کر کے یہ الفاظ کیوں استعمال کر رہے ہیں ؟

احسان مہاجروں نے موجودہ پاکستانیوں کی نسلوں پر کیا ہے
 
کئی روز اس لڑی پر لڑائیاں دیکھ رہا تھا ، حیرت بھی ہوئی افسوس اور دکھ بھی، مگر یہ تمام کیفیات مندرجات پر نہیں ، بلکہ اس بات پر ہے کہ
"تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد"
یعنی ابتدائی چند سطور کے مطالعہ سے محرکاتِ تحریر کا اندازہ ہو جاتا ہے، مگر اس کے باوجود اپنے دوستوں کو اس میں الجھتے پایا ۔ ابھی پچھلے دنوں فرقہ وارانہ مباحث تھے ، اور اب یہ لسانی
جب سے دیکھا کے ہمارے دوست درمیان میں بولتے ہیں ، نا چاہتے ہوئے کچھ نہ کچھ بولنا ہی پڑا ۔ مگر اب شاید بجلی کے جانے کا وقت ہو چلا ہے ۔
یہ آخری فیصلہ کن لمحات جاری ہے ۔۔۔۔ بجلی کسی بھی وقت جا سکتی ہے۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔۔ میں نامکمل جواب کے باوجود "جواب ارسال کری" پر کلک کرسکوں گا یا نہیں ۔۔۔
 

squarened

معطل
اب شاید بجلی کے جانے کا وقت ہو چلا ہے ۔
یہ آخری فیصلہ کن لمحات جاری ہے ۔۔۔۔ بجلی کسی بھی وقت جا سکتی ہے۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔۔ میں نامکمل جواب کے باوجود "جواب ارسال کری" پر کلک کرسکوں گا یا نہیں ۔۔۔

کل کریم آباد کی طرف سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو بِرج پر تازہ پاکستانی جھنڈا پینٹ ہوا تھا جس پر درج تھا " نہ بجلی نہ پانی پھر بھی دل ہے پاکستانی" کریم آباد مارکیٹ
تو میرے ذہن میں یہی تھریڈ گھوم گیا تھا
 
کل کریم آباد کی طرف سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو بِرج پر تازہ پاکستانی جھنڈا پینٹ ہوا تھا جس پر درج تھا " نہ بجلی نہ پانی پھر بھی دل ہے پاکستانی" کریم آباد مارکیٹ
تو میرے ذہن میں یہی تھریڈ گھوم گیا تھا
کریم آباد مینابازار؟
 
کئی روز اس لڑی پر لڑائیاں دیکھ رہا تھا ، حیرت بھی ہوئی افسوس اور دکھ بھی، مگر یہ تمام کیفیات مندرجات پر نہیں ، بلکہ اس بات پر ہے کہ
"تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد"
یعنی ابتدائی چند سطور کے مطالعہ سے محرکاتِ تحریر کا اندازہ ہو جاتا ہے، مگر اس کے باوجود اپنے دوستوں کو اس میں الجھتے پایا ۔ ابھی پچھلے دنوں فرقہ وارانہ مباحث تھے ، اور اب یہ لسانی
جب سے دیکھا کے ہمارے دوست درمیان میں بولتے ہیں ، نا چاہتے ہوئے کچھ نہ کچھ بولنا ہی پڑا ۔ مگر اب شاید بجلی کے جانے کا وقت ہو چلا ہے ۔
یہ آخری فیصلہ کن لمحات جاری ہے ۔۔۔۔ بجلی کسی بھی وقت جا سکتی ہے۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔۔ میں نامکمل جواب کے باوجود "جواب ارسال کری" پر کلک کرسکوں گا یا نہیں ۔۔۔
مبارک ہو جناب کہ آپ نے جواب ارسال کری چهوڑیا
 

squarened

معطل
وہ تو خواتین کا ہے۔
اول تو میں نے لکھا تھا کہ ادھر سے گزرنا ہوا یہ نہیں کہ میں وہیں گئی تھی۔ دوسرے خواتین کی صنف میں ہی شامل ہوں اس لیے جب ضرورت ہو تو وہاں بھی جاتی ہوں!! خواتین کے لیے مخصوص صرف ایک حصّہ کی ایک فلور ہے ، آپ بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر جا سکتے ہیں
اصل نکتہ یہ تھا کہ کریم آباد مارکیٹ میں اکثر دکاندار ایم کیو ایم کے حمایتی ہی ہیں، تقریبا وہ پورا علاقہ ہی ایم کیو ایم کا گڑھ ہے۔ وہاں یہ جملہ تازہ تازہ لکھا دیکھ کر اس تھریڈ کی یاد آنا ایک فطری بات ہے
 
"تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد"
تو اتنی جلدی بھی نہ اتریں کہ خود صیاد حیرت میں پڑ جائے :)
شاید کبھی پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سماجی رابطے کے فورمز اور ویب سائٹس پر عموماََ سستی شہرت اور فوری توجہ کے حصول کیلئے دو تین طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ منافرت پر مبنی، دل آزاری سے لبریز ، لوگوں کی تحقیر سے پُر گفتگو کرنا ، جس کا فوری جواب عموماََ آجاتا ہے اور حاملِ تحریر کو منفی ہی سہی شہرت مل جاتی ہے۔ یا زمانے سے نرالی کہنے کا خبط ، اجتماعی شعور انسانی کو مضحکہ خیز قرار دینے کا شوق، اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ڈھونگ بھی وہ طریقہ ہے جس سے اچھی یا بُری کی بحث سے آزاد فوری شہرت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ طے شدہ مباحث ، مستحکم امور، اجماعی معاملات کی از سر نو بھونڈی تحقیق بھی ایسا ہی ایک زریعہ ہے جس سے مذکورہ بالا خواہشات کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ اضافی اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف بڑھتا ہے خیالات کی دھکم پیل میں الفاظ قابو سے باہر ہوتے ہیں اور رائے کی مخالفت ذات کی دشمنی پر پہنچ جاتی ہے۔

اب ان معاملات پر آپ دوستوں سے اور کیا کہوں۔ جن لوگوں کے جیوں میں ٹیڑھ ہے ان سے واسطہ نہیں مگر جب ظہیر عباس ورک اور راحیل فاروق جیسے سلجھے ہوئے نوجوانوں کو اس مٰیں الجھتا دیکھتا ہوں تو جی کڑھتا ہے(1) ۔ انسانوں کی تقسیم بھی عجیب معاملہ ہے ۔ جب بل کلنٹن ہندوستان آیا اور آگرے میں تاج محل کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اس نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ، یعنی ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور ایک وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ :) کچھ لوگ انسانوں کو بھی بھیڑ بکریوں کی طرح علاقائی اور نسلی طور سے تقسیم سمجھتے ہیں ۔ یعنی پہاڑی بکری علیحدہ ہے، بڑے کان والی الگ، چھوٹے قد کی بکری جدا۔۔ الغرض ان کی تقسیم خالص ان چیزوں پر ہے جس پر بیچاری بکری کا کوئی اختیار نہیں، ویسے بھی جانور تو ہوتے ہی بے اختیار ہیں ۔ انسان کی یہ تفریق ممکن نہیں ہے انسان اپنے نظریے اپنی فکر اور اپنے طرزِ عمل سے منقسم ہے ۔

زمین پر لکیروں کی مدد سے کچھ خانے بنائیں اور ان کے کچھ نام رکھ دیں پھر اپنی جھولی میں چند پتھر ، کوئلے ،گوبر، پلاسٹ، سبزی، لوہے، سونا ، چاندی کے ٹکرے رکھ کر اچھال دیں ۔ سونا جس خانے میں بھی گرے سونا ہی ہوگا، چاندی چاندی ہی رہے گی، گوبر ہر خانے میں گوبر ہی رہے گا۔ یہی مثال انسانوں کی ہے ۔ نیک دل ، منکسرالمزاج، بلند اخلاق، اعلیٰ دماغ کے لوگ ، انسانوں کی ایک قسم ہے ، یہ کہیں بھی پیدا ہوں کسی ملک میں رہیں ، کسی شہر میں پلیں بڑھیں ، کوئی بھی زبان بولتے ہوں یہ ایک ہی جماعت ہیں۔ سادہ لو، عوامی مزاج ، عمومی عقل سمجھ کی ایک اور جماعت ہے یہ بھی ہر قریہء زمین پر مل جاتی ہے۔ اسی طرح کئی قسمیں ہیں اچھوں کی بھی بُروں کی بھی ۔ اچھائی یا بُرائی، بدی اور بھلائی کبھی خطہء زمین سے متعلق نہیں ہوتیں بلکہ سوچ ، فکر اور رجحان سے علاقہ رکھتی ہیں ۔
اس تمہیدی بات کے بعد اپنی بات پر آتا ہوں، مجھے اس دھاگے کے عنوان سے متعلق گفتگو مقصود نہیں ، بلکہ اپنے دوستوں کی گفتگو میں پڑ جانے والی ایک گرہ پر بات کرنی ہے ۔

حاشیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ۔ ظہیر عباس ورک اور راحیل فاروق کا نام تمثیل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ جن دوستوں کا نام مذکور نہیں انہیں میں نوجوان نہیں سمجھتا :D ، باقی تمام افراد بھی انتہائی قابلِ احترام اور سلجھے ہوئے ہیں ۔ (راحیل فاروق بھائی سے، نوجوانوں میں شامل کرنے کی بابت اضافی تائید کا خواہاں ہوں ):p
 
آخری تدوین:
شاید کبھی پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سماجی رابطے کے فورمز اور ویب سائٹس پر عموماََ سستی شہرت اور فوری توجہ کے حصول کیلئے دو تین طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ منافرت پر مبنی، دل آزاری سے لبریز ، لوگوں کی تحقیر سے پُر گفتگو کرنا ، جس کا فوری جواب عموماََ آجاتا ہے اور حاملِ تحریر کو منفی ہی سہی شہرت مل جاتی ہے۔ یا زمانے سے نرالی کہنے کا خبط ، اجتماعی شعور انسانی کو مضحکہ خیز قرار دینے کا شوق، اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ڈھونگ بھی وہ طریقہ ہے جس سے اچھی یا بُری کی بحث سے آزاد فوری شہرت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ طے شدہ مباحث ، مستحکم امور، اجماعی معاملات کی از سر نو بھونڈی تحقیق بھی ایسا ہی ایک زریعہ ہے جس سے مذکورہ بالا خواہشات کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ اضافی اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف بڑھتا ہے خیالات کی دھکم پیل میں الفاظ قابو سے باہر ہوتے ہیں اور رائے کی مخالفت ذات کی دشمنی پر پہنچ جاتی ہے۔
خوب فرمایا۔
 
اول تو میں نے لکھا تھا کہ ادھر سے گزرنا ہوا یہ نہیں کہ میں وہیں گئی تھی۔ دوسرے خواتین کی صنف میں ہی شامل ہوں اس لیے جب ضرورت ہو تو وہاں بھی جاتی ہوں!! خواتین کے لیے مخصوص صرف ایک حصّہ کی ایک فلور ہے ، آپ بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر جا سکتے ہیں
اصل نکتہ یہ تھا کہ کریم آباد مارکیٹ میں اکثر دکاندار ایم کیو ایم کے حمایتی ہی ہیں، تقریبا وہ پورا علاقہ ہی ایم کیو ایم کا گڑھ ہے۔ وہاں یہ جملہ تازہ تازہ لکھا دیکھ کر اس تھریڈ کی یاد آنا ایک فطری بات ہے

نہیں میں کبھی نہیں گیا
وہ میمنوں کا گڑھ ہے
 

جاسمن

لائبریرین
تو اتنی جلدی بھی نہ اتریں کہ خود صیاد حیرت میں پڑ جائے :)
شاید کبھی پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سماجی رابطے کے فورمز اور ویب سائٹس پر عموماََ سستی شہرت اور فوری توجہ کے حصول کیلئے دو تین طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ منافرت پر مبنی، دل آزاری سے لبریز ، لوگوں کی تحقیر سے پُر گفتگو کرنا ، جس کا فوری جواب عموماََ آجاتا ہے اور حاملِ تحریر کو منفی ہی سہی شہرت مل جاتی ہے۔ یا زمانے سے نرالی کہنے کا خبط ، اجتماعی شعور انسانی کو مضحکہ خیز قرار دینے کا شوق، اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ڈھونگ بھی وہ طریقہ ہے جس سے اچھی یا بُری کی بحث سے آزاد فوری شہرت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ طے شدہ مباحث ، مستحکم امور، اجماعی معاملات کی از سر نو بھونڈی تحقیق بھی ایسا ہی ایک زریعہ ہے جس سے مذکورہ بالا خواہشات کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ اضافی اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف بڑھتا ہے خیالات کی دھکم پیل میں الفاظ قابو سے باہر ہوتے ہیں اور رائے کی مخالفت ذات کی دشمنی پر پہنچ جاتی ہے۔

اب ان معاملات پر آپ دوستوں سے اور کیا کہوں۔ جن لوگوں کے جیوں میں ٹیڑھ ہے ان سے واسطہ نہیں مگر جب ظہیر عباس ورک اور راحیل فاروق جیسے سلجھے ہوئے نوجوانوں کو اس مٰیں الجھتا دیکھتا ہوں تو جی کڑھتا ہے(1) ۔ انسانوں کی تقسیم بھی عجیب معاملہ ہے ۔ جب بل کلنٹن ہندوستان آیا اور آگرے میں تاج محل کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اس نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ، یعنی ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور ایک وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ :) کچھ لوگ انسانوں کو بھی بھیڑ بکریوں کی طرح علاقائی اور نسلی طور سے تقسیم سمجھتے ہیں ۔ یعنی پہاڑی بکری علیحدہ ہے، بڑے کان والی الگ، چھوٹے قد کی بکری جدا۔۔ الغرض ان کی تقسیم خالص ان چیزوں پر ہے جس پر بیچاری بکری کا کوئی اختیار نہیں، ویسے بھی جانور تو ہوتے ہی بے اختیار ہیں ۔ انسان کی یہ تفریق ممکن نہیں ہے انسان اپنے نظریے اپنی فکر اور اپنے طرزِ عمل سے منقسم ہے ۔

زمین پر لکیروں کی مدد سے کچھ خانے بنائیں اور ان کے کچھ نام رکھ دیں پھر اپنی جھولی میں چند پتھر ، کوئلے ،گوبر، پلاسٹ، سبزی، لوہے، سونا ، چاندی کے ٹکرے رکھ کر اچھال دیں ۔ سونا جس خانے میں بھی گرے سونا ہی ہوگا، چاندی چاندی ہی رہے گی، گوبر ہر خانے میں گوبر ہی رہے گا۔ یہی مثال انسانوں کی ہے ۔ نیک دل ، منکسرالمزاج، بلند اخلاق، اعلیٰ دماغ کے لوگ ، انسانوں کی ایک قسم ہے ، یہ کہیں بھی پیدا ہوں کسی ملک میں رہیں ، کسی شہر میں پلیں بڑھیں ، کوئی بھی زبان بولتے ہوں یہ ایک ہی جماعت ہیں۔ سادہ لو، عوامی مزاج ، عمومی عقل سمجھ کی ایک اور جماعت ہے یہ بھی ہر قریہء زمین پر مل جاتی ہے۔ اسی طرح کئی قسمیں ہیں اچھوں کی بھی بُروں کی بھی ۔ اچھائی یا بُرائی، بدی اور بھلائی کبھی خطہء زمین سے متعلق نہیں ہوتیں بلکہ سوچ ، فکر اور رجحان سے علاقہ رکھتی ہیں ۔
اس تمہیدی بات کے بعد اپنی بات پر آتا ہوں، مجھے اس دھاگے کے عنوان سے متعلق گفتگو مقصود نہیں ، بلکہ اپنے دوستوں کی گفتگو میں پڑ جانے والی ایک گرہ پر بات کرنی ہے ۔

حاشیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ۔ ظہیر عباس ورک اور راحیل فاروق کا نام تمثیل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ جن دوستوں کا نام مذکور نہیں انہیں میں نوجوان نہیں سمجھتا :D ، باقی تمام افراد بھی انتہائی قابلِ احترام اور سلجھے ہوئے ہیں ۔ (راحیل فاروق بھائی سے، نوجوانوں میں شامل کرنے کی بابت اضافی تائید کو خواہاں ہوں ):p

جزاک اللہ خیرا۔
 
تو اتنی جلدی بھی نہ اتریں کہ خود صیاد حیرت میں پڑ جائے :)
شاید کبھی پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سماجی رابطے کے فورمز اور ویب سائٹس پر عموماََ سستی شہرت اور فوری توجہ کے حصول کیلئے دو تین طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ منافرت پر مبنی، دل آزاری سے لبریز ، لوگوں کی تحقیر سے پُر گفتگو کرنا ، جس کا فوری جواب عموماََ آجاتا ہے اور حاملِ تحریر کو منفی ہی سہی شہرت مل جاتی ہے۔ یا زمانے سے نرالی کہنے کا خبط ، اجتماعی شعور انسانی کو مضحکہ خیز قرار دینے کا شوق، اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ڈھونگ بھی وہ طریقہ ہے جس سے اچھی یا بُری کی بحث سے آزاد فوری شہرت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ طے شدہ مباحث ، مستحکم امور، اجماعی معاملات کی از سر نو بھونڈی تحقیق بھی ایسا ہی ایک زریعہ ہے جس سے مذکورہ بالا خواہشات کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ اضافی اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف بڑھتا ہے خیالات کی دھکم پیل میں الفاظ قابو سے باہر ہوتے ہیں اور رائے کی مخالفت ذات کی دشمنی پر پہنچ جاتی ہے۔

اب ان معاملات پر آپ دوستوں سے اور کیا کہوں۔ جن لوگوں کے جیوں میں ٹیڑھ ہے ان سے واسطہ نہیں مگر جب ظہیر عباس ورک اور راحیل فاروق جیسے سلجھے ہوئے نوجوانوں کو اس مٰیں الجھتا دیکھتا ہوں تو جی کڑھتا ہے(1) ۔ انسانوں کی تقسیم بھی عجیب معاملہ ہے ۔ جب بل کلنٹن ہندوستان آیا اور آگرے میں تاج محل کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اس نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ، یعنی ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور ایک وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ :) کچھ لوگ انسانوں کو بھی بھیڑ بکریوں کی طرح علاقائی اور نسلی طور سے تقسیم سمجھتے ہیں ۔ یعنی پہاڑی بکری علیحدہ ہے، بڑے کان والی الگ، چھوٹے قد کی بکری جدا۔۔ الغرض ان کی تقسیم خالص ان چیزوں پر ہے جس پر بیچاری بکری کا کوئی اختیار نہیں، ویسے بھی جانور تو ہوتے ہی بے اختیار ہیں ۔ انسان کی یہ تفریق ممکن نہیں ہے انسان اپنے نظریے اپنی فکر اور اپنے طرزِ عمل سے منقسم ہے ۔

زمین پر لکیروں کی مدد سے کچھ خانے بنائیں اور ان کے کچھ نام رکھ دیں پھر اپنی جھولی میں چند پتھر ، کوئلے ،گوبر، پلاسٹ، سبزی، لوہے، سونا ، چاندی کے ٹکرے رکھ کر اچھال دیں ۔ سونا جس خانے میں بھی گرے سونا ہی ہوگا، چاندی چاندی ہی رہے گی، گوبر ہر خانے میں گوبر ہی رہے گا۔ یہی مثال انسانوں کی ہے ۔ نیک دل ، منکسرالمزاج، بلند اخلاق، اعلیٰ دماغ کے لوگ ، انسانوں کی ایک قسم ہے ، یہ کہیں بھی پیدا ہوں کسی ملک میں رہیں ، کسی شہر میں پلیں بڑھیں ، کوئی بھی زبان بولتے ہوں یہ ایک ہی جماعت ہیں۔ سادہ لو، عوامی مزاج ، عمومی عقل سمجھ کی ایک اور جماعت ہے یہ بھی ہر قریہء زمین پر مل جاتی ہے۔ اسی طرح کئی قسمیں ہیں اچھوں کی بھی بُروں کی بھی ۔ اچھائی یا بُرائی، بدی اور بھلائی کبھی خطہء زمین سے متعلق نہیں ہوتیں بلکہ سوچ ، فکر اور رجحان سے علاقہ رکھتی ہیں ۔
اس تمہیدی بات کے بعد اپنی بات پر آتا ہوں، مجھے اس دھاگے کے عنوان سے متعلق گفتگو مقصود نہیں ، بلکہ اپنے دوستوں کی گفتگو میں پڑ جانے والی ایک گرہ پر بات کرنی ہے ۔

حاشیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ۔ ظہیر عباس ورک اور راحیل فاروق کا نام تمثیل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ جن دوستوں کا نام مذکور نہیں انہیں میں نوجوان نہیں سمجھتا :D ، باقی تمام افراد بھی انتہائی قابلِ احترام اور سلجھے ہوئے ہیں ۔ (راحیل فاروق بھائی سے، نوجوانوں میں شامل کرنے کی بابت اضافی تائید کو خواہاں ہوں ):p
زیادہ تر اصحاب کے جواب ایسے تھے کہ اگر منفی ریسپانس پہ بھی اکتفا کیا جاتا تو کافی تھا، موضوع پہ اس سے زیادہ کچھ دخل نہیں تھا ان جوابات کا۔ بہرحال آپ نے حسن و اخلاق کو جو بھگو بھگو کے مارا ہے اس سے قطع نظر، میں صرف انسانوں کی تقسیم کے حوالے سے نقطہ پہ بات کروں گا۔
انسانوں کی تقسیم کے کئی زاویے اور جہتیں ہیں۔ اجتماعی اور گروہی تقسیم اور رویے میں انفرادی صفات کا کچھ خاص دخل نہیں ہوتا۔ جمل اور صفین میں دونوں طرف منکسر المزاج اور نیک دل بھی تھے، عوامی اور سادہ مزاج کے بھی۔ مگر اس کے باوجود ان کی تلواریں ایک دوسرے کے خون سے رنگی گئیں۔
 
تقسیم سے پہلے مسلمان ، معاشی طور پہ پسماندہ تر تھے۔ تقسیم کے بعدمغربی پنجاب کے متمول، متعلم اور حاکم طبقے کی مشرقی پنجاب ہجرت کر جانے سے، پنجابی مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور انہوں نے ہندو اور سکھوں کی جگہ لی۔ گو کہ پنجاب پاکستان بنانے کی دوڑ میں دیر سے شامل ہوا مگر تقسیم کے بعد نظریہ تقسیم پہ قائم رہا۔ سندھ میں متمول غیر مسلم شہری آبادی اور بیوروکریسی کہ جگہ مہاجروں نے لی اور ان کہ ہجرت تقسیم کے کئی سال بعد (۵۱) تک جاری رہی۔ یہ بھی قومیت کی تشکیل میں مذہب کے بنیاد ہونے پہ قائم رہے۔ مگر جوں جوں حکومت پہ بیوروکریسی سے زیادہ فوج کا قبضہ بڑھتا گیا، حاکم طبقہ میں مہاجروں کی نمائندگی میں کمی ہوتی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام پہ تین حرف بھیجے اور لسانی سیاست کا بیڑہ اٹھایا، تقسیم کو غلطی قرار دیا اور خود کو یقین دلایا کہ مغل تخت وہ پاکستان کی خاطر چھوڑ آئے، اور اس قربانی کا ان کو صلہ نہیں ملا۔ لیکن اس بات کو فراموش کر دیا گیا کہ صدیوں وہ ہندوستان میں ایک حاکم اقلیت رہے، اور اکثر و بیشتر ایران اور وسط ایشیا سے آئے تھے یا عرب سے۔ آزادی کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ ہندو اپنی عددی اور معاشی برتری کے باعث ان کا ڈنڈا ڈولی نہ کرتے، جیسا کہ ہو رہا ہے۔
بہت عجیب۔۔۔۔۔نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔۔۔ ؟ محبت اور امن وآشتی کی بات کیوں نہیں کرتے ۔۔۔
 
بہت عجیب۔۔۔۔۔نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔۔۔ ؟ محبت اور امن وآشتی کی بات کیوں نہیں کرتے ۔۔۔
میری نیت اور نظر میں اس میں کو نفرت پھیلانے والی بات نہیں ہے، عشروں سے یہ سیاسی رویہ موجود ہے، اس پہ بات ہی نہ کرنے سے ابتک تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
 
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جس طرح آپ پاکستانی ہونے کے باوجود ورک ہیں، لغاری ہیں، مزاری ہیں، اسی طرح ہم پاکستانی ہونے کے باوصف مہاجر ہیں، مہاجروں کی اولاد ہیں، اردو بولنے والے ہیں۔

پاکستان کچھ جغرافیائی حدود کا نام نہیں بلکہ ایک نظریئے کا نام ہے۔ پاکستان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے دارالامان ہے، جس کی خاطر ہمارے آبا و اجداد نے اپنا گھر بار چھوڑا اور یہاں چلے آئے کہ جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا، قانون کی حکمرانی ہوگی، اسلام کے نام لیوا سکون سے اپنے اللہ کی عبادت کرسکیں گے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب دارالامان مدینہ ہجرت فرمائی تو اپنے آپ کو مہاجر ہی کہلوایا، اوسی و خزرجی نہیں کہلوایا۔

ہم ٹوٹے پھوٹے مسلمان سہی، نام لیوا تو انہیں کے ہیں۔ ہمارے اجداد نے بھی کسی دنیوی مقصد کے لیے ہجرت نہیں کی تھی۔ ہم کیوں اپنی شناخت کھودیں۔

اپنی تو پہچان یہی تھی اس پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی

پاکستان اگر جغرافیائی حدود کا نام ہوتا تو آج آدھا ملک بنگلہ دیش نہ بن چکا ہوتا۔ پاکستان ایک نظریئے کا نام ہے اور جو اس نظریئے کو مانتا ہے وہ پاکستانی ہے۔بنگلہ دیش میں کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں پڑے پاکستانی آج بھی پاکستانی ہیں ، جغرافیائی حدود کا نام بنگلہ دیش رکھ دینے سے بنگلہ دیش نہیں بن گئے۔ وہ بھی مہاجر ہیں اور پاکستانی ہیں۔
خوش رہیں سلامت رہیں یہ ایک بہت اچھی وضاحت ہے ۔۔۔
 
جب پاکستان بنا تو اوائل دور میں مہاجر طبقے کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اور بعدازاں مہاجروں کے نام کو استعمال کر کے بعض گروہوں نے اپنے مفادات حاصل کیے اور اپنے ذاتی اور گروہی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے چلے گئے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اب مہاجروں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ایم کیو ایم پاکستان الطاف حسین کے بیانات سے خود کو الگ تھلگ رکھتی ہے تو پھر ان کی نیت پر شک کیوں کیا جاتا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان دل و جان سے الطاف حسین کو ڈِس اون نہ بھی کرے تب بھی ان کا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ وہ الطاف حسین سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھتے۔ جب ہم ایک طبقے کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں تو پھر الطاف حسین ایسے افراد سامنے آتے ہیں جو بظاہر ایک خاص طبقے کے حقیقی رہنما بن کر ابھرتے ہیں تاہم بعدازاں غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے لگ جاتے ہیں تاہم اس میں مہاجر طبقے کا کیا قصور ہے؟ ہر گروہ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کی نگہبانی کرے۔ آج پنجابیوں، سندھیوں، پختونوں، کشمیریوں، بلوچوں اور دیگر گروہوں کے حقوق کوئی غصب کرے گا تو کیا وہ خود کو ریاست میں رہتے ہوئے غیر محفوظ تصور نہ کریں گے؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ محبت فاتحِ عالم ٹھہرتی ہے۔ ہمیں ایثار سے کام لینا چاہیے، مہاجر دربدر ہو کر یہاں پہنچے اور ہجرت آسان عمل نہیں۔ یا تو مان لیجیے، پاکستان کا بننا ہی غلط تھا اور اگر ہم پاکستان کے بننے کو درست تسلیم کرتے ہیں تو پھر مہاجروں کو بھی دل و جان سے پاکستانی تسلیم کرنا ہو گا۔ یقین جانیے، یہ مہاجروں کی توہین ہے کہ ان سے کہلوایا جائے کہ وہ خود کو پاکستانی کہیں۔ وہ ہم سے پہلے پاکستانی ہیں اور اس حوالے سے میں محترم خلیل الرحمٰن بھیا سے پوری طرح متفق ہوں۔
نوٹ: میں مہاجر نہیں ہوں، میرا تعلق پنجاب سے ہے۔
زبردست فرقان صاحب ۔۔۔۔
 
Top