پشاوردہشتگردی۔ تاریخ کا سیاہ دن

تاریخ: 13 جنوری، 2014
پشاوردہشتگردی۔ تاریخ کا سیاہ دن
تحریر: سید انور محمود
سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا، خاصکر وہ والدین جن کے بچے ابھی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعدتعلیمی اداروں میں موسم سرما کی تعطیلات نا صرف مقررہ وقت سے پہلے کردی گئیں تھیں بلکہ بعد میں اُن میں توسیع بھی کر دی گئی تھی اور اس دوران تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے انتظامات کو بڑھایا گیا۔ بارہ جنوری کوسارئے ملک میں اسکولوں کو دوبارہ کھولا گیا۔ پشاور کا آرمی پبلک اسکول جب دوبارہ کھلا تو فوج کےسربراہ جنرل راحیل شریف اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں طالب علموں اور اُنکے والدین کے استقبال کےلیے موجودتھے۔ پاکستانی میڈیا نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی آرمی پبلک اسکول پشاور میں موجودگی کو پوری طرح کوریج دی۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’تمام بچے ہائی سپرٹس میں ہیں اور اس قوم کو شکست نہیں دی جاسکتی‘۔ اسکول ایک مختصر سی تعزیتی تقریب کے بعد دوبارہ بند کردیا گیا اور باضابطہ طور پر اسکول منگل کو کھلے گا۔

بارہ جنوری کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی تقریب میں کوئی سیاسی قیادت موجود نہ تھی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم از کم خیبر پختون خوا کے وزیر تعلیم اور وزیر داخلہ وہاں موجود ہوتے لیکن شاید وزیر اعلی پرویز خٹک اور اُنکی کابینہ کےلیے یہ اہم نہ تھا کہ وہ اُس اسکول میں موجود ہوتے جہاں صرف 26 دن پہلے 132 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ تقریب مختصر ضرور تھی لیکن دہشتگردوں اور پاکستان میں موجود اُنکے حامیوں کےلیے ایک واضع پیغام تھا کہ سوائے گنے چنے طالبان دہشتگردوں کے حامیوں کے پوری قوم اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ سولہ دسمبر 2014ء کے سانحہ کے بعد ساری سیاسی قیادت اکھٹا ہوگئی ہے سوائے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف ) کے جن کا شمارطالبان دہشتگردوں کے ہمدردوں میں سرفہرست ہے۔ پشاور اسکول پر ہوئے حملے کے بعد ملک کی سیاسی وعسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اب دہشت گردوں کےخلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آچکا ہے اور فوج نے جہاں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا وہیں سزا پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پرعملدرآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی۔ اب تک دہشتگردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے سترہ مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

میرئے ایک مضمون ْ نواز شریف ماوُں کی گودیں اجاڑنے کے ذمہ دارْ پر تبصرہ کرتے ہوئے میرئے ایک محترم دوست نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ ْایک بات کی طرف بھی دھیان دیں کہ یہ اسلحہ اور بارود یہ جنرل اسٹور سے ملنے والی اشیاء بالکل نہیں ہیں، ہزارو کلو دھماکہ خیز مواد یہ طالبان گروہ گھروں میں بیٹھ کر تیار نہیں کرتے، ان کے پیچھے جو دوسرے ملکوں کی ایجنسیاں ہیں ان کے بھی ہاتھ کاٹنے چائیے، تازہ ترین صورت حال ہی سمجھ لیں، کہ پھانسی کی سزاؤں پر یورپ میں کیا ردعمل ہو رہا ہے، اور وہ این جی اوز جو بیرون ملک کی فنڈنگ سے چلتی ہیں، اور ہمارے پیارے دیس میں سرکنڈوں کی شکل میں جگہ جگہ پھانسی کی سزاؤں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیںْ۔ محترم دوست کا مشورہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ دہشتگردی کےلیے طالبان دہشتگردوں کواسلحہ اورسرمایہ کہاں سے مل رہا ہے۔ یقینا پشاور کے حملے کے بعد حکومت کے ہاتھ کچھ ایسے ثبوت ملے ہیں جنکو لیکر جنرل راحیل شریف حملے کے دوسرئے دن ہی کابل پہنچ گے تھے اور وہاں اُنکی ملاقات افغان صدر اور فوج کے سربراہ سے ہوئی تھی، اسکے بعد ہی افغان خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان دہشتگردوں کو اسلحہ اور فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہےاور کیوں ہورہی ہے اور اُسکی دہشتگرد کارروایئوں کی حمایت کون کررہا ہے۔ اسکی پہلی وجہ ہمارا ایٹمی طاقت بن جانا ہے عالمی مبصرین پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے اس کھیل کی اصل وجہ اس کے ایٹمی پروگرام کو قرار دیتے ہیں جو عالمی قوتوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے اور وہ دہشت گردی کے ذریعے ان ایٹمی اثاثوں کو غیرمحفوظ قرار دے کر اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہیں۔جبکہ دوسری وجہ بلوچستان میں موجودمعدنی ذخائر اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کی مدد کرنا ہے۔ اگر پاکستان دہشتگردی پر قابو پالیتا ہے تو یقینا پاکستان تیزی سے ترقی کرسکتا اور علاقے کے نام نہاد تھانیدار بھارت کو یہ منظور نہیں۔ ان تمام سازشوں کا مقصد یہ ہے پاکستان کو پر امن نہ رہنے دیا جائے کیونکہ اسکے پیچھے امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے ، بلوچستان میں بھارت ، امریکہ اور اسکے اتحادی اپنی سازشوں کے جال بچھائے ہوئے ہیں، دوسری طرف بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے۔بھارت اور بھارتی لیڈروں کا واحدمقصدہے کہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔ اس مقصدکےلیے بھارت، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی شامل ہیں۔ ان میں سے بھارتی ایجنسی ْرا ْ اور امریکی ایجنسی‘سی آئی اے ْپاکستان میں دہشت گردوں کو اسلحہ اور مختلف ملکوں کی کرنسی فراہم کررہی ہیں۔


لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے میں ایم آئی 6‘ سی آئی اے اور موساد ملوث تھیں۔یہ امریکہ ہی ہے جو طالبان کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کررہا ہے جبکہ تحریک طالبان کے ایک لیڈر نے افغانستان میں واضع الفاظ میں یہ بتایا کہ بھارت اور افغانستان پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہے ہیں اور اپردیر میں جنرل ثناء اللہ خان نیازی، پشاور کے قصہ خوانی بازار اور چرچ پر حملے میں یہی دونوں ملک ملوث ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں ہونے والی اغوا کی وارداتوں میں ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کا ہاتھ ہے۔ بدقسمتی سے بعض عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق صحافت اور سیاست سمیت پاکستان کے تقریباً تمام شعبوں میں کچھ شخصیات ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بعض این جی اوز اور سیاستدان بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کی وارداتوں میں ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت کے باوجود اس میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو ملوث کئے جارہے ہیں۔علاوہ ازیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری لاپتہ افراد کیس میں سکیورٹی اداروں کے بارے جس طرح کے ریمارکس دیتے رہے ہیں وہ بھی دہشتگری بڑھنے کا سبب بننے۔ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی کچھ مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ طالبان کے کھلے حامی ہیں، اسکے علاوہ لال مسجد کا ملا عبدالعزیز اور کچھ صحافی جن میں خاصکراوریا مقبول جان اور جنگ کا انصار عباسی بھی طالبان کے خاص ہمدردوں میں شامل ہیں۔ یہ اسقدر شقی القلب ہیں کہ کسی نہ کسی طرح طالبان کی ہر دہشت گردی کو صیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سولہ دسمبر 2014ء کے المیے نے جہاں ایک طرف پورے ملک میں سوگ کی کیفیت طاری کر دی وہاں پوری قوم نے قومی اتحاد کا بے مثل مظاہرہ کیا۔بارہ جنوری بروز پیرآرمی پبلک اسکول کےبچوں نے اپنے اسکول کی جانب سفرکرتے ہوئے بہت ہی پرامن انداز سے دہشتگردوں کی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کی، وہ اور اُنکے ہمراہ آئے ہوئے اُنکے والدین دہشتگردوں کو پیغام دئے رہے تھے کہ پاکستانی قوم دہشتگردی کا بھرپور مقابلہ کرئے گی اور انشااللہ بہت جلد نہ صرف دہشتگرد بلکہ اُنکے آقا اور پاکستان میں موجود اُنکے حامی جلد ہی نیست و نابود ہوجاینگے۔ پاکستان زندہ باد۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر کالم نگار کے غلط دعوے کو تسليم کر ليا جائے کہ پشاور سکول پر حملے اور ديگر دہشت گردی سے متعلق حملوں کے ليے امريکہ ہی ذمہ دار ہے تو پھر وہ حملہ آور کون تھے جنھيں پاک افواج نے واقعے کے وقت ہلاک کيا تھا اور پھر ٹی ٹی پی اور اس کے قائدين نے ايک ايسے واقعے کی ذمہ داری کيونکر قبول کی جو انھوں نے سرے سے کيا ہی نہيں تھا؟

لکھاری نے بغير کسی ثبوت اور منطق کے يہ دعوی کر ديا کہ دہشت گرد تنظيميں امريکی حکومت سے وسائل اور فنڈز حاصل کر رہی ہیں۔ ليکن اس کے برعکس امريکی حکومت کی جانب سے پاک فوج کو دی جانے والی امداد اور اسلحہ سميت بے شمار وسائل پر مبنی اعداد وشمار ايسے شواہد ہيں جنھيں امريکہ کا سخت ترين نقاد بھی مسترد نہيں کر سکتا ہے۔

Military_grants_to_Pak.jpg



لکھاری کی جانب سے دہشت گردی کے ايشو کو امريکہ کی جانب سے پاکستان کی ايٹمی صلاحيت کو رول بيک کرنے کی کسی مبينہ سازش سے نتھی کرنا غير منطقی اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستان قريب دو عشروں سے دنيا بھر ميں ايک ايٹمی قوت کے طور پر تسليم کيا جا چکا ہے۔ اس دوران امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو ديے جانے والے امدادی پيکجز، ترقياتی منصوبوں کی مد ميں دی جانے والی امداد اور پاک فوج کو سازوسامان کی فراہمی سے متعلق اعدادوشمار پر ايک نگاہ ڈاليں اور پھر ان کا موازنہ دنيا کے ديگر ممالک سے پاکستان کو ملنے والی مدد اور تعاون سے کريں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ لکھاری کے دعوؤں ميں کتنی سچائ ہے۔

ايک طرف تو کالم نگار امريکہ پر الزام لگا رہے ہيں کہ وہ پاکستان کو کمزور کر کے اس کے ايٹمی اساسوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے وہ اور اس سوچ کے حامل مبصرين يہ نظرانداز کر ديتے ہيں کہ جو چيز پاکستان کو کمزور کر رہی ہے وہ دہشت گردی اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی بے چينی کی فضا ہے نا کہ امريکی حکومت جو کہ اب تک حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ ملين ڈالرز کی امداد دے چکی ہے۔ اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہوتا تو اس کے ليے دہشت گردوں کی کاروائياں ہی کافی تھيں، امريکہ کو اپنے ٹيکس دہندگان کے خطير سرمائے‎ کو ضائع کرنے کی کيا ضرورت تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
ایک امریکی دانشور ایرک ڈرائیسٹر جو نیویارک سٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن میں پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہے اور ایک کالم نگار بھی ہے۔ اُس کا ایک مضمون جس کا عنوان تھا "بلوچستان۔ کراس روڈز آف پراکسی وار" 25 جولائی 2012 کو چھپا اُس میں ایرک نے بلوچستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ بظاہر ویران نظر آنے والی یہ زمین اپنی آغوش میں بہت بڑے معدنی خزانے چھپائے ہوئے ہے اور اسکے علاوہ یہ تیل اور گیس کی بین الاقوامی تجارت کے کراس روڈ پر بھی واقعہ ہے اور مستقبل کے سارے گیس پائپ لائنز بھی یہاں ہی سے گذرنے ہیں۔ ایرک نے لکھا کہ ’’ مغربی طاقتیں ایک مضبوط بلوچستان کو ابھرتا نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ علاقہ نہ صرف چین کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ ایران اور پاکستان پر بھی یہاں سے نظر رکھی جا سکتی ہے۔ یہاں پر موجود دہشت گردوں کے مغربی طاقتوں کی سراغ رساں ایجنسیوں سے تعلقات ہیں اور پاکستانی حکومت اور اُسکے سیکورٹی ادارے اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں‘‘۔ ایرک نے اپنے مضمون میں قطر کے ایک انگریزی اخبار دی پینیسوالہ کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق "امریکی ایجنسی سی آئی اے مقامی لوگوں کو 500 ڈالر ماہانہ پر بھرتی کر رہی ہے اسکے علاوہ سی آئی اے کا انچارج جنرل پیٹریاس بلوچستان کو غیر مستحکم اور غیر متوازن کرنے کیلئے افغان مہاجرین کو بھی استعمال کرتا رہا ہے"۔ کالم نگار کے مطابق بلوچستان میں سی آئی اے کے علاوہ برطانیہ کی ایم آئی سکس ، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی ایجنسی را ملوث ہیں۔ برطانیہ کی ایم آئی سکس کے تو بلوچستان لبریشن آرمی سے اسکے بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی سے تعلقات ہیں۔ امریکی کانگرس کے دانا روہر باچر جیسے کئی قانون دان بھی اس سازش میں شریک ہیں اور بلوچستانیوں کو حقِ خود ارادیت دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دانا روہر باچر امریکی حکومت کو صلاح دیتا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے تعلقات قائم کرو اور پاکستان کی جمہوری حکومت سے رشتے توڑ لو۔

امریکہ نے روس کی افغا نستان آمد کا پورا فاہدہ اٹھایا اور مذہب کی آڑ میں جہاد کا نام لیکر پوری دنیا کے فسادی پاکستان لےآیا جنہیں آج ہم دہشتگرد کہتے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردوں اور فسادیوں کو لانے میں امریکہ کا ساتھ دینے کا سہرا تو پاکستان کے سب سے وحشی آمر جنرل ضیاالحق کوجاتا ہے جس نے امریکی ڈالروُں کے عوض اور اپنی حکومت کو طویل کرنے کےلیےروس کے ساتھ افغانستان میں کرائے کی جنگ لڑئی۔اور جب ضیاالحق سے کام نکل گیا تو امریکہ نے اپنے ایک سفیر اور ایک میجر کے ساتھ اپنے اتحادی کو اوپر پہنچا دیا۔ امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ کا سابق ایجنٹ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا۔ اُس وقت افغانستان میں جاہل ملا عمر کی طالبانی حکومت تھی جسکو امریکہ کی رضا مندی سےصرف تین ممالک نے تسلیم کیا ہواتھا یعنی پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جس نےکہا تھا کہ 9/11 کے واقعہ میں 17 سعودی عرب اور 2 متحدہ عرب عمارت کے باشندئے شامل ہیں سیدھا دوڑا افغانستان کیوں چلا آیا۔ اسکی وجہ اسامہ بن لادن تھا اور بقول امریکہ اسامہ اور اسکے ساتھی اس دہشت گردی کے ماسٹر ماینڈ تھے اور امریکہ اپنے پالتو کو کبھی نہیں چھوڑتا ، جدید تاریخ میں صدام حسین اسکی ایک مثال ہے۔

فواد یا آپ جو کوئی بھی ہو کیونکہ ہر فورم پر آپکے مختلف نام ہوتے ہیں آپ سے ایک چھوٹی سی درخواست ہے کہ اپنے آقا امریکہ سے کہیں کہ وہ ایک عام پاکستانی کی اس درخواست کو قبول کرلے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کرئے اور اپنے ٹيکس دہندگان کے خطير سرمائے‎ کو پاکستان پر ضائع نہ کرئے کیونکہ اس سرمائے سے اُسکے پالتو اپنا گھر بھرتے ہیں، پاکستانی عوام کو کوئی فاہدہ نہیں ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
محترم سید انور محمود صاحب السلام و علیکم! آپ کے جذبات ایک دُکھی پاکستانی دِ ل کے ترجمان ہیں۔ میرے ذہن میں بھی کچھ خیالات اُبھرتے ہیں اُمید ہے کہ آپ اور دیگر دوست احباب قابلِ توجہ سمجھیں گے۔ پاکستان اور انڈیا ایک ہی دِن آزادہوئے۔ انڈیا میں آبادی، غربت اور دیگر مسائل پاکستان سے کئی گُنا ہیں، مگر ایسا کیوں ہے کہ اُس کا عالمی تشخص وطنِ عزیز سے کہیں مختلف ہے۔ یہی امریکہ جو ہمارے ایٹمی پروگرام کے درپے ہےسوِ ل ایٹمی ٹیکنالوجی میں اُس کا حلیف ہے اور اِسی عمل میں پاکستان سے تعاون سے انکاری ہے۔ ہم اِ سے امریکہ کی مسلم تعصب پر مبنی پالیسی کہیں تو اِ سے کیا کہیں کہ امریکہ کا ازلی دشمن روس بھی اِسی انڈیا پر فریفتہ ہے حالانکہ دشمن کا دوست ایک طرح سے دشمن ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے میں نے تفریحا" پولیٹیکل سائینس میں ایم اے کیا ہے۔ بد قسمتی یوں کہ تب سے عذابِ آگہی کا شکار ہوں۔ امریکہ، برطانیہ، روس،ترکی،چین اور پاکستان کے سیاسی ارتقاء اورتقابلی جائزے نے اِک بدترین احساسِ زیاں، احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی سے دوچارکیا۔ انڈیا میں بھی کرپٹ سیاستدان ہیں مگر شائد وہاں کرپٹ اور اپنے حلف کے غدار جرنیل نہیں ہیں جو مارشل لا لگا کر ملک میں دودھ اور شہد کی وہ نہریں بہا سکیں کہ ہم جن میں ڈوب رہے ہیں۔ صرف ضیا ہی کیوں آپ جس مسیحا پر بھی نظر ڈالیں گے اپنی لہو لہو دھرتی کا جواز پا لیں گے۔ ایسی کیا مجبوری تھی کہ ڈرون حملے امریکہ کرتا رہا اور ذمہ داری ہمارےعقلمند اپنے سر لیتے رہے۔ امریکہ تک میں احتجاج ہو رھا ہے کہ یہ حملے غیر قانونی، غیر اخلاقی اورغیر انسانی عمل ہیں مگر اِدھر سینہ چوڑا کر کے ذمہ داری لی جاتی رہی اور اِس حقیقت کو منظرِ عام پر لانے والے صحافی قتل کر دیے گئے۔ جیسےکوئی بھی ہوش مند پشاور حملوں کو ظلم اور بربریت کی انتہا کہے بنا نہیں رہ سکتا ایسے ہی ہمیں مانناہوگا کہ ڈرون حملوں میں مرنے والے بے گناہ پاکستانی ہوں یا ہمارے دارالحکومت اسلام آباد کی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بے گناہ اور معصوم شہداء سب کی زندگی ایک جیسی محترم اور قیمتی ہے ورنہ جان لیجئےکہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
اسکے علاوہ سی آئی اے کا انچارج جنرل پیٹریاس بلوچستان کو غیر مستحکم اور غیر متوازن کرنے کیلئے افغان مہاجرین کو بھی استعمال کرتا رہا ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ بالکل درست ہے کہ ہر ملک اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ يہ اصول امريکہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ليکن يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کا بہترين طريقہ يہ ہوتا ہے کہ آپ باہمی احترام اور مفادات کی بنياد پر دوستی، وسعت پسندی اور بہتر سفارتی تعلقات کو فروغ ديں۔

اس تناظر ميں امريکی حکومت اور پاليسی ساز اداروں کے ليے کيا حقيقت زيادہ فائدہ مند ہے؟ ايک غير مستحکم پاکستان جس ميں دہشت گردی اور آزادی کی تحريکيں عروج پر ہوں يا ايک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان جو نہ صرف خطے کی استحکام کو يقينی بنائے گا بلکہ امريکی مفادات کو بھی يقينی بنائے گا جن ميں خطے سے ہماری افواج کی کامياب اور بحفاظت واپسی بھی شامل ہے؟

خطے ميں موجودہ صورت حال کا عقلی اور تعميری تجزيہ اسی نتيجے کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدم استحکام اور اتحاد کا فقدان پاکستان کو انتشار کی جانب لے جائے گا جو سارے خطے پر اثرانداز ہو گا اور نہ صرف امريکی اور عالمی مفادات کو نقصان پہنچائے گا بلکہ امريکی شہريوں کی زندگيوں کو بھی خطرے ميں ڈال دے گا۔

يہ بات خود امريکہ کے بہترين مفاد ميں ہے کہ پاکستان ميں ايک فعال، جمہوری اور مستحکم حکومت ہو جو پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کر سکے۔

امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو۔

ان دوستوں کی تسلی کے لیے يہ واضح کر دوں جو بلوچستان کے حوالے سے امريکی کی مبينہ سازشوں پر مبنی کہانيوں پر يقين رکھتے ہيں کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ديواروں پر لگے ہوئے درجنوں نقشوں ميں بلوچستان واضح طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
جب ضیاالحق سے کام نکل گیا تو امریکہ نے اپنے ایک سفیر اور ایک میجر کے ساتھ اپنے اتحادی کو اوپر پہنچا دیا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو لوگ بغير سوچے سمجھےجرنل ضيا کی موت کے لیے امريکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہيں وہ ايک اہم نقطہ نظرانداز کر ديتے ہيں کہ جس حادثے ميں جرنل ضياالحق جاں بحق ہوئے تھے اس ميں امريکی سفير آرنلڈ رافيل اور امريکی ملٹری ايڈوازری گروپ کے صدر ہربٹ واسم بھی شامل تھے۔ يہ مفروضہ ميں بہت سے اردو فورمز پر پڑھ چکا ہوں کہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ کے ليے جرنل ضيا کی "ضرورت" ختم ہو گی تھی اس ليے انھيں مروا ديا گيا۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ ايک "غير ضروری" اور "استعمال شدہ جرنل" کو راستے سے ہٹانے کے ليے اپنے دو انتہائ اہم افسران کو از خود موت کی گھاٹ اتار دے؟

ايک طرف تو يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ سی – آی – اے اتنا بااختيار ادارہ ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام تبديل کرسکتا ہے پھر جرنل ضيا کو مروانے کے ليے ايسی پرواز کا انتخاب کيوں کيا گيا جس ميں خود امريکہ کے اپنے سينير افسران شامل تھے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
امریکی کانگرس کے دانا روہر باچر جیسے کئی قانون دان بھی اس سازش میں شریک ہیں اور بلوچستانیوں کو حقِ خود ارادیت دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دانا روہر باچر امریکی حکومت کو صلاح دیتا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے تعلقات قائم کرو اور پاکستان کی جمہوری حکومت سے رشتے توڑ لو۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے اس ايشو پر امريکی موقف کو بارہا واضح کيا ہے۔ اگر آپ اس حوالے سے ميری پوسٹنگز پڑھيں گے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ امريکی حکومت نے کبھی بھی کسی ايسی تحريک يا گروہ کی سرپرستی يا حمايت نہيں کی جو خطے ميں انتشار يا افراتفری کا سبب بنے۔ حقيقت يہی ہے کہ ايک مظبوط، مستحکم اور ترقی يافتہ پاکستان، امريکہ سميت خطے کے تمام فريقين کے بہترين مفاد ميں ہے۔

کسی بھی ايشو کے حوالے سے جذبات کا اظہار اور اپنی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے يہ ضروری ہے کہ آپ حقائق کی جانچ پڑتال کر ليں۔ آپ پوری امريکی حکومت کو ہدف تنقيد بنا رہے ہيں اور امريکی کانگريس کے ايک رکن کے ديے گئے بيان کو پوری امريکی حکومت کی سرکاری پاليسی سے تعبير کر رہے ہيں جو کہ غير منطقی اور غير دانشمندانہ ہے۔ يقينی طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام ارکان سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ ان کے تمام بيانات ہميشہ حکومت پاکستان کی پاليسيوں کے عين مطابق ہوں۔

اسی عالمی جمہوری اصول کا اطلاق امريکہ پر بھی ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ميں يہ بھی چاہوں کا کہ کانگريس کے اسی امريکی رکن کا اس حوالے سے يہ بيان بھی ضرور پڑھيں

"ہم صرف اخلاقی حمايت کر سکتے ہيں۔ ہم تو امريکی حکومت کی نمايندگی بھی نہيں کرتے۔ ہم تو محض چند افراد پر مشتمل ايک گروپ ہے جو بلوچستان کی جانب توجہ مبذول کروانے اور ايک عوامی بحث شروع کروانے کے متمنی ہیں"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

آوازِ دوست

محفلین
بات تو آپ کی دل کو لگتی ہے مگرچلیں آپ خود ہی وہ کام بتا دیں جو امریکہ کو پاکستان جیسے دوست کے ساتھ نہیں کرنے چاہیے تھے۔ کوئی ایک آدھ تو ہو گا ہی؟ دیکھیں آپ کی جاسوسیاں تو آج کل بہت مشہورہو چکی ہیں۔اَب یہ کہہ کر دِل مت توڑیے گاکہ ایسی کوئی بات نہیں۔
 

Fawad -

محفلین
امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ کا سابق ایجنٹ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا۔ اُس وقت افغانستان میں جاہل ملا عمر کی طالبانی حکومت تھی جسکو امریکہ کی رضا مندی سےصرف تین ممالک نے تسلیم کیا ہواتھا یعنی پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس نقطے کے حوالے سے جذباتی رائے زنی سے قطع نظر کچھ تاريخی اور دستاويزی حقائق بھی پيش نظر رکھيں۔ ميں نے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے قريب 30 کے قريب ايسی دستاويز حاصل کر کے پوسٹ کی تھيں جو ان رپورٹس پر مبنی تھيں جو 90 کی دہائ ميں افغانستان سے سويت آرمی کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو سرکاری سطح پر بيھجی گئ تھيں۔

آپ يہ رپورٹس اس تھريڈ پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=258593#post258593

ان رپورٹوں ميں متعدد بار حکومت پاکستان کے اہلکاروں کو يہ باور کروايا گيا کہ طالبان کی حمايت اور حکومت سازی کے عمل ميں ان کی پشت پناہی علاقے ميں ان کے اثر ورسوخ کو بڑھائے گی جس کے نتيجے ميں نہ صرف اس علاقے ميں بلکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ امريکی حکومت کی جانب سے رپورٹوں کا يہ سلسلہ 90 کی دہاہی کے آغاز سے شروع ہو کر 11 ستمبر 2001 کے واقعے تک جاری رہا۔ اس دوران اسامہ بن لادن نے افغانستان واپس آ کر القائدہ کو منظم کرنا شروع کر ديا اور کئ ممالک ميں امريکی عمارات پر دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ ليکن 11 ستمبر 2001 کا واقعہ وہ لمحہ تھا جب امريکی حکومت نے براہ راست افغانستان ميں کاروائ کا فيصلہ کيا۔ اس دوران بھی طالبان کو قريب 2 ماہ کا موقع دياگيا کہ اگر وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کرديں تو جنگ کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی 5 وفود طالبان سے مذاکرات کے ليے بھيجے گئے مگر ان کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد افغانستان ميں فوجی کاروائ کا آغاز کيا گيا۔

قريب دس سال کے عرصے پر محيط ان دستاويزی ثبوتوں کی موجودگی ميں، جن ميں بار بار طالبان کی حوالے سے دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کيا گيا ہے کيا يہ دعوی کرنا درست ہے کہ طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی ذمہ داری امريکہ پر عائد ہوتی ہے؟ يا امريکہ کے کہنے پر پاکستان حکومت نے طالبان کو سرکاری طور پر تسليم کيا تھا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
امریکہ نے روس کی افغا نستان آمد کا پورا فاہدہ اٹھایا اور مذہب کی آڑ میں جہاد کا نام لیکر پوری دنیا کے فسادی پاکستان لےآیا جنہیں آج ہم دہشتگرد کہتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے سبب کشت وخون کا جو بازار گرم ہے، اس تناظر ميں يہ بحث کہ 80 کی دہائ ميں امريکی حکومت کے افغانستان ميں کسی مخصوص گروہ کے ساتھ کس نوعيت کے تعلقات رہے ہوں گے خاصی بے مقصد اور بے معنی ہے۔ اگر امريکہ سميت عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ نے ايک قابض فوج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ دو دہائيوں کے بعد اسی ملک کے کچھ گروہوں اور افراد کو اس بات کا لائسنس اور کھلی چھٹی مل جانی چاہيے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی مدد کريں اور دنيا بھر ميں اپنی سوچ، سياسی اثر اور نقطہ نظر کو مسلط کرنے کے لیے بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے پھریں۔

کيا اس دليل ميں منطق کا کوئ پہلو ہے کہ چونکہ 30 برس قبل امريکہ نے دنيا کے ساتھ مل کر افغانستان پر ہونے والی جارحيت کی مذمت کی تھی اور افغان عوام کے درست موقف کی حمايت کی تھی چنانچہ اب ہميں طالبان کی سوچ اور ان کی فکر کی بھی حمايت کرنی چاہيے، وہی طالبان جنھوں نے القائدہ اور اس کی قيادت کو محفوظ ٹھکانے فراہم کيے۔ ايک ايسی تنظيم جس نے امريکہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا۔

امريکہ نے 30 برس قبل جو کيا، اسے ہر لحاظ سے ايک درست خارجہ پاليسی قرار ديا جا سکتا ہے جسے دنيا کی تمام اہم اقوام نے درست قرار دے کر اس کی حمايت کی تھی۔ ليکن يہ نہيں بھولنا چاہیے کہ اس وقت بھی امريکی حکومت افغانستان میں مختلف افراد اور گروہوں کو براہراست کنٹرول کرنے اور ہدايات دينے کے عمل کا حصہ نہيں تھی۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے پاکستان ميں امريکہ کے سخت ترين نقاد جرنل حميد گل بھی تسليم کر چکے ہیں۔

اس ضمن ميں آئ – ايس – آئ کے سابق چيف جرنل حميد گل کا انٹرويو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://pakistankakhudahafiz.wordpress.com/2009/06/14/loud-clear-episode-3-hamid-gul/

انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔ انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ تک کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
اپنے آقا امریکہ سے کہیں کہ وہ ایک عام پاکستانی کی اس درخواست کو قبول کرلے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کرئے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا آپ ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ ٹی ٹی پی کے قاتل اور مجرم واشنگٹن ميں بيٹھے ہوئے "گوروں" کی تابعداری پر راضی ہو جائيں گے، يہ جانتے ہوئے کہ ہم عالمی اتحاد کی ان جاری کوششوں ميں پيش پيش ہيں جو گزشتہ ايک دہائ سے ان دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں اور ان کے سرکردہ قائدين کے خاتمے کے ليے کی جا رہی ہيں؟

يہ ايک ناقص سوچ ہے کہ وہ افراد اور گروہ جو اپنے خون ريز منصوبوں کی تکميل کے ليے خود اپنی جانوں کو بھی ضائع کر رہے ہيں انھيں کسی بيرونی عناصر کے ذريعے کنٹرول يا تابع کيا جا سکتا ہے۔ يہ دہشت گرد عناصر تو نفرت پر مبنی اپنی سوچ ميں اس حد تک اندھے ہو چکے ہيں کہ اپنے نظريات سے متصادم ہر نظام، گروہ يا انسان کو خود سے الگ ايک ايسا دشمن سمجھتے ہيں جسے ختم کرنا ان کی اولين ذمہ داری ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
اپنے ٹيکس دہندگان کے خطير سرمائے‎ کو پاکستان پر ضائع نہ کرئے کیونکہ اس سرمائے سے اُسکے پالتو اپنا گھر بھرتے ہیں، پاکستانی عوام کو کوئی فاہدہ نہیں ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد محض کوئ افسانوی داستان نہيں بلکہ ايک حقيقت ہے جس کے نتيجے ميں روزانہ پاکستان کے عوام کی حالت زندگی ميں بہتری لانے کے کئ مواقع پيدا ہوتے ہيں۔

آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امريکی امداد کی فراہمی کا طريقہ کار محض چند افراد کے ذاتی اکاؤنٹس تک رقم کی منتقلی تک محدود نہيں ہے جنھيں بعد ميں کٹھ پتليوں کے طور پر استعمال کر کے امريکہ علاقے ميں اپنا اثر ورسوخ بڑھاتا ہے۔

يہ مفروضہ حقآئق کے منافی ہے۔

ايسے بے شمار سرکاری اور غير سرکاری ادارے، تنظيميں اور ان سے منسلک افراد اور ماہرين ہيں جو ايسے درجنوں منصوبوں پر مسلسل کام کر رہے ہيں جو دونوں ممالک کے مابين تعلقات کی مضبوطی کا سبب بن رہے ہيں۔ ميں نے امريکی امداد کی فراہمی کے حوالے سے جو بے شمار اعداد وشمار اس فورم پر پوسٹ کيے ہيں، ان کا مطلب يہ ہرگز نہيں ہے کہ يہ رقم براہراست کچھ افراد کے ذاتی اکاؤنٹس ميں منتقل کی جاتی ہے۔ يہ رقم دراصل جاری منصوبوں پر لگائے جانے والے تخمينے کی عکاسی کرتی ہے۔

ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

موجودہ دور ميں جبکہ ساری دنيا ايک "گلوبل وليج" کی شکل اختيار کر چکی ہے پاکستان جيسے نوزائيدہ ملک کے ليے امداد کا انکار کسی بھی طرح عوام کی بہتری کا سبب نہيں بن سکتا۔ يہ بھی ياد رہے کہ يہ بھی باہمی امداد کے پروگرامز کا ہی نتيجہ ہے پاکستانی طالب علم اور کاروباری حضرات امريکہ سميت ديگر ممالک کا سفر کرتے ہيں اور وہاں سے تجربہ حاصل کر کے پاکستانی معاشرے کی بہتری کا موجب بنتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
انڈیا میں آبادی، غربت اور دیگر مسائل پاکستان سے کئی گُنا ہیں، مگر ایسا کیوں ہے کہ اُس کا عالمی تشخص وطنِ عزیز سے کہیں مختلف ہے۔ یہی امریکہ جو ہمارے ایٹمی پروگرام کے درپے ہےسوِ ل ایٹمی ٹیکنالوجی میں اُس کا حلیف ہے اور اِسی عمل میں پاکستان سے تعاون سے انکاری ہے۔ ہم اِ سے امریکہ کی مسلم تعصب پر مبنی پالیسی کہیں تو اِ سے کیا کہیں ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کسی بھی دو ممالک کے مابين تعلقات کا دارومدار باہمی مفادات، دو طرفہ امور پر ہونے والے مذاکرات، معاہدوں، اور دونوں ممالک کے عوام کی بہتری اور فلاح کے ليے مواقعوں کی جستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدے يا کسی بھی قسم کے معاہدے کا امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کی نوعيت پر کوئ اثر نہيں پڑے گا۔

دو ممالک کے مابين تعلقات ہميشہ ادلے اور بدلے کی بنياد پر نہيں ہوتے۔ مثال کے طور پر فرانس اور پاکستان کے مابين سول نيوکلير معاہدے کے حوالے سے بات چيت کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ فرانس بھارت کے ساتھ بھی اسی قسم کا معاہدہ کرے۔

http://www.geo.tv/6-4-2009/43480.htm

اسی طرح جب امريکہ نے پاکستان کے ليے 5۔1 بلين ڈالرز کی امداد کا پيکج منظور کيا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ بھارت کو بھی اسی طرح کا پيکج فراہم کيا جائے۔ يہ حالات و واقعات، ضروريات اور حکومت پاکستان کی درخواست پر فوری ملکی مسائل کے عين مطابق ہے۔

امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدہ دونوں ممالک کے مندوبين کی جانب سے کئ ماہ کے مذاکرات، ملاقاتوں اور دو طرفہ امور پر بات چيت اور طے پانے والے امور کا نتيجہ ہے۔

بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات اور تاريخ بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کے ساتھ امريکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں تعاون کے علاوہ مضبوط اور پائيدار تعلقات کا خواہ ہے۔ جہاں تک سول نيوکلير ڈيل کا سوال ہے تو اس کے ليے ضروری ہے کہ کوشش اور عزم کا اظہار دونوں جانب سے کيا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
محترم فورم کے دوستوں
سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں اور سولہ دسمبر کی دہشت گردی کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے یہ مضمون ‘پشاور دہشتگردی۔ تاریخ کا سیاہ دن’ 13جنوری کو پوسٹ کیاتاکہ ایک ماہ پہلے ہونے والےاس سانحے کویاد کیا جائے، اس مضمون میں جہاں بھارت، افغانستان اور برطانیہ کے کردار پر بات ہوئی تو اُسکے ساتھ ساتھ امریکی کردار پر بات ہوئی۔ آج آپ دنیا کے کسی بھی حصے کا سیاسی مطالعہ کرلیں کوئی ہو یا نہ ہو امریکی موجودگی لازمی ملے گی۔ امریکی انتظامیہ کے ایک ملازم جس نے اس فورم پر اپنا نام فواد رکھا ہوا ہے اس مضمون پر تبصرہ کیا، عام طور پر میں بہت کم تبصروں پر جواب دیتا ہوں لیکن اس امریکی ملازم نے نہ صرف میرئے مضمون میں بتائی ہوئی باتوں کو غلط قرار دیا اور جواب میں امریکی حکومت کی امداد کا اظہار بھی کرڈالا۔ جب جواب میں اُسکو کچھ ریفرنس دیئے تو اُس نے اس مضمون کو امریکی پروپگنڈہ کےلیے استمال کرڈالا، اور جواب میں سات صفحے کا امریکی پروپگنڈہ کرڈالا، اسکوکہتے ہیں چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ایک لفظ بھی نہیں کہ 132 بچوں کی بےگناہ شہادت کا افسوس کیا جاتا، یہ ہی وہ امریکی کردار ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں نفرت کی جاتی ہے اور امریکی ایوانوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستانی ہم سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں، اسکا صرف ایک ہی جواب ہے کہ امریکی انتظامیہ کی دوستی پاکستانی حکمرانوں سے ضرور ہے لیکن پاکستانی عوام سے قطعی نہیں، لہذا میں اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کے اس ملازم کو مزید جواب نہ دیے جایں تاکہ اس فورم کو امریکی انتظامیہ اپنے پروپگنڈئے کےلیے مزید استمال نہ کرئے۔
 
بھائی آواز دوست۔ آپکے تبصرئے کا شکریہ ، آپنے جس طرف اشارہ کیا ہے اُس پر لازمی بات ہونی چاہیے لیکن اس مضمون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے نہیں، پھر انشاللہ بات ہوگی، ایک مرتبہ پھر شکریہ۔
 

x boy

محفلین
امریکہ اور دیگر ایسا ممالک جو دوسری قوموں میں جاسوسی اور تخریب کاری کراتے ہیں ان کے دیے ٹمٹارہے ہیں بہت جلد ان شاء اللہ لگے گی زور سے،
تاریخ میں فرعون بھی تھا، نمرود بھی، قوم لوط بھی ، عاد بھی، موہنجو ڈرو، ٹکسلا، اہرام مصر، یونان، چنگیز خان، ہٹلر بھی۔۔
کہاں گئے، ملیا میٹ ہوا، صرف سبق لینے کے لئے آثار باقی ۔
 

عمارحسن

محفلین
امریکہ اور دیگر ایسا ممالک جو دوسری قوموں میں جاسوسی اور تخریب کاری کراتے ہیں ان کے دیے ٹمٹارہے ہیں بہت جلد ان شاء اللہ لگے گی زور سے،
تاریخ میں فرعون بھی تھا، نمرود بھی، قوم لوط بھی ، عاد بھی، موہنجو ڈرو، ٹکسلا، اہرام مصر، یونان، چنگیز خان، ہٹلر بھی۔۔
کہاں گئے، ملیا میٹ ہوا، صرف سبق لینے کے لئے آثار باقی ۔
ویسے میں نے اوپر کے تقریباً سارے مراسلے دیکھے ہیں آپ نے ہر کسی کو نا پسندیدہ ٹیگ کیا ہے۔۔۔
لیکن کوئی خاص وجہ نہیں بتا سکے۔۔۔۔

باقی ۔۔۔
ملیا میٹ تو سب کا ہوگا، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے منسلک ہو، اگر وہ حکومت ظالم ہوگی ۔۔۔۔
 
Top