اقبال پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر

منیب الف

محفلین
پردہ چہرے سے اٹھا، انجمن آرائی کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

تو جو بجلی ہے تو یہ چشمکِ پنہاں کب تک؟
بےحجابانہ مرے دل سے شناسائی کر

نفَسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر

کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم؟
اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر

ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر

اِس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر

پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوسِ شوکتِ دارائی کر

مل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ، اقبالؔ
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر

 
Top