پرانا دوست تھا دستک نئی تھی۔ ناہید ورک

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پرانا دوست تھا دستک نئی تھی
مری دہلیز پر خوشبو رکھی تھی

کوئی تو بات اُس کی مان لیتی
محبت عمر میں مجھ سے بڑی تھی

مری آنکھوں پہ اُس کا ہاتھ تھا اور
ہتھیلی پر سمندر کی نمی تھی

کوئی مجھ کو بچاتا بھی تو کیسے
میں اپنی آگ میں خود جل مَری تھی

محبت میں بہت خوش فہم تھی میں
مجھے اپنی نظر ہی لگ گئی تھی

فقط کافور کی خوشبو تھی ہر سُو
میں پہنچی تو محبت مَر چُکی تھی

مہکتے رنگ پھیکے پڑ چُکے تھے
اداسی ہر طرف بکھری پڑی تھی

تو کیا نیلام کر ڈالا اُسے بھی؟
ہری جو بیل میرے نام کی تھی؟

ناہید ورک
 
Top