پختون خوا اور پنجاب میں انتخابی سرگرمیاں

130506083228_peshawarelections3041.jpg

پشاور میں زیادہ تر امیدوار ووٹروں سے ان کے گھروں میں جاکر ملاقاتوں کو ترجیج دے رہے ہیں

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا میں جلسے جلسوں اور انتخابی امیدواروں پر جاری حملوں کے باعث یہاں عمومی طور پر خوف و ہراس کی فضا ضرور ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اور بعض شہروں میں تو جوش و خروش اتنا زیادہ ہے کہ یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید صوبہ پنجاب سے بھی یہاں زیادہ گہما گہمی یہاں پر ہے۔
چند دن پہلے جب میں الیکشن کوریج کے سلسلے میں پنجاب میں تھا تو توقع یہی کررہا تھا کہ اس صوبے میں چونکہ امن و امان کی صورتحال سب سے بہتر ہے اس لیے یہاں روایتی انتخابی گہماگہمی اور جوش و جزبہ بھی زیادہ ہوگا لیکن میرا اندازہ بالکل غلط نکلا۔
جنوبی پنجاب کے بڑے بڑے شہروں ملتان، بہالپور، رحیم یار خان اور دیگر اضلاع میں میرے اندازے کے برعکس اس قسم کی رنگینی نظر نہیں آئی جو عام طورپر الیکشن کے دنوں میں دکھائی دیتی ہے۔
پنجاب کے زیادہ تر شہر نہ صرف آبادی کے لحاظ سے خیبر پختون خوا کے اضلاع سے بڑے ہیں بلکہ وہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی وہاں بظاہر ایسا ماحول نہیں تھا جس سے اندازہ ہو کہ عوام انتخابات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ تاہم یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ عوام گیارہ مئی کے دن نہیں نکلیں گے، لگتا تو ہے کہ وہ ووٹ ضرور ڈالیں گے لیکن جو اندازے لگائے جارہے ہیں کہ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح سب سے زیادہ ہوگی وہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر سردست کسی بھی صوبے میں حوصلہ افزاء نظر نہیں آرہے۔
پاکستان میں عام طورپر انتخابات کے دنوں میں گلی محلوں اور بازاروں میں جلسے جلوسوں کے انعقاد، بنیرز، پوسٹرز اور جھنڈے لگانے سے الیکشن کی سرگرمی ظاہر ہوتی ہے لیکن پنجاب میں اس کا بھی کوئی خاص عکس نظر نہیں آیا۔ یہاں تک کہ لاہور جسے بڑے شہر میں بھی سڑکوں اور بازاروں میں روایتی انتخابی گہما گہمی کا ماحول دکھائی نہیں دیا۔
لاہور میں میرے ہمراہ پشاور بیورو کے تین ساتھی عزیز اللہ خان ، دلاور خان اور بلال احمد بھی تھے۔ وہ بھی اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتے رہے کہ گیارہ مئی میں تو کم وقت رہ گیا ہے لیکن لاہور میں سیاسی میدان ٹھنڈا نظر آرہا ہے۔لیکن جب میں نو دنوں کے بعد پشاور میں داخل ہوا تو یہاں پھر میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ پنجاب میں کام کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ خیبر پختون خوا میں انتہائی خاموشی ہوگی کیونکہ یہاں کارنر میٹنگز اور امیدواروں پر عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے بھی ہورہے تھے ۔ تاہم یہاں ماحول اس سے بالکل مختلف دکھائی دیا۔
130506081412_polls304.jpg

شہر کے مرکزی سڑکوں اور بازاروں میں سیاسی جماعتوں کے بینرز، جھنڈے اور عوام کا جوش و خروش دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں خوف ضرور ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ لوگوں کو انتخابات سے روکے بلکہ ان میں ووٹ ڈالنے کا جذبہ موجود ہے۔
یہاں زیادہ ترگہما گہمی جی ٹی روڈ، یونیورسٹی روڈ اور اندرون شہر کے علاقوں قصہ خوانی بازار، خیبر بازار اور چوک یادگار میں نظر آتی ہے جہاں ہر طرف دو سیاسی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے جھنڈے اور بینرز دکھائی دیتے ہیں۔ ان جماعتوں کے امیدوار شدت پسندوں کے نشانے پر ہونے کی وجہ سے محتاط انداز میں اپنا انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر امیدوار ووٹروں سے ان کے گھروں میں جاکر ملاقاتوں کو ترجیج دے رہے ہیں۔
بعض علاقوں میں تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے جھنڈے اور پوسٹرز بھی دکھائی دیے لیکن امیدواروں کی تشہری مہم دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ضلع پشاور میں اصل مقابلہ دو سیاسی جماعتوں اے این پی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوگا۔ اس سے پہلے بھی یہ شہر ان دو سیاسی جماعتوں کا گڑھ رہا ہے لیکن بعض لوگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف بھی اس دنگل کا اہم حصہ ہے جسے اس مقابلے سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔
رفعت اللہ اورکزئی
بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
Top