پاک محبت ،،،،

anwarjamal

محفلین
پاک محبت ،،،،،

ریاض نے بے تکلفی سے اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جو میرے لیے اجنبی تھا
چند ثانیے بعد دو سیاہ آنکھوں نے دروازہ کھول کر گلی میں جھانکا اور ریاض کو سامنے پا کر یوں مطمئن ہو گئیں جیسے گھر کا ہی کوئی فرد آیا ہو ،،

جب میں ریاض کے ساتھ اس گھر میں داخل ہوا تو مسلسل جھینپ رہا تھا ،،

اندر خالہ بیٹھی سگریٹ پھونک رہی تھی

ریاض نے میرا تعارف کرایا ،،
یہ سلیم بھائی ہمارے مہمان ہیں ، کراچی سے آئے ہیں ،،کل انکی واپسی ہے ،،
خالہ مجھ پر صدقے واری ہو گئی اور دعائیں دینے لگی کہ میں خیر خیریت سے واپسی کا سفر طے کروں ،،

میں حیران تھا کہ یہاں تو بالکل گھر جیسا ماحول ہے ،،

ریاض مال دار پارٹی تھی شاید اسی لیے اس کے تعلقات بھی صاف ستھری جگہوں سے تھے ،،

سیاہ آنکھیں مجھے تک رہی تھیں ،، ناپ رہی تھیں ، تول رہی تھیں اور اندازے لگانے کی کوشش بھی شاید کر رہی تھیں کہ میں پر مسرت لمحات میں تخریب کاری پر یقین رکھتا ہوں یا صلح جو اور امن پسند ہوں

ہم ایک ٹوٹے پھوٹے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ،،
ریاض نے جو خالہ سے بے تکان گفتگو کر رہا تھا اچانک میرا کندھا ہلایا ،،اور ڈانٹا

یہیں بیٹھے رہو گے ؟ جاؤ نا اس کے ساتھ ،،
پھر اس نے خود ہی سیاہ پلکوں والی سے بات کی ،،
لے جاؤ اسے ،، اور دیکھو ،،خوش ،، کر دینا

میں متزلزل قدموں سے اٹھا ،،میرا چہرہ اعتماد سے خالی تھا ،،
سیاہ آنکھیں تاڑ گئیں کہ یہ نو آموز ہے اسے بہت کچھ بتانا اور سکھانا پڑے گا

وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے چھت پر لے گئی جہاں ایک تنہا کمرہ حجلہ عروسی کی طرح سج دھج کے ہمارا انتظار کر رہا تھا ،،

کمرے میں ملگجی روشنی تھی جو ایک دوسرے دروازے سے چھن کر اندر آ رہی تھی ،،

وہ چپ چاپ سے جا کر ایک بستر پر دراز ہو گئی ،،
میں واپس پلٹا تاکہ دروازے میں اندر سے کنڈی لگا لوں مگر یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ دروازے میں اندر کی طرف کنڈی یا کوئی بھی ایسی دوسری چیز نہیں تھی جس سے دروازہ لاک کیا جا سکے ،،
میں نے دوسرا دروازہ کھول کر دیکھا اور تب میں کچھ خوف زدہ بھی ہو گیا ،،
سامنے ہی ایک شخص دس قدم کے فاصلے پر کبوتر اڑا رہا تھا ،،
کافی عمر رسیدہ تھا وہ

مگر تھا تو آدمی ،، میں کسی آدمی کی توقع لے کر وہاں نہیں گیا تھا ،،
بدقسمتی سے دوسرا دروازہ بھی مکمل بند ہونے سے انکاری تھا ،،

کمرے میں دو عدد کھلے ہوئے دروازوں کے خوف نے میرا جوش و خروش چھین لیا ،،

وہ بستر پر دراز تھی اور کیا خوب دراز تھی مگر میں خود میں کوئی تحریک پیدا نہ کر سکا ،،

کیا کرتا اس کے پاس بیٹھ کر یوں ہی ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا ،،

وہ شہر کراچی کے بارے میں بہت ایکسائیٹڈ تھی ،،پوچھ رہی تھی وہاں کاروبار کیسا چل رہا ہے ،،

میں نے کہا کراچی میں کاروبار کا بیڑہ غرق ہے ،،

کہنے لگی نہیں ،میں نے تو سنا ہے وہاں کاروبار عروج پر ہے ،،

کس سے سنا ہے ؟

اپنی بہن سے سنا ہے ، وہ وہیں رہتی ہے ،،

اوہ.... اچھا تو تم اپنے کاروبار کی بات کر رہی ہو ،،ہاں بھئی ہوگا عروج پر ،، تمہارا کاروبار تو سدا بہار ہے ،، میں نے اس کے گالوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا

کیا کسی طرح اس کمرے کے دروازے بند نہیں ہو سکتے ، میں نے حسرت سے پوچھا

اس نے سر اٹھا کر دونوں دروازوں کی طرف دیکھا اور معصومیت سے کہا ،،بند تو ہیں ،،

اچھا یہ آدمی کون ہے جو کبوتر اڑا رہا ہے ؟

کیوں ؟ اس نے ایک انداز سے پوچھا

مجھے سیما یاد آگئی ،، وہ بھی ہر بات پر پوچھتی تھی ،،کیوں ،،

میں نے کہا ،کیونکہ مجھے ڈر ہے وہ کہیں اندر نہ آ جائے ،،

وہ اندر کیوں آئیں گے ، وہ تو ہماری حفاظت کر رہے ہیں ،

حفاظت ؟

ہاں ،، وہ کبوتر نہیں اڑا رہے بلکہ گلی میں نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کوئی آ نہ جائے ،،

اچھا ،،، میں نے معنی خیز لہجے میں کہا اور ساتھ ہی مجھے افسوس بھی ہوا کہ ایک شخص حفاظت پر مامور ہے پھر بھی میں کچھ نہیں کر رہا

تنگ آ کر میں نے پیش قدمی شروع کر دی ،،
وہ میرے اناڑی پن اور ناتجربہ کاری پر بہت خوش ہوئی ،،

سیما ،، میں نے اسے محبت سے پکارا اور بانہوں میں بھر لیا ،،

تھوڑی دیر بعد جب ہم سب چائے پی رہے تھے سیاہ پلکوں نے ریاض سے پوچھا
ریاض بھائی یہ سیما کون ہے ،،

سیما ،،، ریاض نے دھرایا اور پھر میری طرف حیرت سے دیکھا
تجھے ابھی تک یاد ہے سیما ،، حیرانی سے پوچھا

ہاں جبھی تو یہ سیما سیما کہہ کر مجھ سے لپٹ رہے تھے ،، سیاہ پلکوں نے راز افشا کر ددیا

ہممم ،، ریاض نے ہنکارا بھرا
سیما ہماری کلاس فیلو تھی ، ہم دونوں ہی اسے چاہتے تھے ،، مگر اس نے تو دیوی بنا کے رکھا ہوا تھا اسے ، پوجا کرتا تھا اسکی ،، کہتا تھا مجھے اس سے پاک محبت ہے ،،

پاک محبت ،،، سیاہ پلکیں کھل کھلا کر ہنس پڑیں

وہ میری پاک محبت سے واقف ہو چکی تھیں ،،
________
انور جمال انور
 
Top