محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
پہلگام، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا ایک پُر فضا مقام، 22 اپریل 2025 کو خون میں نہا گیا جب ایک دہشت گرد حملے میں 26 سیاح جان سے گئے۔ یہ سانحہ اپنی نوعیت کا اندوہناک واقعہ تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک وہ ردِعمل تھا جو بھارت نے عالمی اصولوں، انصاف اور علاقائی امن کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے دیا۔
بھارت نے بغیر کسی ٹھوس شواہد اور تحقیقات کے، اس حملے کا الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا۔ سفارتی چینلز، اقوام متحدہ یا علاقائی رابطہ کاری کے بجائے، بھارت نے فوری طور پر عسکری آپریشن "سندور" کا آغاز کیا، جس میں پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے جوابی حملوں میں نہ صرف اپنی عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی مؤثر بیانیہ اپنایا۔ اس نے بھارتی جارحیت کو اقوامِ متحدہ میں "جنگی اقدام" قرار دینے کی درخواست کی، اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ایران، چین اور امریکہ جیسے ممالک کی ثالثی کے بعد 10 مئی کو جنگ بندی عمل میں آئی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں "کامیاب" کون رہا؟
اگر بھارت نے عسکری کارروائی کا آغاز کر کے برتری حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا تو وہ خواب ادھورا رہ گیا۔ نہ پاکستان دباؤ میں آیا، نہ اس کی افواج پسپا ہوئیں، نہ عالمی برادری نے بھارت کے موقف کی غیر مشروط حمایت کی۔ اس کے برعکس، عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کی جلدبازی اور غیر محتاط ردِعمل پر سوالات اٹھائے۔
بھارت، جو بظاہر "انتقام" کی آگ میں تھا، نہ عسکری لحاظ سے جیت سکا، نہ سفارتی، نہ نظریاتی۔ نتیجہ برابری کا نہیں، ایک سفارتی اور عسکری ناکامی کا اعلان تھا، خاص طور پر اُس ملک کے لیے جس نے پہل کی، اور پھر خود پیچھے ہٹنا پڑا۔
اختتامیہ یہ ہے کہ جنگ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں، خاص طور پر جب انصاف اور حقیقت کو نظرانداز کر کے طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ پہلگام سانحے کا سب سے بڑا نقصان معصوم جانوں کا ضیاع تھا، لیکن اس کے بعد بھارت کے غیر دانشمندانہ اقدامات نے خود اس کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچایا۔
بھارت نے بغیر کسی ٹھوس شواہد اور تحقیقات کے، اس حملے کا الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا۔ سفارتی چینلز، اقوام متحدہ یا علاقائی رابطہ کاری کے بجائے، بھارت نے فوری طور پر عسکری آپریشن "سندور" کا آغاز کیا، جس میں پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے جوابی حملوں میں نہ صرف اپنی عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی مؤثر بیانیہ اپنایا۔ اس نے بھارتی جارحیت کو اقوامِ متحدہ میں "جنگی اقدام" قرار دینے کی درخواست کی، اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ایران، چین اور امریکہ جیسے ممالک کی ثالثی کے بعد 10 مئی کو جنگ بندی عمل میں آئی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں "کامیاب" کون رہا؟
اگر بھارت نے عسکری کارروائی کا آغاز کر کے برتری حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا تو وہ خواب ادھورا رہ گیا۔ نہ پاکستان دباؤ میں آیا، نہ اس کی افواج پسپا ہوئیں، نہ عالمی برادری نے بھارت کے موقف کی غیر مشروط حمایت کی۔ اس کے برعکس، عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کی جلدبازی اور غیر محتاط ردِعمل پر سوالات اٹھائے۔
بھارت، جو بظاہر "انتقام" کی آگ میں تھا، نہ عسکری لحاظ سے جیت سکا، نہ سفارتی، نہ نظریاتی۔ نتیجہ برابری کا نہیں، ایک سفارتی اور عسکری ناکامی کا اعلان تھا، خاص طور پر اُس ملک کے لیے جس نے پہل کی، اور پھر خود پیچھے ہٹنا پڑا۔
اختتامیہ یہ ہے کہ جنگ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں، خاص طور پر جب انصاف اور حقیقت کو نظرانداز کر کے طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ پہلگام سانحے کا سب سے بڑا نقصان معصوم جانوں کا ضیاع تھا، لیکن اس کے بعد بھارت کے غیر دانشمندانہ اقدامات نے خود اس کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچایا۔