پاکپتن مزاراراضی کیس: نوازشریف کے کردار کا جائزہ لینے کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

جاسم محمد

محفلین
پاکپتن مزاراراضی کیس: نوازشریف کے کردار کا جائزہ لینے کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکپتن مزار اراضی کیس میں نواز شریف کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 14 ہزار کنال پاکپتن مزار اراضی کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈائریکٹر جنرل نیکٹا خالق داد لک کی سربراہی میں تین رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی جس میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے افسران بھی شامل ہوں گے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جے آئی ٹی کے قواعد و ضوابط 27 دسمبر تک طے کیے جائیں اور ٹی او آرز 27 دسمبر تک جمع کراتے ہوئے جے آئی ٹی اراکین سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جے آئی ٹی اراضی منتقلی میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کے کردار کا جائزہ لے گی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ دستاویزات سے ثابت ہے کہ نواز شریف نے بطور وزیراعلیٰ اوقاف جائیداد نجی ملکیت میں دی۔


’آپ خود منصف بن جائیں‘، چیف جسٹس کا پاکپتن اراضی کیس میں نواز شریف سے مکالمہ



چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ سے استفسار کیا کس سے تفتیش کرائیں جس پر انہوں نے کہا کسی سے بھی تفتیش کرالی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا نواز شریف کہتے ہیں ان کی یادداشت ہی چلی گئی ہے۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے پوچھا تھا کہ تحقیق جےآئی ٹی سےکرائیں، ایف آئی اے یا دیگر اداروں سے جس پر نوازشریف نے کہا تھا کہ میرا جےآئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل بیرسٹر ظفراللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کہتے ہیں اراضی ڈی نوٹیفائی نہیں کی، آپ جانتے ہیں کہ یہ بات غلط ثابت ہوگئی تو نتائج کیا ہوں گے۔

پاکپتن دربار اراضی کیس کا پس منظر

دیوان غلام قطب الدین نے 1985 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھا کہ پاکپتن دربار سے ملحقہ 14 ہزار کنال زمین 1969 کے ایک آرڈر کے تحت محکمہ اوقاف کو دی گئی، جبکہ یہ زمین ان کی ملکیت تھی۔

تاہم مقامی عدالت نے فیصلہ دیا کہ دربار سے ملحقہ اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے، اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا، جس پر دیوان غلام قطب الدین اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گئے۔

ابھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہی تھا کہ مبینہ طور پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ کی جانب سے 1969 کے آرڈر کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔

جس کے بعد دیوان غلام قطب الدین نے اس اراضی کو فروخت کردیا اور وہاں دکانیں وغیرہ تعمیر کردی گئیں۔

سپریم کورٹ نے 2015 میں پاکپتن میں دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس کیس کی اب تک 14 سماعتیں ہوچکی ہیں، 2015 میں پاکپتن دربار اراضی کیس کی آٹھ، 2016 میں چار جبکہ 2017 میں کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

رواں برس 2 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا اور 4 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر نواز شریف بھی پیش ہوئے۔

نواز شریف پر بطور وزیراعلیٰ محکمہ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا الزام ہے۔
 
Top