پاکستان کی کہانی۔۔۔

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کی کہانی۔۔۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ بدھ 14 اگست 2019
1776490-PakFlag-1565759720-590-640x480.JPG

تباناک آغاز سے، مسائل کی دلدل میں دھنسنے تک۔ فوٹو : فائل

3 جون 1947 کو جب مشترکہ ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کا علان کیا تو،اس اعلان سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ 14 اگست 1947 ء کو رمضان المبارک کی 27 ویں تاریخ ہو گی،جس دن قرآن پاک کا نزول حضرت محمدﷺ پر ہوا اور اسی روز اللہ تعالیٰ کی یہ عظیم کتاب مکمل ہوئی،جب لارڈ ماونٹ بیٹن نے تاریخ کا اعلان کردیا تو ہندو نجومیوں اور جوشتیوں نے فوراً اس تاریخ کے اعتبار سے زائچے بنائے تو پھر پورے ہندوستان میں ایک شور مچ گیاکہ اگر اس روز بھارت آزاد ہوا،تو اس کا مستقبل نہایت تاریک اور المناک ہو گا اس لیے اس کی آزادی کی تاریخ تبدیل کی جائے جب کہ مسلمانوں کے لیے 27 زمضان المبارک سے بہتر اور کونسی تاریخ ہو سکتی تھی یوں مسلمان اس بات پر ڈٹ گئے کہ جو تاریخ لارڈ ماونٹ بیٹن نے پہلے اعلان کر دی ہے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی آزادی اِسی روز ہو ، دوسری جانب پنڈت جواہر لال نہرو نے ہندوں کی طرف سے لارڈ ماونٹ بیٹن سے درخواست کی کہ بھارت کی آزادی کی تاریخ ایک روز آگے کردی جائے یوں پاکستان کی آزادی کی تاریخ چودہ اگست اور بھارت کی آزادی کی تاریخ پندرہ اگست طے ہوئی، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان واقعی ایک نئے ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا ۔

انگریزوں کے دور تک مشترکہ ہندوستان میں 540 چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں ۔درجہ بندی کے اعتبار سے کچھ ریاستوں کی اپنی ،اپنی کرنسی بھی تھی،پھر 1935 ء کے قانون ہند کے مطابق اُس وقت ہندوستان کی مرکزی حکومت کے ساتھ گیا رہ صوبے اور بلو چستان سمیت کچھ علاقے تھے جہاں خصوصی قوانین کے تحت اِن علاقے پر ایجنٹ ٹو دی گورنرجنرل کے ذریعے مرکزی حکومت کی طرف سے وضح کردہ خاص قوانین کے ذریعے حکومت کی جاتی تھی ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انگریزوں نے ہند وستان میں سب سے زیاد ہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘کے اصول کو اپنایا۔

مقامی سطح پر ہندو انگریزوں کی آمد سے قبل صدیوں سے مسلمانوں کی سلطنت کے تحت زندگی گذار رہے تھے ،اس لیے اُنہیں انگریزوں کی آمد کے بعد یہ نظر آنے لگا کہ وہ اِن کی حمایت اور خوشنودی سے نہ صرف مسلمانوں کے اثاثوں ،جائیدادوں اور جاہ و منصب پر قابض ہو جائیں گے بلکہ انگریز کے ہندوستان سے رخصت ہونے کے بعد وہ پورے ہند وستان کے مالک بن جائینگے۔ اس پوری صورتحال کو دنیا کے بڑے دانشوروں کے ساتھ 1930 ء سے پہلے سے علامہ اقبال محسوس کرچکے تھے۔بعد میں آنے والی قیادتوں کے برعکس قائد اعظم غیر معمولی دور اندیشی اور قوت فیصلہ رکھتے تھے۔ جنہوں نے جنگ کے ذریعے آدھا کشمیر آزادہ کروالیا، اور اگر قائد اعظم بیمار نہ ہوتے تو وہ زیادہ سے زیادہ اقوام متحدہ کی رائے شماری سے معلق قرادادوں پر عملدر آمد کے لیے ایک سال کا انتظار کرتے ،اور پھر فیصلہ قوت ہی سے ہو تا ۔ بعد میں آنے والوں کی غلط پالیسیوں اور کوتاہ اندیشی کے باعث آج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بھی ختم کردی گئی ہے۔

بھارت نے آزادی کے بعد اس نئی اسلامی مملکت کو ناکام کرنے کی تمام تر کوششیں کی ،آزادی کے دوران ریڈ کلفٹ ایوارڈ کے ذیعے مشرقی پنجاب میں ضلع گورداسپور، فیروزپور ،اور زیرہ کے مسلم اکثریتی علاقوں کو بددیانتی کے ذریعے بھار ت میں شامل کیا ، آزادی کے فوراً بعد پاکستان کا نہری پا نی روک کر پاکستانی علاقوں کو بنجر کرنے کی کوشش کی ۔

مشترکہ ہندوستان کے مرکزی بنک میں چارارب روپے تھے جن میں سے پاکستان حصہ ایک ارب روپے بنتا تھا جو روک لئے گئے اور پھر مشکل سے 20 کروڑ روپے دیئے ،فوجی ساز و سامان کی تقسیم میں بد دیانتی اور تاخیری حربے استعمال کئے ،پھر سب سے اہم یہ پاکستان ایک نیا ملک تھا یعنی بھارت جب تقسیم ہوا توا،س کا دارالحکومت دہلی تھا اور تمام مرکزی محکموں ،اور اداروں کے ہیڈ کورٹر ریکارڈ سب بھارتی علاقوں میں تھا ،یہاں آزادی کے وقت آج کے پاکستان سے 45 لاکھ ہندو سکھ بھارت ہجرت کر گئے تھے اور اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئے تھے،لیکن اُس وقت چونکہ سرکاری ملازتوں اور اعلیٰ سطح پر یا ایڈمنسٹریشن میں زیادہ تعداد میں ہندو تھے اس لیے خصوصاً آج کے پاکستان سے اِن ہندو سرکاری افسران اور تجربہ کار ملازمین کے بھارت چلے جانے اور یہاں پاکستان میں اِن ادروں اور محکموں سے متعلق ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات تھیں۔

مثلاً اگر ریلوے کے محکمے ہی کو لے لیں تو 90 فیصد افسران کے علاوہ اسٹیشن ماسٹر ،گارڈ،ڈرائیور، اور دیگر ٹیکنکل ملازمین ہند و تھے جو بھارت جا چکے تھے۔ پاکستان میں ریلوے انجن بوگیاں ،ویگنیں تو موجود تھیں مگر اس کا ریکارڈ مرکزی بھارت میں تھا اور یہاں مقامی طور پر جن کو یہ معلومات تھیںاُن ہندو ں کے پاس تھیں جوبھارت ہجرت کرگئے تھے اس پر لیاقت علی خان سے قائد اعظم نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہر وکو کہلوایا کہ پاکستانی علاقے سے متعلق تمام محکمانہ ریکارڈ پاکستان کو بحفاظت اور فوراً بھیجنے کے انتظامات کئے جائیں اور قائد اعظم نے ہندوستان کے تجربہ کار مسلمان سرکاری افسران اور ملازمین سے اپیل کی کہ وہ اس نازک وقت پر پاکستان آکر اس نئے اسلامی ملک کی فوری تعمیر میں حصہ لیں اس پر نہرو نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا اور ایک اسپیشل ٹرین کے ذریعے پاکستانی علاقوں سے متعلق محکموں اور اداروں کا ریکارڈ اور وہ مسلمان تعلیم یافتہ، تجربہ کار افسران اور ملازمین جنہوں نے قائد اعظم کی اپیل پر لبیک کہا تھا اِن کو اس ٹرین سورا کر کے دہلی سے لاہور کے لیے روانہ کیا اور پھر سازش کے تحت مشرقی پنجاب میں اس ٹرین پر ہندو اور سکھ بلوائیوں سے حملہ کروا کر تمام تجربہ کار تعلیم یافتہ مسلمان سرکاری فسران اورملازمین کو قتل کردیا گیا اور پوری ٹرین کو ریکارڈ سمیت آگ لگا کر جلا دیا گیا۔

لیکن یہ عظیم حقیقت ہے کہ اُس وقت اگرچہ ملک نیا تھا یہاں ہر محکمے کے نئے ہیڈکواٹر بنائے گئے ،تمام معلومات کو جمع کرکے ریکارڈ ترتیب دیا ،پاکستان کے پہلے قومی بجٹ مالی سال 1948-49 کا کل حجم89 کروڑ 57 لاکھ تھا جس کا خسارہ 10 کروڑ تھا ،لیکن پھر دوسرے مالی سال 1949-50 کا بجٹ خسارے کے بجائے بچت کا بجٹ تھا جس کا ہجم ایک ارب 17 کروڑ تھا اور 6 لاکھ روپے کی بچت تھی اور دوایک بجٹوں کو چھوڑ کر قومی بجٹ سازی کا یہ رحجان مالی سال 1972-73 تک جاری رہا ۔

1990 ء کی دہائی سے ہم بحیثیت قوم کمزور ہونے لگے البتہ 1998 ء میں 28 مئی وہ تاریخی دن تھا جب ہم نے بھارت کے مقابلے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا دیا اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کے بعد اگر ہماری سلامتی ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہی ایٹمی ہتھیار ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہم پر اندرونی اور بیرونی دشمن کچھ دوسرے اندز سے حملے آور ہوئے اور اِن حملوں میں ہم بحیثیت قوم وملک متواتر نقصان کا شکار ہوئے تو اس کی بڑی وجوہات یہ بھی رہیں کہ ہمارے اعلیٰ طبقے میں درد دل بھی نہیں رہا تھا اور فہم و دانش کی بھی کمی تھی اس لیے آج صورتحال یہاں تک پہنچی کہ قومی بجٹ مالی سال 2019-20 ء کا کل ہجم 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ ہے اور بجٹ خسارہ3136 ارب روپے ہے آج ڈالر کی قیمت 160 روپے ہے،جو بیرونی قرض 1955 ء میں صرف 12 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھے وہ2018 ء تک95 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اور اس کے بعد تقربیا آٹھ ارب ڈالر اِن پرانے قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے دیئے گئے ہیں،ادائیگی کی یہ رقم بھی قرض ہی لی گئی ہے،اس کے ساتھ اندرونی قرضے جو 1972-73 ء کے مالی سال تک نہ ہونے کے برابر تھے 2018 ء تک اِن کا مجموعی حجم تیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا اوراس کے بعد اس سال اس میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے۔

پاکستان کی پہلی مردم شماری1951 ء میں ہو ئی جب پاکستان سٹیزن ایکٹ نافذ کر کے بھارت سے آنے والے مہاجرین کا سلسلہ روک دیا گیا، اُس وقت پا کستان کی آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ اور آج یہ آبادی2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 22 کروڑ بتائی جاتی ہے 1951 ء میں شرح خواندگی 16 فیصد تھی یوں کل آبادی میں اَن پڑھ افراد کی تعداد تقربیاً54 لاکھ تھی آج ملک میں شرح خوندگی 58 فیصد بتائی جاتی ہے اس تنا سب سے ملک میں اَن پڑھ افراد کی مجموعی تعداد 9 کروڑ ہے ،آزادی کے وقت منشیات کے عادی افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی آج ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 95 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور اس تعداد میں 90% نوجوان ہیں۔

ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قدرت کی مہر بانیوں اور وسائل کے ساتھ ہمار ا ملک مجموعی طور پر دنیا کے ٹاپ 20 ٹونٹی ممالک میں شامل ہے مگر اقوام متحد ہ کے 193 رکن ممالک میں تقریباً جتنے بھی مثبت اعشاریے ہیں ہم اِن کے لحاظ سے دنیا میں 100 نمبر سے نیچے ہیں۔

یہاں یہ تلخ حقیت بالکل واضح نظر آتی ہے کہ 1947 ء سے پہلے ہم دو قومی نظریے کے تحت ایک قوم بلکہ ایک مضبوط قوم تھے جس نے ایک نئے ملک کو صرف ایک سال میں معاشی ،اقتصادی، دفاعی اور عسکری طور پر مضبوط بنا دیا تھا ، لیکن آج ملک تو ہے مگر ہم بطور قوم بکھر نے لگے اور پھر 1990 ء میں سرد جنگ کے بعد جب دنیا بھر کے ممالک دنیا کے نئے منظر نامے کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے ہم بد قسمتی سے بد ترین کرپشن ،تعصب،فرقہ ورایت کا شکار تھے، لیکن ایک اچھی صور ت یہ ہے کہ اب ایک بار پھر پاکستانی قوم میں جذبہ حب الوطنی بڑی قوت سے بیدار ہوا ہے اور یہ جذبہ نوجوانوں میں بڑی شدت سے اُبھارا ہے۔ یہ صورتحال بقول فیض احمد فیض یوں ہے۔

روشن کہیں بہار کے امکاں ہو ئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہو ئے تو ہیں

اِن میں لہو جلا ہے ہمار ا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

یوں پاکستان کی تاریخ کا جائز لیں تو آج جب ہم قیام پاکستان اور آزادی کی72 سالگر منارہے ہیں تو اس 72 سالہ تاریخ کو ہم تین نسلوں یا پشتوں اور تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں پہلے وہ نسل جو انگریزی راج کے ہند وستان میں پیدا ہوئی لیکن اپنے اسلاف سے جدوجہدِآزادی کی تحریک اور جذبہ لے کر آگئے بڑھی اور پاکستان کو حاصل کر کے دکھایا، اِن میں سب سے زیادہ نمایاں اور درخشاں نام قائد اعظم محمد علی جناح ،علامہ محمد اقبال اور شہید ِ ملت لیاقت علی خان کے ہیں کے پھر ناموں کی ایک فہرست جو 1990 تک آتی ہے ان میں سے چند لیڈر مختلف اندازسے حکمران ہو ئے بعض جمہوری کہلائے اور بعض آمر مگر اِن میں سے بہت سوں سے بہت سی غلطیاں اور بعض سے فاش غلطیاں ہوئیں۔

کچھ پر کسی قدرے کرپشن کے الزامات بھی آئے مگر 1990 ء کے بعد سے جو قیادت برسراقتدار آئی وہ تقربیاً تمام کی تمام نا اہل ثابت ہوئی یوں صرف 29 برسوں میں پاکستان بحیثیت ملک اور بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں 72 سالہ تاریخ کے دوسرے یا درمیانے دور کی لیڈر شپ نے بلکہ ہر شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کی اکثریت نے شدید نقصان پہنچا یا۔ یہ دوسری نسل جو قیام پاکستان کے بعد پچاس کی دہائی تک پیدا ہوئی اور اب اگر جو لوگ ان میں زندہ ہیں اُن کی عمر اب 60 سے 72 سال تک ہو چکی ہے اِن کی اکثریت نے ظلم یہ کیا ہے ،کہ ہماری تہذیبی اخلاقی اقدار کو پامال کردیا، لیکن اتنے برے حالات کے باجود اب نوجوان نسل نئے جوش و جذبے سے آگے آئی ہے ۔

4 اگست کو جب یہ سطور اختتام کو پہنچ رہی تھیں تو میں نوجوانوں کی جانب سے یوم آزادی پر منعقدہ پروگرام میں شرکت کے بعد واپس آیا تھا اور اُن نوجوانوں کے جو احساسات وجذبات تھے ،مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہماری آزادی کی پہلی لیڈر شپ کی پاکیزہ روحیں ،اِن نوجوانوں کے جسم وجاں میں حلول کر گئی ہوں، اور واقعی یہ درست ہے۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
 
Top