پاکستان کا مجرم آخر ہے کون؟

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کا مجرم آخر ہے کون؟
امجد طفیل بھٹی اتوار 7 اپريل 2019
1618689-pakistankamujrim-1554443185-509-640x480.jpg

عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مجرم آخر ہے کون؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پچھلے ستر سال سے زائد عرصے سے پاکستان کے سیاستدان، بیوروکریٹ، جج، جرنیل اور پالیسی بنانے والے عوام کو ہمیشہ ایک بات ہی سُنائے چلے جارہے ہیں کہ ملک اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دو چار ہے، ملک پر اس وقت شدید معاشی دباؤ ہے وغیرہ۔ کبھی کسی محب وطن سیاسی رہنما نے عوام کو کوئی خوشخبری نہ سنائی کہ ہم مشکل سے نکل آئے ہیں اور آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں، بلکہ ہمیشہ سے مایوسی ہی پھیلائی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر آج کل الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی بھرمار نے ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں کےلیے یہ کام اور بھی آسان کر دیا ہے کیونکہ میڈیا ہمیشہ منفی خبروں کو ہی اپنی ریٹنگ کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

ایک کے بعد ایک سیاسی، فوجی اور نیم جمہوری حکومتیں آتی رہیں اور ہر بار ہر حکومت کا خاتمہ اس کی بدعنوانیوں پر ہی ہوا یا پھر کیا گیا۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جو بھی شخص حکومت میں ہوتا ہے اسے سب لٹیرا سمجھتے ہیں اور جونہی حکومت سے باہر آتا ہے تو وہ مظلومیت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہو کر اگلی باری حکومت کرنے کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ یہاں ہر سیاستدان، ہر لیڈر اور ہر بڑے آدمی پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگے مگر بار بار اُنہی لوگوں نے عوام کو بے وقوف بنایا۔

ملک میں برائیوں کے خاتمے کےلیے فوجی عدالتیں بنیں، احتساب عدالتیں بنیں، شرعی عدالتیں بنیں، ایک کے بعد ایک ادارے بنے؛ سیکڑوں قسم کے کریک ڈاؤن، آپریشن اور پالیسیاں بنیں، لوگوں کا احتساب ہوا، جیلیں ہوئیں، کورٹ مارشل ہوئے، معطلیاں ہوئیں، جرمانے ہوئے، سزائیں ہوئیں مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی جو آج حالت ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہمارے قومی مجرموں کو پہچانے گا؟ کون قوم کے سامنے سچ رکھے گا؟ کون ملک کی لُوٹی ہوئی پائی پائی عوام کی فلاح و بہبود پر لگائے گا؟ کون اصلی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا؟ کون اپنوں اور غیروں کی تمیز کیے بغیر احتساب کرے گا؟

پاکستان میں جب بھی کسی کرپٹ شخص پر کوئی ادارہ ہاتھ ڈالتا ہے تو جو انکشافات ہوتے ہیں وہ اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر ایک انسان کو دولت کی اس قدر بھوک بھی ہو سکتی ہے۔ پچھلے چند برسوں کی ہی بات اگر لے لی جائے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کو کس طرح بے دردی سے اور بے رحمی سے لُوٹا گیا ہے۔ کس نام سے گننا شروع کیا جائے؟ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ ہر پکڑے جانے والے سے لاکھوں کروڑوں نہیں، اربوں کھربوں کا مال و دولت برآمد ہوا۔

مثلاً سب سے پہلے سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین، فواد حسن فواد، احد چیمہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور نہ جانے ایسے ایسے ’’فرنٹ مین‘‘ پکڑے گئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اتنی دولت کا ایک انسان کیا کرے گا؟ جب ایک ارب روپے کسی بھی انسان کی سات پشتوں کےلیے کافی ہوتے ہیں تو پھر کھربوں روپے تو شاید کسی شخص کی آنے والی پشتیں قیامت تک نہ کھاسکیں گی۔

مگر لالچ اور ہوس انسان کی ضرورت میں نہیں فطرت میں شامل ہوتی ہیں۔

اوپر بیان کردہ ناموں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں میں سے تقریباً سبھی ناموں کو عام لوگ نہیں جانتے مگر انہوں نے جن لوگوں کےلیے کام کیا ہوگا، شاید ان سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہو۔ لیکن بدقسمتی سے کبھی بھی کسی کو فیصلہ کن سزا نہ ہوسکی۔ فیصلہ کن سزا کا مطلب ہے کہ کبھی بھی کسی بڑے کو اس طرح کی سزا نہیں ہوئی کہ وہ ملکی سیاسی منظرنامے سے ہی آؤٹ ہوجاتا؛ بلکہ جب جب کسی بڑے کو سزا ہوئی تو اسے سیاسی انتقام کا نام ہی دیا گیا… اور اگلی بار وہی سیاستدان مزید طاقت کے ساتھ حکمرانی کےلیے تیار ہوا۔

پاکستان میں دراصل سیاست اور عہدے صرف دولت اکٹھی کرنے کی نیت سے لیے اور کیے جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان پر قرضوں کی گنتی کرنے بیٹھیں تو اتنے ہندسے ہیں کہ گِنے بھی نہیں جاسکتے۔ مگر پکڑے جانے والے اشخاص یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ انہوں نے اتنی ساری دولت کہاں سے اکٹھی کی؟

ہمارے ہاں سیاستدان فوج کو برا بھلا کہتے ہیں کہ ملک کا سارا بجٹ تو دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے جبکہ فوج اور عوام، سیاستدانوں کو ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اب حقیقت کیا ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے! مگر ایک بات اہم ہے کہ اگر پاکستان کی افواج کمزور ہوتیں تو خدانخواستہ ملک کا وجود خطرے میں ہوتا اس لیے دفاع کےلیے ایک خاص بجٹ تو ہر صورت درکار ہے۔ لیکن باقی کے بجٹ کا کون حساب دے گا؟ اتنی بھاری مقدار میں بیرونی قرضے آخر کہاں خرچ ہوئے؟ کون سی سہولیات اور آسانیاں عوام کے حصے میں آئیں؟ کون سے سرکاری ادارے منافع بخش بن گئے؟ جس ادارے کا نام لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ بھی خسارے میں ہے اور حکومت اسے چلانے کےلیے سالانہ اربوں روپے قومی خزانے سے دیتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ کیا تمام سرکاری ادارے سیاسی حکومتوں کے پاس نہیں ہوتے؟ کیا ان میں ناجائز بھرتیاں اور ترقیاں سیاستدان خود نہیں کرواتے؟ کیا بڑے بڑے پروجیکٹس پر کمیشن اور کِک بیکس انہی سیاستدانوں کے فرنٹ مین نہیں لیتے؟

جب ان سب چیزوں کا تمام اداروں کو بخوبی علم ہے تو پھر کیوں قومی مجرموں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا؟ کیوں کسی کرپٹ کو دوبارہ ملک کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے؟ کیوں ریاست طاقت کے ساتھ اپنے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتی؟ کیا ریاست اس قدر کمزور ہے کہ کوئی بھی ایک خاص شخص کسی بھی وقت ریاست سے بالاتر ہو جاتا ہے؟ پاکستان کے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مجرم آخر ہے کون؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top