پاکستان کا بنیادی مسئلہ قرضوں کا غلط استعمال ہے: ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کا بنیادی مسئلہ قرضوں کا غلط استعمال ہے
دنیا کے پچیس 'روشن ترین' نوجوان ماہرینِ اقتصادیات میں شامل ڈاکٹر عاطف میاں کا کہنا ہے کہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ، بیرونی قرضوں کا غیر پیداواری منصوبوں پر استعمال ہے۔ بی بی سی اردو پر تفصیلی انٹرویو
 

الف نظامی

لائبریرین
قرضے لینا ہی غلط ہے چہ جائیکہ ہم اس کے صحیح و غلط استعمال کی بات کریں۔ سب سے بڑا مرض ہی یہی ہے۔
قرض میں جکڑے ملک دوسروں کی غلط شرائط ماننے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان کی آزادی و خود مختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرضہ ہے۔ لہذا آج سے پاکستان قرضہ لینا بند کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بنیادی گل ہلے وی اوتھے ای عاطف یا کپتان ؟ :p
اگر ڈاکٹر عاطف میاں اور کپتان ایک پیج پر نہ ہوتے تو کبھی ان کودھرنے کے دوران وزیر خزانہ بنانے کا اعلان نہ کرتے۔ اور حکومت میں آنے کے فوری بعد اقتصادی مشارتی کونسل میں شامل نہ کرتے۔ :)
 
اگر ڈاکٹر عاطف میاں اور کپتان ایک پیج پر نہ ہوتے تو کبھی ان کودھرنے کے دوران وزیر خزانہ بنانے کا اعلان نہ کرتے۔ اور حکومت میں آنے کے فوری بعد اقتصادی مشارتی کونسل میں شامل نہ کرتے۔ :)

اور فارغ تو ہرگز نہ کرتے۔ :sneaky:
 

جاسم محمد

محفلین
بنیادی گل ہلے وی اوتھے ای عاطف یا کپتان ؟ :p
عاطف میاں ٹھیک کہتے ہیں یا عمران خان؟
28/07/2019 احمد ولید


انتخابات سے قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو رلائیں گے۔ اس کے بعد ان کے سب سے با اعتماد ساتھی اسد عمر نے کہا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور لوگ چیخیں گے۔ انہوں نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ آج سارا شریف اور زرداری خاندان رو رہا ہے اور ان کے ساتھ پورے ملک کی چیخیں بھی نکل رہی ہیں۔ کچھ مہنگائی تو شاید ناگزیر تھی مگر کاروبار میں مندی کا سہرا حکومت کی گو مگو کیفیت پرکچھ زیادہ جاتا ہے۔ تحریک انصاف کا پہلا سال کرپشن کرپشن کی رٹ میں گزر گیا۔

معاشی ماہر عاطف میاں نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں کہا کہ تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام میں چلے جانا چاہیے تھا بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اگر پچھلی حکومت اپنے آخری سال میں یہ پروگرام حاصل کرلیتی تو معیشت کی حالت اتنی دگرگوں نہ ہوتی۔ مگر شاید وہ الیکشن میں جارہے تھے تو انہوں نے عالمی ادارے کی سخت شرائط کے نتائج بھانپتے ہوئے جان بوجھ کر تاخیر کردی تاکہ اگلی حکومت آئے تو وہ خود ہی اس سب صورت حال کا سامنا کرے۔

عاطف میاں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کٹھن حالات سے نکلنے میں وقت لگے گا۔ پاکستان کا مسئلہ رہا ہے کہ قرضے حاصل کرکے سرمایہ کاری غیر پیداواری شعبوں میں ہوتی رہی جس کی وجہ سے مزید قرضے لینا پڑے اور مسائل بڑھتے گئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کسی ملک کی معاشی اشاریے کیسے بہتری کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ سرمایہ کاری ایک ایسا پرامن اور سازگار ماحول مانگتی جس میں سرمایہ کار کو اعتماد ہو یہ ملک صحیح طرف چل رہا ہے اس کے لیے آپ کو قانون کی عملداری یقینی بنانی ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے دہشت گردی ہے، تشدد ہے، اور ایسے مسائل سے لوگوں کو اتنا نقصان پہنچا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی اور لوگ باہر سے پاکستان آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاحت کی بات کرتے ہیں جب تک حالات بہتر نہ ہوں تو لوگ نہیں پاکستان آئیں گے۔ کرکٹ ٹیم تک نہیں آتی پاکستان میں کھیلنے کے لیے۔ جب تک آپ ایسے عناصر کو ختم نہیں کردیتے جو ملک میں انتہا پسندی اور تشدد پھلاتے ہیں تب تک سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ ان کے خیال میں کسی ملک میں معاشی صورت حال بہتر کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ملک میں فتنہ فساد اور شرپسندی نہ ہو۔

انہی دو دہائیوں میں عدالتوں نے ملک میں سرمایہ کاری کو جو کاری ضرب پہنچائی وہ آج سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ ہر بیرون ملک سے آنے والا سرمایہ کار لاقانونیت، انتہا پسندی، دہشت گردی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام پر بڑے سوالات اٹھا دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کے ملک میں عدالتیں سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ریکو ڈک، اسٹیل ملز، کارکے، گوادر جیسے کئی منصوبے زندہ مثالیں ہیں۔ منصوبے ایک عدالتی آرڈر پر منسوخ کردیے گئے جس سے ملک کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا اور اس کے اثرات آنے والی کئی دہائیوں تک رہیں گے۔ پاکستان کے سب سے معتبر اخبار ’ڈان‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ریکو ڈک، کارکے اور براڈشیٹ فیصلوں کے بعد بہت ضروری ہو گیا ہے کہ غور کیا جائے کہ ضوابط کی خلاف ورزی کے الزامات اور حکومت کے اختیارات میں عدالتی مداخلت کی کس حد تک اجازت ہونی چاہیے۔

اس کے برعکس ہم دیکھیں تو عمران خان اور ان کی پارٹی کا صرف ایک موقف ہے کہ پچھلی دو تین دہائیوں کے دوران پاکستان میں سرمایہ کاری اس لیے نہیں ہو سکی کہ ملک میں کرپشن کا بازار گرم تھا بیرونی سرمایہ کار یہاں آنے سے گھبراتے تھے کیونکہ انہیں علم تھا کہ ان کا پیسہ کرپشن کی نذر ہو گیا۔ حالانکہ چین سمیت دوسرے ملکوں نے دہشت گردی کی لہر کم ہوتے ہی سرمایہ کاری شروع کردی۔ اگر کرپشن تھی تو سرمایہ کاری کیسے ملک میں آئی اور توانائی کے منصوبے کیونکر لگنا شروع ہو گئے؟

سابق صدر پرویز مشرف کے دور کے وزیرخزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کے دور میں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ توانائی کا کوئی بڑا منصوبہ نہیں لگا سکے۔ وہ بھی اس لیے کہ پاکستان کی مالی حالت اتنی اچھی کبھی نہیں رہی کہ وہ اپنے سرمائے سے اتنے بڑے منصوبے لگا سکے اورتوانائی جیسے میگا منصوبے بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں۔ اس دور میں دہشت گردی کے پیش نظر کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

عمران خان نے الیکشن سے قبل یہ بھی الزامات لگائے کہ سی پیک کے تمام منصوبوں میں بڑی کرپشن ہو رہی ہے اور جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو تمام منصوبوں کے ٹھیکے عوام کے سامنے کھول دیں گے تاکہ پچھلی حکومت کی کرپشن بے نقاب کرسکیں۔ اس پر چین کے شدید تحفظات سامنے آئے اور انہیں واضح کرنا پڑا کہ سی پیک کے تمام منصوبوں کے ٹھیکے شفاف طریقے سے دیے گئے اور ان پر کرپشن کے الزامات لگانا مناسب نہیں۔ جس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی چینی منصوبوں پرخاموشی اختیار کرلی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف کے کرپشن کے بیانیے کے ہوتے ہوئے ملک میں کسی قسم کی سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار بنا دیا گیا ہے کہ سرمایہ کار بلاخوف کاروبار کرسکیں؟ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سرمایہ کار جتنے خوف زدہ آج ہیں شاید ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے ہوں گے۔

معاشی ماہر جرار شاہ کہتے ہیں حکومت زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگا کر سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو مارکر سارے انڈے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔

اس ساری صورت حال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات میں زور زبردستی سے مرضی کے نتائج لیے جاسکتے ہیں مگر معیشت کے نہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری اسی صورت بڑھے گی جب ہم سازگار ماحول، قانون کی عملداری، سیاسی استحکام اور اعتماد کی فضا پیدا کرنے، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے اور اداروں کا اپنے اپنے دائرہ کار میں پابند رہنے کا رواج قائم کرنے جیسے اقدامات کو یقینی بنانے کا تہیہ کرلیں۔

شازیہ سید پاکستان کے سب سے بڑے ادارے یونی لیور کی سربراہ ہیں ان کے ادارے کی اشیاء ملک کے ستانوے فی صد گھروں میں پہنچتی ہیں۔ شازیہ وزیراعظم کو ایک ہی پیغام دیتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس وقت ایک تحریک، اعتماد اور یقین درکار ہے۔
اب ہم عاطف میاں اور شازیہ سید کی بات مانیں یا پھر وزیراعظم عمران خان کی؟
 

جاسم محمد

محفلین
معاشی بحران کی اصل وجہ کرپشن نہیں، بیرونی قرضوں کا غیر پیداواری استعمال ہے: عاطف میاں
30/07/2019 ہم سب نیوز


عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطِف میاں نے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ وہ بیرونی قرضے ہیں جنھیں غیر پیداواری اور غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کیا گیا۔

ڈاکٹر عاطف میاں کو تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن مذہبی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے ان کی شمولیت ممکن نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر میاں نے 2007 کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ بننے والے گھروں کے قرضوں سے شروع ہونے والے دیوالیے کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ تجزیہ ایک کتاب ہاؤس آف ڈیٹ (قرضوں کے مکان) کے نام سے شائع ہوا تھا۔

بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن نقصان تو پہنچاتی ہے، لیکن ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جو ترقی کا ماڈل اپنایا ہے یہ اب بنیادی طور پر چل ہی نہیں سکتا ہے۔ کرپشن ہو یا نہ ہو، اب یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ ماڈل اب مستقل بنیادوں پر چل سکے۔ جب تک آپ بیرونی طاقتوں پر انحصار کریں گے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے، آپ کا ترقی کا یہ ماڈل اب چل ہی نہیں سکتا۔

قرضوں والا ماڈل کیا ہے؟ عاطف میاں نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چین یا مشرقِ بعید کے ایشیائی ممالک، مثلاّ کوریا وغیرہ کی مثال لیں تو ان سب نے ان کی ترقی کی اصل اور بنیادی وجہ، ملک کی اندرونی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہے اور ان ممالک کی ترقی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں کہ ان قرضوں کو اگر ایسے منصوبے میں لگایا جائے جن سے اتنی آمدن نہ ہو جن سے یہ قرضہ اتارا جا سکے تو پھر ایسے قرضے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسی لیے نہ صرف ہم نے قرضے لیے بلکہ ان قرضوں کی ایسی جگہوں پر سرمایہ کاری کی کہ اس سے معیشت کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اور ان قرضوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکا۔ اسی لیے ہم بار بار آئی ایم ایف کی طرف جاتے ہیں۔ بار بار بیل آؤٹ کی طرف جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکسوں کے مجموعی قومی پیداوار میں دس فیصد حصے کو پندرہ فیصد تک لانے کا ہدف دیا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا چیلینج ہے۔ سنہ 1980 کی دہائی کے بعد سے اب تک پاکستان اپنے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے بارہ مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کر چکا ہے اور موجودہ حکومت کا رجوع کرنا تیرھویں مرتبہ ہے۔

بار بار آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو اقتصادی ماڈل اپنایا ہوا ہے اس میں ایسی خرابیاں ہیں کہ ہر چار یا پانچ سال کے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال بہت بگڑ جاتی ہے۔

قرضوں والے اکنامک ماڈ ل کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس میں سب سے بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں یہ سوچا جاتا ہے کہ باہر سے قرضے لے کر یا کسی قسم کی امداد لے کر ملک میں ترقی دکھائیں۔ اس ماڈل میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بیرونی پیسہ آرہا ہوتا ہے تو اقتصادی ترقی کے اشارے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اس روپیہ سے نظر آنے والی ترقی عارضی اور وقتی ہوتی ہے، کیونکہ جیسے ہی وہ روپیہ آنا بند ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ معیشت بھی سست ہونا شروع کردیتی ہے۔ باوجود اس کے کہ اس بیرونی قرضوں سے ملک میں سرمایہ کاری تو ہوتی ہے لیکن یہ سرمایہ کاری ایسے منصوبوں میں کر دی جاتی ہے جن سے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔

پاکستانی عوام اس وقت مہنگائی کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے جب قرضے بند ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انھیں واپس کرنا ہے اور جب وہ منصوبہ جس پر سرمایہ کاری ہوئی ہوتی ہے اس سے آمدن نہیں ہوتی ہے تو پھر اس منصوبے کے قرض کی رقم واپس کرنے کے لیے پھر سے قرضہ لینا پڑتا ہے، جسے بیل آؤٹ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر عاطف میاں کے مطابق، بیل آؤٹ کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہوجاتی ہے، معیشت میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور آپ کے پاس زرِ مبادلہ بھی نہیں ہوتا ہے تاکہ آپ بیرونی قرضے کی ادائیگی کرسکیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ آئی ایم ایف کا ایک ہدف کہ پاکستان اپنے محصولات (ٹیکسوں کے ذریعے آمدن) کو مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد حصے سے بڑھا کر پندرہ فیصد کرے، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ یہ ہدف حاصل کرنا ہے تو مشکل، لیکن اگر یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ملک میں پہلی مرتبہ ہو گا کہ ٹیکس ریوینیو میں اتنا بڑا اضافہ ہوگا۔ دنیا کے اگر دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ٹیکس جی ڈی پی ریشو (ٹیکسوں کا مجموعی قومی پیداوار میں تناسب) اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر عالمی معیار سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا یہ ہدف زیادہ مشکل نہیں ہے۔

اس سوال پر کہ پاکستان یہ ہدف گزشتہ ادوار میں کیوں نہیں حاصل کرسکا، ڈاکٹر میاں نے کہا کہ پاکستان میں ہر مسئلے کا اگر حل ڈھونڈیں گے تو اس کے حل ملک کے اندر ہی نظر آئیں گے۔ بیرونی قرضوں سے ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی گئی جن سے اتنی آمدن ہی نہیں ہے جو قرضے اتار سکیں۔

موجودہ حکومت کی پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ پاکستان کا اس وقت بنیادی مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہیں جس کے لیے برآمدات میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے۔ آپ گھر بنا کر انھیں برآمد تو نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔۔ جو کام آپ کو کرنا چاہئیے یہ اس سے بالکل الٹ کام کریں گے اگر آپ ایسا کریں گے۔ (اگر یہ گھر بننا شروع ہو گئے) تو آپ کا کثیر سرمایہ اور لیبر ایک ایسے کام میں لگ جائے گی جسے آپ برآمد نہیں کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس سے درآمدات بڑھیں گیں۔۔۔۔ اور بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ پیچیدہ تر ہوگا۔

ڈاکٹر عاطف میاں سے پوچھا گیا کہ اس ہدف کو حاصل نہ کر پانے میں بڑا مسئلہ کیا ہے، آیا تقسیمِ دولت مسئلہ ہے، چوری ہے یا دفاعی بجٹ ہے تو انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ ریاست کی صلاحیت میں کمی ہے۔ پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ غیر ملکی قرضوں سے ملک کے اندر غیر پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری ہے۔ اگر آپ نے کوئی بھی کام کرنا ہو، خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت سمیت کئی مسائل ہیں، ایسے ملک میں ریاست میں اپنے اندر صلاحیت ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے کام سرانجام دے سکے اور انتظامی کام کر سکے۔ اس صلاحیت کو پیدا کرنا ہوگا اور بہتر کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق یہ صلاحیت پاکستان کی ریاست کو خود سے پیدا کرنا ہو گی، یہ کام آپ کے لیے چین یا سعودی عرب یا امریکہ سے آکر تو کوئی نہیں کرے گا، یہ سب کام پاکستانی اداروں کے ذریعے ہی کرنا ہے، یہ صلاحیت تو خود ہی پیدا کرنا ہوگی لیڈرشپ بھی خود پیدا کرنا ہوگی۔

اس سوال پر کہ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی جانب رجوع کرنے میں دیر کی جس کی وجہ سے تکالیف بڑھ گئی، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا جس حالت میں پاکستان تھا اس میں نہ صرف موجودہ حکومت نے دیر کی بلکہ یہ حالت نواز شریف کی حکومت کے آخری سال میں بھی بہت واضح تھی۔ تو ان حالات کا احساس نواز شریف کی حکومت کو اپنے آخری سال میں کرلینا چاہئیے تھا، لیکن انھوں نے تاخیر کی کیونکہ وہ الیکشن میں جا رہے تھے۔ حکومت نے مکانات کی کمی کے لیے پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں اس سے بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ پیچیدہ تر ہو جایے گا۔

ڈاکٹر عاطف نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو قرضوں کی لت لگی رہی ہے۔ یہ ایک بری عادت ہے جو ہمیں نشے کی طرح لگ چکی ہے۔ ماضی میں جو دو حکومتیں آئیں، بلکہ جب بھی حکومتیں انتخابات لڑ کر آتی ہیں تو ان پر دباؤ ہوتا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو کچھ دکھانا ہے۔ ان کے مطابق کارکردگی کے دکھانے کو دو راستے ہیں، یا تو مشکل طریقہ استعمال کریں جو کہ دائمی طریقہ ہے، یعنی نظام کو بہتر بنائیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔ اس طرف جانے کی بجائے وہ آسان رستہ ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح قرضے لے کے (کام چلا لیں)، لیکن قرضہ لینے کا مطلب ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے اپنی اگلی نسل کا مستقبل گروی رکھ دیا ہو۔
 
Top