پاکستان میں سیاسی پارٹیاں کمزوراورلیڈرمضبوط ہیں‘سہیل وڑائچ

کراچی (جنگ نیوز)معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک کے بر عکس پاکستان میں سیاسی پارٹیاں کمزورجبکہ لیڈر طاقتورہیں اور اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔وہ جیونیوزکے پروگرام ’’میرے مطابق ‘‘میں میزبان ماریہ میمن کے سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے الیکشن پارٹیاں لڑتی ہیں جبکہ حکومت لیڈر کرتے ہیں ۔جو سینیٹر ،ایم این اے یا ایم اپی اے بن جائیں وہ نہال ہو جاتے ہیں باقی ضلعی و تحصیل صدور اور مجلس عاملہ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ۔سہیل وڑائچ نے مسلم لیگ نواز ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی کور کمیٹیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کچن کیبنٹ کا نیا نام کو ر کمیٹی ہے، پارٹی آئین میں اس کا کوئی ذکر نہیں ۔ انہوں نے کورکمیٹیوں کو جمہوریت کے نام پر بد نما دھبہ قرار دیا ۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ مسلم لیگ نواز نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی مجلس عاملہ کا اجلاس نہیں بلایا ،پیپلزپارٹی بالخصوص پنجاب کے ضلعی عہدیداروں کے نام بھی شاید بلاول بھٹو زرداری کو نہ پتہ ہوں ۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ جمہوریت کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں مضبوط ہوں ۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر کا اپنے ورکرز اور پارٹی کے ضلعی عہدیداروں کے ساتھ مستقل رابطہ تھا لیکن پیپلز پارٹی میں اب ایسا بالکل نہیں ۔
مآخذ
 
یہ بات بالکل درست ہے کہ سیاسی جماعتیں نہیں سیاسی لیڈر مضبوط ہیں۔ اور عوام بھی سیاسی جماعتوں کو نہیں لیڈروں کو ووٹ دیتے ہیں۔
اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری قوم مجموعی طور پر شخصیت پرست ہے۔ چاہے وہ سیاسی شخصیات ہوں یا مذہبی۔ عوام بھی ووٹ دیتے وقت لیڈر یا جماعت کے منشور سے زیادہ اس کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
یاد رہے کہ عمران خان کا مقصد تحریک انصاف کو ایک قومی ادارہ بنانا ہے نہ کہ روائیتی ون مین پارٹی جو اسکے خاندان تک محدود ہو اور اقتدار میں آتے ہی پاکستان کی لوٹ مار میں ملوث ہو۔ اوپر جو لوگ ہنسی اور ٹھٹھہ کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں۔ یقینا شوکت خانم ہسپتال، نمل یونی ورسٹی وغیرہ جو عمران خان کے حکومت میں آنے سے قبل عوامی فلاحی بہبود کیلئے بنائے گئے ہنسی اور ٹھٹھہ ہی تھے۔
 
تحریک انصاف میں دو کام ایسے ہوئے جو اسے ن لیگ اور پی پی سے ممتاز کرتے ہیں، ایک تو جماعتی انتخابات اور دوسرے سیاسی فنڈ ریزنگ۔
 
Top