پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک؛ قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والی قیادت موجود نہیں: جیمز میٹس

جاسم محمد

محفلین
پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک؛ قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والی قیادت موجود نہیں: جیمز میٹس
05/09/2019 نیوز ڈیسک


جنوری 2017 سے جنوری 2019 تک امریکا کا وزیر دفاع رہنے والے سابق امریکی کمانڈر جیمز میٹس نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کم سے کم توقعات کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات برقرار رکھیں. جمیز میٹس کا تعلق امریکا کی مرین کور سے ہے جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی کابینہ میں بطور سیکرٹری دفاع شامل کیا تھا، تاہم انہوں نے جنوری 2019 میں افغانستان کے معاملات پر امریکی صدر سے اختلافات پیدا ہونے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا.

اپنی سوانح حیات ”کال سائن کیاؤس“ (Call Sign Chaos) میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے وزیر دفاع نے لکھا کہ پاکستان دنیا کے ہر مسئلے کو بھارت کے ساتھ اپنی عداوت کی روشنی مین دیکھتا ہے۔ نئی دہلی کے ساتھ پیچیدہ تعلقات نے اسلام آباد کو کابل میں دوستانہ حکومت کی خواہش پر مجبور کیا تاکہ خطے مین انڈیا کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکے۔

افغانستان میں امریکی فوج اور امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کی سربراہی کرنے والے جیمز میٹس افغانستان سے امریکی فوج کے فوری انخلا کے مخالف رہے ہیں. اپنی سوانح حیات میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ بالآخر یہ ہمارا مشترکہ مفاد ہے کہ ہم تعاون کی معمولی توقعات کے ساتھ اپنے محتاط تعلقات برقرار رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں لیکن انہیں حل کرنے کے لیے ہمارا اختلاف بہت گہرا اور باہم بھروسہ بہت کم ہے، اور یہی آج کل ہمارے تعلقات کی حالت ہے.

اپنی کتاب کی رونمائی کے دوران انہوں نے امریکی کونسل برائے خارجہ امور کے بحث و مباحثے میں بھی حصہ لیا جہاں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنی کتاب میں پاکستان کو سب سے خطرناک ملک کیوں لکھا؟ انہوں نے جواب میں پاکستان میں بنیاد پرستی کو ہی پاکستان کے سب سے خطر ناک ملک ہونے کی وجہ قرار دیا. امریکی جنرل نے کہا کہ پاکستان میں بنیاد پرستی ہے۔ پاکستان کی فوج کے کچھ عہدے داروں کو اس حقیقت کا ادراک ہے، انہیں یہ احساس ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور وہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں.



جیمز میٹس نے کہا کہ جب آپ بنیاد پرستی کو لیتے ہیں اور اس میں دنیا کی سب سے تیزی سے ایٹمی ہتھیار بنانے والی صلاحیت کو شامل کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ آخر ہم ہتھیاروں کے کنڑول اور جوہدری ہتھیاروں کے عدم پھیلاﺅ کی بات کرنے کی ضرورت پر زور کیوں دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی خطرناک مسئلہ ہے جس کے بارے میں شاید ہی کوئی لکھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہت پیچیدہ رہے ہیں۔ اپنی کتاب میں جیمز میٹس نے پاکستان اور امریکا کے عسکری تعلقات پر روشنی ڈالی تاہم انہوں نے دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے بارے میں زیادہ اظہار رائے نہیں کیا۔

انہوں نے لکھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اپنی پیدائش سے ہی اپنے آپ سے کوئی محبت نہیں تھی اور سیاست میں خود کو تباہ کرنے کا ایک سلسلہ چلتا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس ایسی لیڈرشپ ہی موجود نہیں ہے جو قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچے۔ پاکستان کی بھارت کے لیے پالیسی سے متعلق اپنی کتاب میں امریکا کے سابق سیکرٹری دفاع نے لکھا کہ پاکستان اپنے پڑوسی بھارت کے ساتھ اپنی دشمنی کی بنیاد پر تمام جغرافیائی سیاست کو دیکھتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے اپنی پالیسی بھی اس تناظر میں ترتیب دی ہے۔ اسلام آباد کابل میں ایک حامی حکومت چاہتا ہے جو افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کرے۔

جیمز میٹس نے اعتراف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان میں نیٹو کے ہلاک فوجیوں کی تعداد سے زیادہ اپنی مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سوچتا ہے کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول یا پھر ان کے ساتھ جوڑ توڑ کرسکتا ہے، تاہم دہشت گردی وہ بیج ہے جو ایک دفعہ بو دیا جائے تو جب وہ پھلتا پھولتا ہے تو اسے نہ صرف پاکستان کی خفیہ سروس بلکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔

 
اپنی جرنیلی "مایوپک" دوربین لگاکر جب امریکن تھنکر پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں پاکستان جیسا ملک جو دنیا کے واحد ملک ہندوستان کے ساتھ (سیاچن اور کارگل سمیت) پانچ جنگیں لڑ چکا ہے اور تنازع کی وجہ پانچ میں سے چار مرتبہ کشمیر رہی ہے، کیوں اپنی جغرافیائی سیاست کو صرف ہندوستان کے حوالے سے دیکھتا ہے۔

رہی بنیاد پرستی اور دہشت گردی تو یہ امریکہ بہادر نے ہی روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیے۔ اب جب کہ یہ جن بوتل سے باہر آچکا، سب ہی پریشان ہیں۔ یادش بخیر ستر کی دہائی تک پاکستانی ایک نارمل بیلنسڈ قوم ہوا کرتی تھی۔
 
امریکہ دنیا کا قاتل ترین ملک، انسانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والی قیادت موجود نہیں۔
الف نظامی بھائی آپ کی بات تو دنیا کے ہر ملک پر فٹ آسکتی ہے لیکن فاضل مصنف کی بات ؛
پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک؛ قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والی قیادت موجود نہیں: جیمز میٹس

کیا پاکستان کے بارے میں درست نہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی بھائی آپ کی بات تو دنیا کے ہر ملک پر فٹ آسکتی ہے لیکن فاضل مصنف کی بات ؛


کیا پاکستان کے بارے میں درست نہیں؟
ہر گز نہیں ۔ یہ جیمز میٹس کا سطحی تبصرہ ہے جو اپنی دہشت گردیوں سے کمال معصومیت سے صرفِ نظر فرما کر تخلیق کیا گیا ہے۔ بھلا دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں امریکہ نے دہشت گردی کی آگ نہیں بھڑکائی؟

واصف علی واصف فرماتے ہیں:
حکومت نااہل ہوسکتی ہے ، غیر مخلص نہیں ۔ ملک سے مخلص ہونا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ملک سلامت رہے گا تو حکومت قائم رہ سکتی ہے۔ اس لیے حکومت ہمیشہ مخلص ہی ہوتی ہے۔
حزب اختلاف حکومت کو غیر مخلص کہتا ہے اور حکومت اپنے مخالفوں کو وطن دشمن کہتی ہے ، جو انسان دس سال سے زیادہ عرصے سے ملک میں رہ رہا ہو وہ ملک دشمن نہیں ہوسکتا۔ جس کے ماں باپ کی قبر اس ملک میں ہے وہ غدار نہیں۔
 
واصف علی واصف فرماتے ہیں:
حکومت نااہل ہوسکتی ہے ، غیر مخلص نہیں ۔ ملک سے مخلص ہونا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ملک سلامت رہے گا تو حکومت قائم رہ سکتی ہے۔ اس لیے حکومت ہمیشہ مخلص ہی ہوتی ہے۔
حزب اختلاف حکومت کو غیر مخلص

کیا اس بات کو قانونِ مطلق کے طور پر مانا جائے یا یہ بات کسی خاص سیاق و سباق میں کہی گئی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس میں کوئی شک نہ ہے کہ امریکیوں اور اس کے بااثر اتحادیوں کی نظر میں پاکستان اس حوالے سے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے کہ ہمارے معاشرے میں بنیاد پرستی ہے اور ہمارے پاس جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں۔ بنیاد پرستی اور مذہبی انتہاپسندی تو امریکا کو شاید یہاں سے زیادہ افغانستان میں دکھائی دیتی ہو گی تاہم نیوکلیر اسلحہ ہی دراصل پاکستان کو امریکا اور اس کے حواریوں کی نگاہ میں خطرناک بنائے ہوئے ہے جس کا کوئی سامنے کا حل اُن کے پاس موجود نہیں ہے۔ اب ہم اس بیانیے سے اتفاق کریں یا اختلاف، یہ الگ معاملہ ہے۔ کم از کم امریکا کی سول و فوجی قیادت انہی خطوط پر سوچتی ہے۔
 
Top