پاکستان بار کونسل کا فروغ نسیم کو وزیر قانون کے منصب سے فوری ہٹانے کا مطالبہ

پاکستان بار کونسل کا فروغ نسیم کو وزیر قانون کے منصب سے فوری ہٹانے کا مطالبہ
حسیب بھٹی | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 22 فروری 2020

Dawn News Television

0
Translate
5e510150238e3.jpg

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم — فائل فوٹو: ڈان نیوز


پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے سابق اٹارنی جنرل برائے پاکستان انور منصور خان کے استعفے اور سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی کا خیر مقدم کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

پی بی سی کے نائب صدر عابد ساقی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان بار کونسل اور دیگر قانونی اداروں کے مطالبوں پر انور منصور خان کے اٹارنی جنرل کے عہدے سے دستبردار ہونے اور 18 فروری کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں سماعت کے دوران دیے گئے اپنے بیان کو واپس لینے، عدالت عظمیٰ میں معافی نامہ جمع کرانے کا خیر مقدم کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ میں ان کا یہ بیان وفاقی حکومت کے موقف کی پیروی میں تھا جبکہ حکومت اور متعلقہ افراد کو اس کا علم تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ انتہائی افسوس ناک ہے اور ّ(یہ) حکومت کی جانب سے عدلیہ کو کمزور کرنے کی سازش کی عکاسی کرتا ہے'۔

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ 'وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم عدلیہ کے خلاف اس سازش کے ماسٹر مائنڈ نظر آتے ہیں جو اس بارے میں اعلیٰ سطح کے جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جامع تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'فروغ نسیم کے ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت اور شہری حکومتوں کے حق میں نہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ غیرجہوری قوتوں کے لیے کام کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'وفاقی وزیر قانون عدلیہ کی آزادی اور قومی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کا نام خراب ہورہا ہے'۔

انہوں نے وزیر اعظم پاکستان سے انہیں فوری طور پر وفاقی کابینہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔

اٹارنی جنرل کے استعفے کا معاملہ
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر 18 فروری کو اپنے دلائل کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلا جواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔


یہ بھی پڑھیں: سابق اٹارنی جنرل نے اپنے بیان پر سپریم کورٹ سے 'غیر مشروط' معافی مانگ لی

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلا جواز' تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

بعد ازاں 19 فروری کو جسٹس عیسیٰ کے معاملے پر عدالت عظمیٰ میں دوبارہ سماعت ہوئی تھی۔

اس سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنے دلائل دیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

ساتھ ہی پاکستان بار کونسل نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے 'غیر معمولی طرز عمل' پر استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

انور منصور خان نے دعویٰ کیا تھا پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے استعفیٰ دیا۔

بعدا ازاں انور منصور خان نے عدالت عظمیٰ میں اس حوالے سے تحریری معافی بھی جمع کرائی تھی۔
 
Top