پاکستان ایمرجنسی کی حقیقت۔۔۔ برطانوی طالبِ علم کے قلم سے

فرحت کیانی

لائبریرین
فیس بُک پر برمنگھم یونیورسٹی کے گریجویٹ انیڈریو ویبسٹر جو کہ کراچی میں ایک کمپنی کے ساتھ کمیونیکیشز انٹرنشپ کے لئے مقیم ہے، کا پاکستان میں ایمرجنسی کے بارے میں تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس بات نے مجھے اس تحریر کو یہاں شیئر کرنے پر اکسایا وہ انیڈریو کا حقیقت بسندانہ تجزیہ اور پاکستان کے بارے میں غیر جانبدارانہ رویہ ہے ۔۔اینڈریو کا کہنا ہے کہ "جب پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ پر میری پریشانی فطری عمل تھا۔ میں خود کو ایک اجنبی دنیا میں محسوس کر رہا تھا جہاں لوگوں کے بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے اور ٹی وی چینلز پر پابندی لگا دی گئی تھی، جو کہ انتہائی قابلِ مذمت اقدامات ہیں۔ بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ "ہولناک" اور ناقابلِ تصور" حالات سے گزرتے پاکستان میں رہنا کیسا لگتا ہے؟ اور میرا جواب سب کی توقعات کے الٹ ہے۔ ابتدائی پریشانی کے بعد سب کچھ ٹھیک تھا۔ مجھے میرے ساتھ موجود پاکستانی طلبا کے بہت تسلی دی۔ انیڈریو کا کہنا ہے کہ "اگرچہ وہ(پاکستانی طلبہ) بھی پاکستان کے غیر یقینی حالات اور بیرونِ ملک پاکستان کے امیج کے بارے میں پریشان تھے لیکن ایمرجنسی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ دنوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور ویسے بھی حالات جیسے بھی ہوں۔۔زندگی رواں دواں رہے گی۔" اور اینڈریو کے مطابق ہوا بھی ایسا ہی۔

ٰیہاں بہت سے لوگوں کے لئے اختلاف کی گنجائش نکلتی ہے۔۔بہت سے یہ بھی کہیں گے کہ پاکستانی عوام ایمرجنسی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اتنی بے حس نہیں ہیں کہ اس کو ایمرجنسی سے کوئی فرق نہ پڑے ۔۔۔ لیکن اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو پاکستانی عوام کو اب واقعی طاقت اور اقتدار کی اس لڑائی سے فرق نہیں پڑتا۔۔ ان کے نزدیک اس سلسلے میں کسی احتجاج اور کوشش کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہونا وہی ہے جو 'شاہ' چاہے۔۔۔(یہاں 'انٹلکچوئل' طبقے کی نہیں۔۔عام لوگوں کی بات ہو رہی ہے۔۔)۔۔۔اگرچہ عوام کا ایسا رویہ قابلِ تعریف نہیں ہے پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ سیاسی پنڈت جو بھی کہتے رہیں۔۔۔۔لیکن جس طرح قیامِ پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک عوام کا بری طرح استحصال کیا گیا ہے ۔۔۔ ایسے ایسا سوچنا غیر فطری اور غیر متوقع نہیں ہے۔ میرے خیال میں اکثریت کے لئے آمریت اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔۔جمہوریت میں بھی نام نہاد "عوامی نمائندوں" نے ملک و قوم کو جیسے لُوٹا ہے وہ مارشل لاء کے دیے گئے تحفوں سے کسی طور کم نہیں۔

بہرحال اس مضمون کے جس حصے نے مجھے متاثر کیا وہ لکھنے والے کا پاکستان کے بارے میں غیر متعصبانہ بیان ہے۔ اینڈریو کے مطابق عمومی طور پر پاکستان کا تصور ایک ایسے ملک کا ہے جہاں "انتہا پسندی" رائج ہے اور جہاں کرپشن اور سیاسی استحکام کا دور دورہ ہے ۔۔۔لیکن اس کے خیال میں پاکستان اور اس کے لوگ اصل میں اس تصویر سے بہت مختلف ہیں جو اخباری رپورٹس بناتی ہیں۔۔۔"کراچی ایک سحر انگیز اور انوکھی جگہ ہے۔۔ایک ایسی جگہ جہاں سے ڈرنے کی بجائے اسے اپنا لینا چاہئیے۔۔۔اور ایک ایسی جگہ جہاں میں بہت مزے اور آرام سے رہ رہا ہوں۔۔اور خود کو محفوظ بھی محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ یہ ویسا پاکستان تو نہیں ہے جیسا میں نے یہاں آنے سے پہلے تصور کیا تھا ، اور پڑھا تھا۔۔۔ یہ اس سے کہیں زیادہ ہم گیر، کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور کہیں زیادہ دوست نواز ہے۔۔۔"(مکمل مضمون جس میں پاکستان کے حالاتِ حاضرہ اور خود کش حملوں کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے یہاں موجود ہے)۔

ایک غیرملکی کے قلم سے یہ الفاظ مجھے اس لئے بھی اچھے لگے کہ ہم لوگ اکثر حالات کا رونا روتے ہوئے اچھے پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سننے والا جو پاکستان کو صرف میڈیا اور دوسرے لوگوں کے زبانی جانتا ہے اس کے نزدیک پاکستان میں ہر طرف قتل و غارت اور جرائم کا بازار گرم ہے۔۔۔ باقی جگہوں کا تو مجھے نہیں معلوم لیکن برطانیہ اور یورپ میں میں نے یہی دیکھا ہے کہ یہاں نیوز چینلز اور tabloids رائے عامہ پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں اور دونوں ذرائع مبالغہ آرائی کی حدوں کو چھوتے ہیں۔۔جس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو اوپر لکھا گیا۔۔۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ۔۔سب نہیں تو اکثر پاکستانی بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔۔۔ حالات کی نزاکت اپنی جگہ لیکن ہمیں دوسروں کو دوش دینے والی روش اور خود کو خود ترسی کا شکار قوم ثابت کرنے کی بجائے حقیقت پسندی اور رجائیت پسندی سے کام لینا چاہئیے۔۔۔ ملکی حالات میں ہونے والی تبدیلیوں پر ردِعمل بہت ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ سوچ کو مثبت رکھنا بھی بہت اہم ہے۔۔۔بجائے یہ کہنے کے کہ دوسروں نے ملک کو تباہ کر دیا۔۔۔ یہ سوچنا کہ ایک فرد اپنے مخصوص حالات میں رہ کر بھی کس طرح مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔۔ زیادہ مستحسن عمل ہے۔
 
Top