پاکستان اسٹیل ملز: جسے جمہوریت کی خوبصورتی لے ڈوبی

جاسم محمد

محفلین
پاکستان اسٹیل ملز: جسے جمہوریت کی خوبصورتی لے ڈوبی
واصب امداد بدھ 10 جون 2020

2049153-pakistansteelmills-1591703305-657-640x480.jpg

پاکستان اسٹیل ملز مکمل بند ہونے کے باوجود یومیہ ستر لاکھ روپے کا نقصان قومی خزانے کو ہورہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)


’’بھئی تم تو کہتے تھے میں یہ کردوں گا، وہ کردوں گا، ایسے کردوں گا، ویسے کردوں گا۔ میں چھڑی گھما کر ستر سالہ گند زمین میں دھنسا دوں گا، دودھ اور شہد کی نہریں بہا دوں گا۔ مگر یہ کیا؟ تم بھی تو ہم جیسے ہی نکلے۔ نا اہل اور بیکار!‘‘

یہ جذبات سینیٹ میں جاری حالیہ سیشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کے تھے، جب وفاقی حکومت کے زیر انتظام اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے 9 ہزار ملازمین کو اوسطاً تئیس لاکھ روپے دے کر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹیل ملز کا وہ حصہ جس میں تمام تر انفرااسٹرکچر ہے، اور جس کا رقبہ لگ بھگ 1800 ایکڑ ہے، اسے پرائیویٹ انویسٹرز کے حوالے کردیا جائے۔

اس فیصلے کا اعلان کیا ہوا کہ ہر طرف سے تنقیدی نشتر حکومت کے گھاٹ برسائے جانے لگے۔ میڈیا خان صاحب کی پرانی تقاریر، پی ایس ایم میں دیے گئے دھرنے سے ان کے خطاب اور اسد عمر کے وعدے سنا سنا کر حکومت سے اپنی ناکام محبت کی جلن کی تواضع کرنے لگا۔ گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’جب ہماری باری آئے گی‘‘ کی گردان میں بہت سی وہ باتیں بھی کردی گئیں جو جوشِ خطابت میں بھی کرنا خود کو اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کے مترادف تھیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیل ملز کی بندش کی اس اندوہناک داستان کا سوال عمران خان سے کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے ذیابیطس کی انسولین سے کہنا کہ وہ کورونا کا علاج کیوں نہیں، یا دس سال بعد شادی کی ناکامی کا دوش نکاح پڑھوانے والے مولوی کو دینا، یعنی فضول اور بے سر و پا۔

کسی بھی ادارے کو تباہی کے دہانے پر لانا ہو تو چند ٹوٹکے آزما لیجیے۔ کچھ ہی دنوں میں اربوں منافع کمانے والے ادارے اگر ڈھیر نہ ہوئے تو جو چور کی سزا، وہ میری۔ آپ کے سامنے یہ ٹوٹکے پاکستان اسٹیل ملز کی تباہی کی مثال سے رکھ رہا ہوں۔ مشرف حکومت کے آخری دو سال میں یہ ادارہ قومی خزانے کو تقریباً چھ سے آٹھ ارب کا منافع دے چکا تھا۔ سال 2008 میں زرداری صاحب کی حکومت آتی ہے تو وہ اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے مشترکہ دوست معین آفتاب شیخ کو اسٹیل ملز کا سربراہ مقرر کردیتے ہیں۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، یعنی صرف چیئرمین اپنی مرضی کا ہو تو کام نہیں چلتا، نیچے اس کی منشا کی تکمیل کرنے والی ورکر یونینز بھی اپنی ہونی چاہئیں، لہٰذا ’’کلیکٹيو بارگین ایجنسی‘‘ کے انتخابات میں اس گروپ کو جتوایا گیا جس کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ یوں ’’سلیم اللہ اور کلیم اللہ‘‘ کی چیئرمین اور ورکرز کی جوڑی اپنا رانجھا راضی کرنے میں ایسی گم ہوئی کہ کرپشن کیسز کے انبار لگا دیے۔

پہلا کیس کینٹین ٹینڈر کا سامنے آیا جو کہ 80 ملین ڈالر (آٹھ کروڑ ڈالر) کا گھپلا تھا۔ دوسرا پچاس ہزار میٹرک ٹن کوئلہ آسٹریلیا سے منگوانا تھا، جس کی قیمت اس وقت مندی کی شکار کوئلے کی مارکیٹ کے نرخوں سے کہیں زیادہ طے کی گئی۔ یہ چالیس ملین ڈالر کا گھپلا تھا۔ پھر ایک بڑا اسکینڈل اور سامنے آیا جب چین سے چالیس ہزار ٹن کا کوئلہ ایک ارب روپے کا منگوایا گیا۔ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ یہ تمام خرید کسی بھی کاغذی کارروائی کے بغیر ہوئی، کوئی سرٹیفکیٹ لیا نہ ہی کوئی رسید لکھی گئی۔ پھر سرکاری گودام سے 49 ہزار میٹرک ٹن اسٹیل بلیک مارکیٹ میں بیچی گئی، جس کا قومی خزانے کو ساڑھے تین ارب روپے کا نقصان ہوا۔ لوٹ کھسوٹ کے اس بازار پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا کہ پیپلز پارٹی کا پہلا سال اسٹیل ملز کو چھبیس ارب کے ٹیکے کی صورت لگا۔ اس میں نو ارب روپے کرپٹ پریکٹسز، گیارہ ارب روپے مس مینجمنٹ اور باقی بزنس کے خسارے کی صورت میں کون ڈکار گیا، نہیں معلوم۔

2009 میں گیلانی صاحب نے چیئرمین معین آفتاب شیخ کو تو ہٹا دیا، مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے دوستوں کے چہروں پر لالی لانے کا سلسلہ نہ رکا۔ جولائی 2013 تک پانچ چیئرمین تبدیل کیے گئے۔ یعنی جس دوست کو کسی کارہائے نمایاں کا ثمر دینا ہوتا، اسے اسٹیل ملز کا چیئرمین لگا دیا جاتا اور سرکاری وسائل چوستی یہ جونک، ایک اژدہا بن کر عوام کے سینوں پر موج کرتی رہی۔ ایف آئی اے نے جب اس کیس میں اپنے پر جلتے محسوس کیے تو 2012 میں اسے نیب کے حوالے کیا گیا، مگر نیب کا نعرہ احتساب ’’قمر زمان چوہدری‘‘ نامی دیمک چاٹ گیا اور یہ کیس منوں مٹی تلے دب گیا۔

2013 تک یہ مل 104 ارب کے خسارے میں چلی گئی تھی۔ ملازمین کی تعداد آٹھ ہزار سے تیس ہزار تک چلی گئی، یعنی سیاستدانوں سے کہا گیا کہ حلقے میں جس بھی شخص کے ضمیر کا سودا کرنا ہو، اسے تاحیات اپنا غلام بنانا ہو، بس یہاں بھرتی کروا دو۔ جس ادارے میں مالک سے لے کر چپڑاسی تک ایک ہی نظریے کے مرہونِ منت ہوں، وہاں کام کیسے ہوگا، نہیں معلوم۔ اسی سال میاں صاحب نے اسٹیل ملز سمیت 59 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو معاملہ نجکاری کمیشن کے پاس گیا، جس نے فنانشل ایڈوائزر کےلیے اشتہار جاری کیا۔ مگر خان صاحب کو آج قومی اور بین الاقوامی سیاست کے اسرار و رموز سمجھانے والے، چھ ماہ میں ایک فنانشل ایڈوائزر نہ ڈھونڈ پائے۔

زبیر عمر ایک اسکیم لے کر آئے جس کے تحت انہوں نے اسٹیل ملز کی پروڈکشن صفر سے ساٹھ فیصد تک بڑھانے کا پلان بنایا۔ انہوں نے حکومت کو قائل کیا اور اٹھارہ ارب روپے ملز کی ورکنگ کنڈیشن کو بہتر بنانے میں، چند بقایاجات کو کلیئر کرنے اور بلز کی ادائیگی میں جھونک دیے۔ چند دن مل چل بھی پڑی مگر اچانک ایس ایس جی سی گیس سپلائی کاٹ کر اپنا چالیس ارب روپے کا بل سامنے لے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل بینک نے 67 ارب کے بقایاجات کا بل پیش کردیا۔ جس کے بعد اب تک پاکستان اسٹیل ملز مکمل طور پر بند ہے۔ بند ہونے کے باوجود یومیہ ستر لاکھ روپے کا نقصان قومی خزانے کو ہورہا ہے۔

سینیٹ کی کارروائی، مشاہد اللہ کی دبنگ تقریر کے دوران تالیاں بجانے والے لیگی و پیپلز ارکان اور حماد اظہر کا شرمندہ چہرہ دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جمہوریت بھی کتنی خوبصورت چیز ہے۔ آپ محض ایک بار حلقے کے عوام پر سرمایہ کاری کیجیے، تا عمر وہ آپ کو اقتدار تک پہنچاتے رہیں گے۔ آپ ناکامی کا ملبہ پچھلوں پر ڈالتے رہیے، آنے والوں پر چیختے چنگھاڑتے رہیے، عوام پاگل بنتے رہیں گے اور کام چلتا رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوجی جرنیل یا سیاسی حکمران، سٹیل ملز کی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 10 جون 2020 10:29
توصیف رضی ملک -اردو نیوز، کراچی


معاشی و اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ 2000 سے 2007 تک مشرف دورِ حکومت میں سٹیل ملز نے 20 ارب روپے منافع کمایا تھا مگر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد یہ منافع اچانک خسارے میں تبدیل ہوگیا۔ 2007 میں سٹیل ملز نے 2.37 ارب روپے کا منافع کمایا تھا، مگر آصف زرداری کی حکومت کے پہلے سال 2008 میں ہی سٹیل ملز 26 ارب روپے کے خسارے میں چلی گئی۔
فیکٹری کے سابق ملازمین کے بقول ضیاء الحق کے مارشل لا کا دور سٹیل ملز کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ سابق اسسٹنٹ مینیجر محمد قاسم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت اتنا کام ہوتا تھا کہ ہر شفٹ کی ٹیم کا آپس میں کام کا مقابلہ رہتا تھا اور ملازمین کو ٹارگٹ پورا کرنے پر بونس ملا کرتے تھے۔ ایسا معمول تھا کہ ٹارگٹ پورا کرنے والے ملازم بونس اور الاؤنس کی صورت میں ہر ماہ ڈیڑھ گنا تک تنخواہ لیتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ادارے میں 25 ہزار تک ملازمین کام کرتے تھے، سب کو بروقت تنخواہ کی ادائیگی ہوتی تھی وہ بھی بمعہ الاؤنس اور بونس، ’ایسا کبھی نہ ہوا کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔‘
پاکستان سٹیل ملز 90 کی دہائی کے اوائل تک اپنی مکمل صلاحیت پر کام کر رہی تھی اور 95 فیصد کی اوسط پیداوار اختیار کر کے سالانہ 10 لاکھ ٹن سٹیل کی پیداوار حاصل کر رہی تھی۔ محمد قاسم کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کی منافع بخش تاریخ میں خسارہ عثمان فاروقی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے شروع ہوا۔
عثمان فاروقی سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سلمان فاروقی کے بھائی ہیں اور وہ ان کے خلاف سٹیل ملز میں کرپشن کے مقدمات ثابت ہوئے جس کے بعد انہوں نے قومی احتساب بیورو سے پلی بارگین کرتے ہوئے 26 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروائے تھے۔
محمد قاسم نے سٹیل مل بند کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کے حکومتی فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سمجھ سے باہر ہے کہ سٹیل ملز خسارے میں کیسے چلی گئی، یہ تو وہ فیکٹری ہے جس کا فضلہ بھی نیلام ہوتا ہے۔‘
000_14g6d9.jpg

پرویز مشرف کے دورِ حکومت تک سٹیل مل منافع بخش ادارہ تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ 80 اور 90 کی دہائی میں فیکٹری اپنی مکمل صلاحیت پر کام کر رہی تھی اور الاؤنسس لگنے کی وجہ سے ملازمین بھی دلجمعی سے کام کرتے تھے۔ ’پرویز مشرف کے دورِ حکومت تک سٹیل ملز منافع بخش ادارہ تھا، تاہم عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سے سٹیل ملز کا برا دور شروع ہو گیا۔‘
سٹیل ملز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد قاسم کا کہنا تھا کہ ’فیکٹری کا اپنا ایگریکلچرل ایریا تھا جس میں پھل اور سبزیاں اگائی جاتی تھیں، اس کے علاوہ فضلے سے کھاد بنائی جاتی تھی جسے سٹیل ملز کے اپنے استعمال کے علاوہ فروخت بھی کیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی فیکٹری کے رقبے پر کیکڑ کے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جس کی لکڑی کا ہر سال کروڑوں روپے کا آکشن ہوا کرتا ہے۔‘
مشرف کے دور میں سٹیل ملز کی باگ ڈور پہلے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم اور میجر جنرل ریٹائرڈ محمد جاوید کے ہاتھ میں رہی۔ محمد قاسم بتاتے ہیں کہ جب مشرف دور کے تعینات کردہ چیئرمین نے چارج چھوڑا تو 20 ارب روپے کے منافع کے علاوہ اربوں روپے مالیت کا تیار اور خام مال بھی سٹیل ملز کی ملکیت تھا۔
’یہ میرے سامنے کی بات ہے، اس وقت اتنا تیار مال موجود تھا کہ کولڈ رولنگ ملز اور ہاٹ رولنگ ملز کے احاطے کے گراؤنڈ بھی بھرے ہوئے تھے اور تیار پراڈکٹس ان گراؤنڈز میں رکھی تھیں کیوں کہ ویئر ہاؤس بھر ہو چکے تھے، جبکہ اگلے سال کی پیداوارکے لیے خام مال بھی موجود تھا۔‘
یہی وہ موقع تھا جب 2005 میں پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس وقت بھی ملازمین نے احتجاج کیا اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سٹیل ملز کی نجکاری روکنے کے احکامات جاری کیے، اس فیصلے پر انہیں عوام کی خوب پذیرائی ملی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے مشرف نے افتخار چوہدری کو برطرف کردیا اور پھر بعد ازاں اسی فیصلے کے محرکات کے جواب میں عدلیہ بحالی تحریک چلی جس کے نتیجے میں مشرف کا زوال شروع ہوا اور ان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔
544d7eea3eaea.jpg

’پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سے سٹیل ملز مسلسل خسارے میں ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر فرخ سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ پرویز مشرف کی حکومت میں 2007 تک سٹیل ملز 20 ارب روپے منافع میں تھی تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سے آج تک پھر ایک سال بھی ایسا نہیں آیا کہ جب سٹیل ملز نے منافع کمایا ہو، یہ تب سے مسلسل خسارے میں ہے۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 100 ارب روپے خسارے میں رہی، نواز لیگ کے دور میں سٹیل ملز کو 140 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ تحریک انصاف کے حکومت کے دو سال میں ہی 55 ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں جہاں اور بہت سی باتیں تھیں، وہیں یہ بھی شامل تھا کہ اگر وہ برسر اقتدار آئی تو پاکستان سٹیل ملز کو بحال کرے گی۔
2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے 2019 میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ سٹیل ملز کی بحالی کے حوالے سے لائحہ عمل تیار ہو چکا ہے۔ تاہم گذشتہ ہفتے کابینہ نے فیکٹری کے 9،350 ملازمین کو یک بار رقوم کی ادائیگی کر کے نوکری سے برخاست کرنے کی منظوری دیتے ہوئے اس کے لیے 19.657 روپے روپے کی رقم بھی مختص کردی ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی جانب سے 2009-2008 سے اب تک سٹیل ملز کو پانچ مرتبہ بیل آؤٹ پیکج کی مد میں 58 ارب روپے دیے جا چکے ہیں۔ 2013 سے تو تمام تنخواہیں وفاقی حکومت نے ادا کی ہیں جب کہ 2015 میں سٹیل ملز انتظامیہ نے ملازمین کے لیے بنا کسی مؤثر پلان کے فیکٹری میں کام بند کروا دیا۔
سابق مینیجر محمد قاسم کے مطابق 2013-2012 کے بعد ریٹائر ہونے والے بیشتر ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پراویڈنٹ فنڈ اور دیگر رقوم کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنہیں رقوم کی ادائیگی نہیں ہوئی اور ان میں سے بعض کا انتقال بھی ہو چکا۔
screenshot_2020-06-09_at_9.16.25_pm.png

’اعلیٰ انتظامیہ کی نااہلی اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارہ تباہ ہوچکا ہے۔‘

فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے رہنما خالد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت نے ملازمین کو جو رقم دینے کا اعلان کیا ہے وہ کس مد میں ہوگی؟ ’کیا وہ بقایا تنخواہ ہوگی، پراویڈنٹ فنڈ ہوگا یا کوئی خصوصی پیکج۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ملازمین سٹیل ملز کا بند ہونا نہیں چاہتے بلکہ وہ تو کام کرنا چاہتے ہیں مگر اعلیٰ انتظامیہ کی نااہلی اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارہ تباہ ہوچکا ہے۔‘
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کابینہ کمیٹی میں یہ بات بھی زیرِ غور آئی کہ سٹیل ملز ملازمین کی اوسط عمر 46 سال ہے جبکہ اس وقت حاضر سروس ملازمین میں سے جو آدھے ہیں ان کی عمریں 51 سال سے 60 سال ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خالد خان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ارادہ سٹیل ملز کو بحال کرنے کا نہیں بلکہ اسے ختم کر کے اس کی جگہ کو حاصل کرنے کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری کی 18 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی حاصل کرنے کے لیے بہت سے ادارے اور قوتیں برسرِ پیکار ہیں۔
پاکستان سٹیل ملز 18،660 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس زمین کی مالیت 500 ارب سے زائد ہے اور یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے اس ادارے کو تباہ کیا گیا ہے تا کہ اس کی اراضی کو حاصل کیا جا سکے۔
پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سٹیل ملز ملازمین کو فارغ کیے جانے کے اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے سے اختلاف اور اس پر تنقید کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے بیان دیا ہے کہ سٹیل ملز کو سندھ حکومت کے حوالے کر دیا جائے، وہ اسے منافع بخش بنائیں گے، تاہم ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور میں ہی سٹیل ملز کا زوال شروع ہوا اور وہ خسارے میں چلی گئی۔
مزدور رہنما خالد خان نے بھی صوبائی وزیر کے بیان کو غیر سنجیدہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو اس سے پہلے مواقع ملے تھے سٹیل مل کا اختیار لینے کے مگر تب ایسا نہیں کیا گیا اور اب سیاسی بیان بازی کی جا رہی ہے۔
55e63e18c3688.jpg

صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سٹیل ملز کی اراضی کے حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے اور اس پراجیکٹ کے لیے دی گئی ہے، اگر اس پراجیکٹ کو ختم کیا جاتا ہے تو پھر اس زمین پر قانونی حق سندھ حکومت کا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی سرکاری اداروں کی زمین کے حصول کے لیے نجکاری کی گئی اور بعد ازاں اس پر ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر کی گئیں، حکومت سندھ سٹیل ملز کے معاملے میں ایسا نہیں ہونے دے گی۔
حکومتی رپورٹ کے مطابق سٹیل ملز سوئی سدرن گیس کمپنی کے 22 اربروپے کی قرض دار ہے جبکہ اس نے نیشنل بینک سے 36.42 ارب روپے ادھار لیے تھے جو کبھی واپس نہیں ہوئے۔
خالد خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے سٹیل ملز کو برسوں پہلے گیس کی فراہمی روک کر خود اس ادارے کا گلا گھونٹا ہے۔ ’فیکٹری کے ورکر تب بھی کام کرنا چاہتے تھے اور اب بھی، مگر ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا کہ سٹیل ملز کو ختم کرنا ہے۔‘
دوسری جانب نجکاری کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق پاک چائنہ انویسٹمنٹ کمیٹی اور بینک آف چائنہ سے حکومتی ٹیم کے مذاکرات جاری ہیں تا کہ اس فیکٹری کو بحال کیا جا سکے۔ تاہم خالد خان کا کہنا ہے کہ اگر سٹیل ملز کو بحال کرنا مقصد ہے تو پھر ملازمین کو فارغ کیوں کیا جا رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
محمد قاسم کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کی منافع بخش تاریخ میں خسارہ عثمان فاروقی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے شروع ہوا۔
عثمان فاروقی سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سلمان فاروقی کے بھائی ہیں اور وہ ان کے خلاف سٹیل ملز میں کرپشن کے مقدمات ثابت ہوئے جس کے بعد انہوں نے قومی احتساب بیورو سے پلی بارگین کرتے ہوئے 26 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروائے تھے۔
فوج مخالفت میں کرپٹ ترین جمہوری سیاست دانوں کا اندھا دفاع کرنے والے لبرلز اب کہاں جا کر چھپ گئے ہیں؟ کیا ملک کو صرف فوجی جرنیلوں نے تباہ کیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہی وہ موقع تھا جب 2005 میں پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس وقت بھی ملازمین نے احتجاج کیا اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سٹیل ملز کی نجکاری روکنے کے احکامات جاری کیے
۱۵ سال بعد پھر وہی ہونے جا رہا ہے۔ جو عدالت منافع میں چلنے والی اسٹیل ملز بیچنے کے خلاف تھی وہ ریکارڈ خسارے پر چلنے والے ملز کیونکر بکنے دے گی؟
 
Top