پاکستانی معیشت اور اکنامک ہٹ مین

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی معیشت اور اکنامک ہٹ مین
جاوید جی جمعرات 16 مئ 2019
1668172-economichitmenx-1557904490-339-640x480.jpg

ماضی میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسانے والی سیاسی جماعتیں بھی آج اکنامک ہٹ مین کی اصطلاح زور و شور سے استعمال کررہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کیا پاکستان اقتصادی غارت گروں (Economic Hitmen) کے شکنجے میں آ گیا ہے؟ اور کیا آئندہ سے ہمارے بجٹ کی ترجیحات ہماری نمائندہ حکومتوں کے بجائے ہم پر مسلط کردہ اکنامک ہٹ مین طے کریں گے؟ کیا روپے کی بے قدری، جسے سیانے لوگ کرنسی کا ڈی ویلیو ہونا کہتے ہیں، اور ڈالر مہنگا ہونے سے ملک عزیز میں ہونے والی معاشی سرگرمیاں ماند نہیں پڑیں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے آج کل ہر ذی شعور پاکستا نی کی سوچوں میں کھلبلی مچائی ہوئی ہے؛ اور ہر شخص یہ سوچ کر پریشان ہے کہ ابھی سے مہنگائی نے بے حال کر رکھا ہے تو مہنگائی کے ممکنہ و متوقع طوفان میں اپنے اور اہل و عیال کے جسم و جاں کا رشتہ کیسے برقرار رکھ پائے گا؟ دراصل ان تمام سوالات نے پچھلے کچھ عرصے میں ایک تسلسل سے ہونے والے واقعات سے جنم لیا ہے جو نہایت پریشان کن صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔

کیا واقعی سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو منصب وزارت سے اس لیے ہٹایا گیا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے یا پس پردہ عوامل کچھ اور ہیں جو بیان نہیں کیے جا سکتے؟ یہ ٹھیک ہے کہ ہر وزیر کو حق حاصل ہے کہ اپنی ٹیم اپنی مرضی سے منتخب کرے تاکہ مطلوبہ نتائج دے سکے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حال ہی میں استعفی دینے والے گورنر اسٹیٹ بینک مسٹر طارق باجوہ پر پی ٹی آئی، حکومت میں آنے سے پہلے مسلسل یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ انہوں نے ن لیگ کے وزیر خزانہ اسحق ڈار کے کہنے پر یا مبینہ طور پر انکی ملی بھگت سے، بیرون ملک پڑے ہوئے دو سو ملین ڈالر پاکستان واپس لانے کے راستے میں وہ نادیدہ رکاوٹیں ڈالیں جنہیں دور کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ ن لیگی دور حکومت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار پر لگایا جانے والا الزام کہ انہوں نے ملک کو قرضوں کی ایسی دلدل میں گھسیٹ لیا جہاں سے نکلنے کےلیے موجودہ حکومت کو بچت کی غیر معمولی بصیرت کے ساتھ ساتھ ایسے تمام اقدامات اٹھانے پڑیں گے جن سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ممکن ہو، شاید کسی حد تک ٹھیک ہے۔ لیکن اس الزام کی تکرار کرنے سے کہ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار سابق حکومتیں ہیں، کیا ہم اکنامک ہٹ مین کے نوکیلے پنجوں سے بچ سکیں گے؟

پی ٹی آئی کے صف اول کے لیڈر اور وزیراعظم عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے اسد عمر کو اچانک وزارت خزانہ سے ہٹانے کے عمل نے بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیا اور بہت سے باخبر ہونے کا دعوی کرنے والے حضرات نے اسد عمر کی رخصتی کو ان کی معیشت کے میدان میں ناقص کارکردگی سے جوڑنے کے بجائے اس نکتے سے منسلک کردیا کہ ان کی معزولی کا سبب دراصل آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نہ ماننا تھا۔ ان شبہات کو تقویت تب ملی جب نئے گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر ڈاکٹر رضا باقر کو تعینات کیا گیا۔ کیونکہ اس سے قبل ڈاکٹر رضا باقر آئی ایم ایف میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، لہذا ان کی تعیناتی کے بعد اپوزیشن بنچوں سے یہ فقرہ نہایت زور و شور سے کہا جانے لگا کہ موجودہ حکومت نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آئی ایم ایف، پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر کے ساتھ کیا تھا۔ اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کی تعیناتی کو آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ اکنامک ہٹ مین سے تشبیہ دی گئی۔

پی ٹی آئی کی حکومت پر اپوزیشن بنچوں سے لگنے والے تابڑ توڑ الزامات کا جواب دینا ویسے تو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے، تاہم ریکارڈ کی درستی کےلیے بتاتے چلیں کہ ن لیگ کے آخری دور حکومت میں جب آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے کم و بیش 34 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا تو اس وقت مسٹر اشرف وتھرا کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر لگایا گیا جو اس سے پہلے آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر تھے۔ انہوں نے تین سال تک (2014 تا 2017) بطور گورنر اسٹیٹ بینک اپنی ذمہ داریاں نباہیں مگر اس وقت کسی نے اتنا شور شرابہ نہیں کیا اور نہ ہی اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک کو اکنامک ہٹ مین سے تشبیہ دینے کا کسی کو خیال بھی آیا۔ تو آج اتنا شور شرابہ کیوں؟

کیا اس کی وجہ احتساب کا عمل ہے جس نے اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے؟ اور جس کی وجہ سے اپوزیشن ان معاملات پر بھی دور کی کوڑیاں لانے اور پھر ان کو حکومت کی نالائقی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، جن کو آج سے پہلے موجودہ اپوزیشن یعنی سابقہ حکومت کے لیڈروں نے کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان کی معیشت کے خد و خال اتنی بری طرح بگڑے ہوئے ہیں کہ اسے صحیح ہوتے ہوتے وقت لگے گا لیکن اس کی موجودہ حالت کے ذمہ داروں کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اکنامک ہٹ مین کی اصطلاح اتنے زور و شور سے دہرائی ہے کہ ہر دوسرا عامی یہ پوچھتا دکھائی دے رہا ہے کہ آخر یہ اکنامک ہٹ مین کیا بلا ہے اور اس سے کیا مراد لی جاتی ہے؟

2004 میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام ’’دی کنفیشنز آف این اکنامک ہٹ مین‘‘ یعنی ’’معاشی غارت گر کے اعترافات‘‘ تھا۔ اس کے مصنف کا نام جان پرکنز تھا۔ جان پرکنز کسی دور میں خود امریکا کی طرف سے اکنامک ہٹ مین رہ چکا تھا۔ اس نے 1980 میں یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر مختلف دھمکیوں اور ترغیبات کی وجہ سے اپنے ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا، حتی کہ نائن الیون کا واقعہ ہوگیا۔ ٹوئن ٹاورز میں پڑی، سوختہ لاشیں دیکھ کر جان پرکنز نے ٹھان لی کہ دنیا کو محفوظ بنانے کےلیے ضروری ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس کتاب کو لکھے تاکہ لوگ جان سکیں کہ دنیا کی تباہی میں اکنامک ہٹ مین کا کیا کردار ہے اور دنیا عالمی مالیاتی اداروں کی ان سازشوں سے بچ سکے جنہوں نے غریب ممالک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو مزید تباہی کی جانب دھکیلا۔ کتاب شائع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ بکی اور اس کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ اس کتاب میں جان پرکنز نے ان تمام جدید طریقوں کو جو امریکا، تیسری دنیا کے ممالک کو اپنا غلام بنانے کےلیے استعمال کرتا ہے، اس طرح طشت ازبام کیا کہ امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں اگر پہلے کسی کو کسی قسم کی کوئی خوش فہمی تھی، تو وہ ہوا ہوگئی۔ عام طور پر امریکی ریاست اس طرح کی کتابوں کو قابلِ توجہ یا قابلِ گرفت نہیں سمجھتی مگر جان پرکنز کے انکشافات اتنے ہوش رُبا تھے کہ امریکی محکمہ خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) کو اس پر وضاحت جاری کرنا پڑی۔

پرکنز کہتا ہے کہ جدید دور میں ترقی پذیر ممالک کو اپنے زیرنگیں رکھنے کےلیے امریکا اب پرانے طریقے ترک کرچکا ہے۔ اپنے مقصد کی بارآوری کےلیے امریکا نے جدید ہتھکنڈوں کا استعمال سیکھ لیا ہے۔ پرکنز کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو اپنے شکنجے میں لینے کےلیے امریکا کی پالیسی درج ذیل خطوط پر استوار ہے:

اول اول امریکا ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے سہانے خواب دکھا تا ہے۔ وہ ان ممالک کی قیادت کو قائل کرتا ہے کہ اگر ان کے ممالک میں بلند و بالا عمارات، اعلی درجے کی سڑکیں اور پل تعمیر ہوں گے تو جدید دنیا کا سرمایہ دار اپنا سرمایہ لیے ان کے ملک میں دوڑا چلا آئے گا، سرمایہ آنے سے نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور ان کا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامز ن ہوجائے گا۔ پرکنز کے مطابق، ترقی پذیر ممالک امریکا کا ڈالا ہوا دانہ چگ لیتے ہیں اور اتنے بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں کہ جن کی واپسی ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ پھر ان قرضوں کی ادائیگی کےلیے متاثرہ ملک مزید قرضے لیتا ہے اور اس دفعہ وہ ادارے جو قرض فراہم کر رہے ہوتے ہیں، یہ شرط بھی منظور کرواتے ہیں کہ قرض کو صحیح جگہ پر خرچ کرنے کےلیے متاثرہ ملک اس بات کا پابند ہو گا کہ ان ماہرین کی خدمات حاصل کرے جو قرض دینے والے اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ماہرین متاثرہ ملک سے تنخواہ لیتے ہیں مگر اپنے مالکان جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے اشارے پر نئے ٹیکس لگاتے ہیں، اس ملک کی کرنسی کو ڈی ویلیو کرتے ہیں جس سے مہنگائی کا طوفان آتا ہے اور متاثرہ ملک امریکی مفادات کا ساتھ دینے کےلیے مجبور ہوجاتا ہے۔

اگر کوئی ملک سخت جان نکلے اور اس کی قیادت عالمی مالیاتی اداروں کی چالوں کو بروقت بھانپ کر ان کا کوئی نہ کوئی توڑ کرلے اور ان اداروں کو آنکھیں دکھانے لگے تو پھر اس ملک میں انارکی پھیلانے کےلیے اس کی لیڈرشپ کو قتل کرنے کےلیے قاتل (جیکل) بھیجے جاتے ہیں۔ قتل کے شعبے میں مہارت رکھنے والے یہ افراد ملکی قیادت کو اس طرح ختم کرتے ہیں کہ ان کی موت بادی النظر میں حادثہ دکھائی دے اور کوئی بھی امریکا کی طرف انگلی نہ اٹھاسکے۔ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر جان پرکنز پاناما کے جنرل عمر اور ایکواڈور کے صدر جیمی رولڈوز کی حادثاتی اموات کا حوالہ دیتا ہے اور زور دے کر کہتا ہے کہ ان کی موت حادثاتی نہیں تھی بلکہ انہیں امریکا کی بات نہ ماننے کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔

تیسرا مرحلہ متعلقہ ملک میں خانہ جنگی کا ہوتا ہے۔ مہنگائی کے طوفان اور ملک کو متحد رکھنے والی قیادت کی عدم دستیابی کی وجہ سے تیسرا مرحلہ ممکن ہوپاتا ہے۔ پہلے خانہ جنگی کروائی جاتی ہے، پھر وہاں کے لوگوں کی مدد کےلیے امریکی فوجوں کو متاثرہ خطے میں اتارا جاتا ہے۔ اس طرح امریکا اس ملک کے رہے سہے وسائل پر بھی قابض ہوجاتا ہے۔

’’معاشی غارت گر کے اعترافات‘‘ نامی اس کتاب میں کیے جانے والے انکشافات اگرچہ ہوش ربا ہیں لیکن ہمیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ آنے والا بجٹ بہرحال عام آدمی کےلیے آسان نہیں ہوگا۔ خود وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ آنے والا وقت تھوڑا مشکل ہے مگر وہ پر امید ہیں کہ قوم اس مشکل وقت کو حوصلے کے ساتھ جھیل لے گی۔

کیا واقعی عام آدمی کی زندگی میں کبھی کوئی سکھ کا سانس آئے گا یا بجٹ میں لگنے والے نئے ٹیکس اس کے وجود سے زندگی کی رہی سہی رمق بھی چھین لیں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ البتہ ہمیں پر امید رہتے ہوئے خدا کے حضور دعا ضرور کرنی چاہیے کہ آنے والے دن پاکستان کےلیے اچھے ثابت ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top