پاکستانی طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی حراست سے فرار

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا فوجی حراست سے فرار؟
فروری 06, 2020
2F99A8F1-59CC-472C-B8BA-4096B1A2C7D6_w1080_h608_s.gif

احسان اللہ احسان، سابق ترجمان تحریک طالبان پاکستان، فائل فوٹو

پاکستان میں فوج کی تحویل میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر موجود ہے، جس میں وہ پاکستان فوج کی حراست سے فرار ہونے کا بتا رہے ہیں۔

احسان اللہ احسان کے فوج کی تحویل سے فرار کی اطلاع گزشتہ ماہ ایک بھارتی اخبار سنڈے گارجئین میں آئی تھی۔ لیکن، پاکستان فوج کی جانب سے اس خبر کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تھا۔

حالیہ آڈیو بیان سامنے آنے کے بعد اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا گیا۔ تاہم، وہاں سے اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

احسان اللہ احسان کے آڈیو بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی حراست سے 11 جنوری کو فرار ہو گئے تھے۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا اس حوالے سے احسان اللہ احسان نے کچھ نہیں بتایا۔

دو منٹ اور دو سیکنڈ کی اس آڈیو کا آغاز تلاوت سے ہوتا ہے اور وہ اپنا نام بتا کر کہتے ہیں کہ ان کا سابقہ تعلق تحریک طالبان اور جماعت الاحرار سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کیا تھا۔ لیکن، بقول ان کے، ’’پاکستان کے مکار خفیہ اداروں نے معاہدے کی روح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجھے میرے بچوں سمیت قید کر دیا تھا۔ میں نے تین سال تک معاہدے کی پاسداری کی اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 11 جنوری 2020 کو میں فوج کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے ساتھ کیا معاہدہ ہوا تھا۔ کس کی اجازت سے ہوا۔ نکات کیا تھے۔ کس شخصیت نے ہمیں امن کی ضمانت دی تھی۔ پاکستان میں کس حال میں رکھا گیا اور کیا کیا ہم سے کہلوایا گیا۔ پاکستانی ادارے ہم سے مزید کیا کروانا چاہتے تھے۔ ان کے منصوبے کیا ہیں۔ اور پاکستان فوج کے وہ منصوبے جن کا میں چشم دید گواہ ہوں، ان سے پردہ اٹھانا اب ضروری ہو گیا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’میں جلد ان تمام تفصیلات سے عوام کو آگاہ کروں گا۔ ساتھ ہی اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بھی آگاہ کروں گا‘‘۔

احسان اللہ احسان یہ تفصیلات کب فراہم کریں گے اس حوالے سے انہوں نے وقت کا کوئی تعین نہیں کیا اور جلد آگاہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

آواز احسان اللہ احسان کی لگتی ہے، سلیم صافی

اس آڈیو ٹیپ کے حوالے سے احسان اللہ احسان کا انٹرویو کرنے والے سینئر صحافی اور جیونیوز کے اینکر سلیم صافی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’کامن سینس کی بنیاد پر بظاہر یہ آواز احسان اللہ احسان کی ہی لگ رہی ہے۔ لیکن، تکنیکی بنیادوں پر کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔

سلیم صافی نے کہا کہ جب میں نے ان کا انٹرویو کیا تو آئی ایس پی آر والے مجھے ساتھ لے گئے تھے اور میں نے انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں زیادہ تر باتیں وہی تھیں جو احسان اللہ احسان نے بیان کی صورت میں جاری کی تھیں۔ پہلے یہ انٹرویو روک دیا گیا بعد ازاں عدالت کی مداخلت پر یہ انٹرویو نشر ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’احسان اللہ احسان فرار ہوا ہے یا نہیں اس بات کی تصدیق وہی کر سکتے ہیں جن کی وہ تحویل میں تھا۔ اس بارے میں بھارتی اخبار میں خبر بھی آئی اور ہم نے جب فوجی حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے ’نو کمنٹس‘ کا کہا۔ اگر وہ انہی کی تحویل میں ہوتا تو کہہ دیتے کہ خبر جھوٹی ہے۔ لیکن اس کی تردید نہیں کی گئی اور اب یہ آڈیو بیان سامنے آیا ہے جو بادی النظر میں احسان اللہ احسان کا ہی ہے‘‘۔

احسان اللہ احسان کون ہے؟

احسان اللہ احسان پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے علاقے مہمند ایجنسی کے رہنے والے ہیں۔ اپریل 2017 میں پاکستان فوج کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے اعلان کیا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ ان کا ایک ویڈیو بیان ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق، ان کا اصلی نام لیاقت علی ہے۔

اپنی ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں 2008 میں شمولیت اختیار کی۔ احسان اللہ احسان نے اپنی اعترافی ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے فنڈ مہیا کرتی ہے۔

احسان اللہ احسان سال 2013 تک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان رہا تھا۔ احسان اپنے تحریک طالبان پاکستان کے بعض سابق کمانڈر کے ساتھ اس گروپ سے الگ ہو گئے اور انھوں نے جماعت الاحرار کے نام سے اپنا نیا دھڑا بنا لیا تھا۔ احسان اللہ احسان کو اس نئے دھڑے کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے 70 سے 80 فی صد کمانڈر اور جنگجو جماعت الاحرار میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں سب سے معروف عمر خالد خراسانی تھا۔

احسان اللہ احسان کے خلاف عدالتی کارروائی

احسان اللہ احسان اگرچہ تین سال تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رہا۔ لیکن، اس کے خلاف کیا کیس بنائے گئے اور کیا کچھ کارروائی ہوئی اس حوالے سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی۔

احسان اللہ احسان قبائلی علاقوں میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں بھی نامزد ملزم تھا کیونکہ اس نے اس حملے ذمہ داری قبول کی تھی۔

حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کی وجہ سے پشاور ہائی کورٹ میں مئی 2017 میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں فضل خان ایڈوکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ احسان اللہ احسان نے آرمی پبلک سکول پر حملے سمیت متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس لیے اسے سخت سزا دی جائے۔ انھوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ احسان اللہ احسان کو رہا نہ کیا جائے اور مقدمہ فوجی عدالت میں سنا جائے۔ فضل خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جس طرح احسان اللہ احسان کو میڈیا پر پیش کیا گیا اس سے انھیں ایسا لگا کہ شاید حکومت احسان اللہ احسان کو رہا کرنے کا سوچ رہی ہے۔

فضل خان ایڈووکیٹ کے بیٹے عمر خان آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے اور 16 دسمبر 2014 کو شدت پسندوں کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

فضل خان نے درخواست کی کہ احسان اللہ احسان کو ایک مفکر کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا جس پر انھیں تشویش ہوئی اور انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ احسان اللہ احسان کو رہا نہ کیا جائے بلکہ پابند سلاسل رکھا جائے۔

یہ درخواست تقریباً آٹھ ماہ تک زیر سماعت رہی جس کے بعد 13دسمبر 2017 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں قائم بینچ نے حکومت پر پابندی عائد کر دی کہ وہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو رہا نہیں کر سکتی اور کہا تھا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف تحقیقات مکمل کی جائیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کو عدالتی حکم کے بغیر رہا نہ کیا جائے اور حکومت اس بارے میں تفصیلی فیصلے سے بھی آگاہ کرے۔ اس کیس میں حکومت کی طرف سے ایک سطری جواب دیا گیا تھا کہ ’’احسان اللہ احسان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں‘‘۔
 

جاسم محمد

محفلین
انہوں نے کہا کہ میں نے 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کیا تھا۔ لیکن، بقول ان کے، ’’پاکستان کے مکار خفیہ اداروں نے معاہدے کی روح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجھے میرے بچوں سمیت قید کر دیا تھا۔ میں نے تین سال تک معاہدے کی پاسداری کی اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 11 جنوری 2020 کو میں فوج کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا
 

جاسم محمد

محفلین
احسان اللہ احسان کے 'فرار' سے متعلق خبر صحیح ہے، وفاقی وزیرداخلہ
شکیل قرار | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 17 فروری 2020

وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے کالعدم تحریک طالبان اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تصدیق کردی۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا کہ احسان اللہ احسان کے بارے میں ‘جو خبر آرہی میں نے بھی پڑھی ہے اور وہ صحیح ہے’۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ 'جی پتہ چلا ہے تو کہہ رہے ہیں صحیح ہے، بہت کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں اچھی خبر ملے گی'۔

خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو ٹیپ رواں ماہ سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے 11 جنوری 2020 کو 'پاکستانی سیکیورٹی اتھارٹیز کی حراست سے’ فرار ہونے کا انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ترکی میں موجود ہیں جبکہ متعدد ذرائع کا ماننا ہے کہ دہشت گروپ کے سابق ترجمان افغانستان میں ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان دہشت گردوں کو پکڑنے اور نشانہ بنانے کے لیے ہونے والے ایک آپریشن کے دوران مبینہ طور پر فرار ہوگئے جبکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا تھا، لیکن اس سے قبل جب کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے ان سے معلومات حاصل کی گئی اور اسی طرح کے ایک آپریشن میں وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

آڈیو پیغام میں کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے نام سے مشہور لیاقت علی کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے سامنے 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت ہتھیار ڈال دیے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں نے اپنی طرف سے وعدوں کی پاسداری کی لیکن پاکستانی عہدیداروں پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو قید میں رکھا گیا۔

خیال رہے کہ اس آڈیو کی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہوئی تاہم انہوں نے دوران حراست سامنے آنے والی مشکلات اور فرار ہونے کے حوالے سے بتایا۔

بعد ازاں 11 فروری کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر ملک سے فرار ہونے پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی تھی اور 13 فروری کو شہدائے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کے لواحقین نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے رجوع کیا تھا.

چیف جسٹس کو اپنی درخواست میں سانحے میں شہید ہونے والے 15 طلبہ کے لواحقین نے کہا تھا کہ 'ہم لواحقین احسان اللہ احسان کے سرکاری تحویل میں تقریباً تین سال گزارنے کے بعد اہلخانہ سمیت مبینہ طور پر فرار ہونے کی خبر سن کر سخت صدمے میں ہیں۔'

درخواست میں کہا گیا تھا کہ سفاک دہشت گرد نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 147 طلبہ اور اساتذہ شہید ہوئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'دہشت گرد کے فرار ہونے سے متاثرہ خاندان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں، احسان اللہ احسان کیسے ملک سے جانے میں کامیاب ہوا؟ کیا وہ تحویل سے فرار ہوا یا اسے کچھ شرائط کے ساتھ رہا کیا گیا؟ آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اسے کس معاہدے کے تحت اسے تین سال تک زندہ رکھا گیا'.

درخواست میں چیف جسٹس سے درخواست کی گئی ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ذمہ دار لوگوں کو نوٹس جاری کر کے وضاحت لی جائے۔

شہید طلبہ میں سے ایک آجون خان کے والد نے درخواست جمع کرائی، ان کا کہنا تھا کہ لواحقین نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے ملاقات کی تھی اور ان سے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی درخواست بھی کی تھی۔

آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کے شہید طلبہ کے لواحقین نے پشاور پریس کلب کے باہر احتجاج کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے حراست سے مبینہ طور پر فرار ہونے کی وضاحت دی جائے۔

شہدائے اے پی ایس فورم کے صدر ایڈووکیٹ فضل خان کی قیادت میں مظاہرین پشاور پریس کلب کے باہر جمع ہوئے تھے اور دہشت گرد گروپ کے سابق ترجمان کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔

انہوں نے حکومت سے احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر فرار ہونے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے اور اس حوالے سے تفتیش شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
 
Top