پاکستانی روپے کی کہانی

پہلی بار شیر شاہ سوری نے 1545ءمیں روپیہ کا سکہ متعارف کروایا۔
اس کے بعد1840ءمیں ملکہ وکٹوریا کی تصویر والا سکہ متعارف ہوا۔
سلور کی کمی کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم میں کاغذ کا روپیہ متعارف کروایا گیا۔
پہلی بار آنہ 1940ءمیں متعارف کروایا گیا۔
ریاست حیدرآباد نے 1،2اور100روپے کے نوٹ دئیے۔
ریاست بہاولپور نے 1947ءمیں سونے کے سکے جاری کیے۔
آدھ روپیہ اور ایک روپیہ کے سکے 1948ءمیں بازار میں آئے۔
اس کے بعد 1962ءمیں ایک،دو،پانچ اور 10پیسے کے سکے جاری ہوئے۔
ایک روپے کے سکے دوبارہ1979ءمیں جاری ہوئے۔
دوپیسے کے سکے 1976میں بند کردئیے گئے۔
ایک پیسے کا سکہ 1979ءمیں روک دیا گیا۔
اس کے بعد 1996ءمیں5،10،25 اور50پیسے کے سکے بند کردئیے گئے۔
ایک روپے اور دو روپے کے سکے 1998ءمیں جاری ہوئے۔
پانچ روپے کا سکہ 2002ءمیں جاری کیاگیا۔
انڈین روپے کو پاکستانی حکومت کی مہر کے ساتھ 1947ءمیں جاری کیا گیا۔
2،5،10اور 100روپے کے نوٹ 1953ءمیں جاری کیے گئے۔
اس کے بعد 50روپے کانوٹ 1957ءمیں شائع ہوا۔
اس میں دو زبانیں یعنی بنگالی اور اردو تھیں۔
اس کے بعد 1964ءمیں 500روپے کا نوٹ جاری ہوا۔
پانچ سو روپے کے نوٹ کو 1986ءمیں دوبارہ جاری کیا گیا اور اس میں صرف اردو شامل تھی۔
دوروپے کانوٹ 1985ءمیں جاری ہوا۔
سٹیٹ بینک نے 2005ءمیں 20روپے کا نوٹ جاری کیا۔
پانچ روپے کا نوٹ بھی 2008ءمیں جاری کیا گیا۔
یہ نوٹ 2012ءمیں ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ سکے نے لے لی۔
اب تک کا سب سے بڑا نوٹ 5000روپے کا 2006ءمیں جاری ہوا۔
 

ابن توقیر

محفلین
روپے کی کہانی تو بڑی تحقیق کے ساتھ آپ نے پیش کی۔زبردست معلومات
آپ نے خود جمع کیں یا شیئر کیں؟
 
New-Rs-5-600x330_zpscujoxafy.jpg

یہ نیا آیا ہے مارکیٹ میں غالباً تھوڑا ہی فرق ہے پاکستان کے پانچ روپے میں اور کویت کے پانچ فلس میں
Regular_Coin_Set_5_fils_mf_zpsm7zmg8i8.jpg
 
دوروپے کانوٹ 1985ءمیں جاری ہوا۔
اس دو روپے کے نوٹ کے ساتھ ایک یاد جڑی ہے۔
ننھیالی گاؤں میں شادی تھی۔ انھی دنوں دو روپے کے نئے نوٹ جاری ہوئے تھے۔ شادی کے بعد رات گئے کسی نے ان نئے نوٹوں والے دو یا تین ہار لا کر اس کمرے میں لٹکا دئیے جہاں ہم بچے سو رہے تھے۔ صبح اٹھ کر ہم کزنز نے ہار دیکھے تو ان سے کچھ نوٹ اتارے اور ایک دکان پر گئے۔ دکان والے بابا جی نے دونوں ہی نوٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے آج تک یہ نوٹ نہیں دیکھے، تم پتا نہیں کہاں سے اٹھا لائے ہو، ان کا کچھ نہیں ملے گا اور یہ نقلی وغیرہ وغیرہ ہیں۔

خیر۔۔۔ واپس آئے، ہاروں سے سارے نوٹ اتارے، ان نوٹوں کی جہاز اور کشتیاں بنائیں اور نزدیکی چھپڑ پر پہنچ گئے۔ کوئی ساٹھ ستر روپے نذرِ چھپڑ کر چکے تھے تو کسی عزیز نے وہاں سے گزرتے ہوئے یہ سب کچھ دیکھا اور ہمیں بمعہ بچے کچھے مال مسروقہ کے پکڑ کر گاؤں لے آیا۔ ہم سب نے بہت صفائی پیش کی لیکن ندارد۔ اس ننھیالی گھر کے بچوں کی تو اچھی خاصی لتر پریڈ:beating: ہوئی، البتہ مجھ سمیت باہر سے آئے ہوئے کزنز کی زبانی کلامی عزت افزائی کو ہی مناسب جانا گیا۔ :p
 

فرقان احمد

محفلین
اس دو روپے کے نوٹ کے ساتھ ایک یاد جڑی ہے۔
ننھیالی گاؤں میں شادی تھی۔ انھی دنوں دو روپے کے نئے نوٹ جاری ہوئے تھے۔ شادی کے بعد رات گئے کسی نے ان نئے نوٹوں والے دو یا تین ہار لا کر اس کمرے میں لٹکا دئیے جہاں ہم بچے سو رہے تھے۔ صبح اٹھ کر ہم کزنز نے ہار دیکھے تو ان سے کچھ نوٹ اتارے اور ایک دکان پر گئے۔ دکان والے بابا جی نے دونوں ہی نوٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے آج تک یہ نوٹ نہیں دیکھے، تم پتا نہیں کہاں سے اٹھا لائے ہو، ان کا کچھ نہیں ملے گا اور یہ نقلی وغیرہ وغیرہ ہیں۔

خیر۔۔۔ واپس آئے، ہاروں سے سارے نوٹ اتارے، ان نوٹوں کی جہاز اور کشتیاں بنائیں اور نزدیکی چھپڑ پر پہنچ گئے۔ کوئی ساٹھ ستر روپے نذرِ چھپڑ کر چکے تھے تو کسی عزیز نے وہاں سے گزرتے ہوئے یہ سب کچھ دیکھا اور ہمیں بمعہ بچے کچھے مال مسروقہ کے پکڑ کر گاؤں لے آیا۔ ہم سب نے بہت صفائی پیش کی لیکن ندارد۔ اس ننھیالی گھر کے بچوں کی تو اچھی خاصی لتر پریڈ:beating: ہوئی، البتہ مجھ سمیت باہر سے آئے ہوئے کزنز کی زبانی کلامی عزت افزائی کو ہی مناسب جانا گیا۔ :p
:applause:
 
Top