ناصر علی مرزا
معطل
پاکستانی ذہن کی بندش
(بشکریہ:ڈان۔ تحریر: فیصل باری)
سب کچھ وہی کا وہی ہے‘ درس و تدریس اور نصاب بھی۔ میرے ایک دوست نے 1960ء کی دہائی میں پڑھائی جانے والی نصاب کی ایک کتاب جو کہ ’چوتھی جماعت‘ میں پڑھائی گئی تھی اور اس میں مشہور شخصیات کا ذکر تھا۔ پہلے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک باب سمیت چار ابواب تھے‘ دیگر باب گوتم بدھ‘ حضرت عیسی علیہ السلام اور سکھ مذہب کے روحانی پیشوا ’بابا گرو نانک‘ سے متعلق تھے۔ کتاب کے دیگر حصے میں بھارت کے مختلف حصوں کے سیاسی و دنیاوی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد پر ابواب شامل نصاب تھے۔ بہت سے مسلمان بادشاہوں اور رہنماؤں کے علاؤہ‘ اس میں اشوک کے ساتھ ساتھ راجہ رنجیت سنگھ کے مختصر حالات زندگی بھی درج تھے۔
تبدیلی صرف مواد میں نہیں آ رہی‘ جس طریقے سے ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں‘ وہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ اُو لیول کا کورس ’اُو لیول‘ سے پہلے ہی شروع کرا دیا جاتا ہے تاکہ مضامین سمجھنے یا ازبر کرنے کے لئے طالبعلموں کو زیادہ وقت مل سکے۔ ایک سال میں دو یا تین مضامین کے امتحان دلائے جاتے ہیں تاکہ بہتر گریڈ حاصل کیے جا سکیں۔ رٹا بازی‘ پچھلے پندرہ برس کے مقابلے میں زیادہ عام ہو گئی ہے‘ یہاں تک کہ نامور تعلیمی ادارے بھی ’رٹابازی‘ کی لعنت سے پاک نہیں۔
گائیڈز‘ نوٹس اور سمریوں پر انحصار ماضی کے مقابلے بڑھ گیا ہے۔ ماضی کے عظیم ادیبوں اور دانشوروں کے کلاسیکی اور اصل خیالات کیساتھ وابستگی مزید محدود ہے۔ پڑھائی مزید کم ہو گئی ہے اور یہ سکول اور یونیورسٹی دونوں پر لاگو ہے۔ میں اکثر اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ کتنے اخبار باقاعدگی سے پڑھتے ہیں‘ تو ایسے بہت ہی کم ہیں‘ بہت سوں کو تو دوستوں کی جانب سے ’فیس بک اپ ڈیٹس‘ کے ذریعے ہی بیرونی معلومات حاصل ہو پاتی ہیں۔ ایک وقت تھا‘ جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) جو اُس وقت واحد چینل ہوا کرتا تھا‘ باقاعدگی سے انگریزی زبان میں فلمیں اور سیریلز دکھایا کرتا تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ شام میں ایک کارٹون آتا تھا اور پرائم ٹائم میں کوئی سیریل یا مزاحیہ(کامیڈی) ڈرامہ وغیرہ آتا تھا۔ رات گئے کوئی مووی‘ ہفتے میں تین یا چار بار ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی۔
ان میں سے بہت سی فلمیں اور ڈرامے معیار اور پیغام کے لحاظ سے بہت ہی اچھے ہوتے تھے اور پاکستانی ناظرین کے لئے نہایت احتیاط سے انہیں منتخب کیا گیا تھا۔میں نے ان پروگراموں سے دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھا کہ لوگ کیسے رہتے ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں اور اخلاقی نظام کیا ہے۔ انگریزی زبان اور ادب سے میری محبت بھی ان ہی پروگراموں کی دین ہے۔ پی ٹی وی اب ایسا نہیں کرتا۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اور بھی بہت سے چینلز ہیں جو دنیا بھر کے پروگرامز اور فلمیں دکھاتے ہیں۔ ایسے مواد تک رسائی‘ ڈی وی ڈیز نے مزید آسان بنا دی ہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن چونکہ پاکستان ٹیلی ویژن اب ایسا نہیں کرتا اور اب بھی بہت سے لوگ پی ٹی وی ہی دیکھتے ہیں لہٰذا یہ نقصان ہی ہے۔ پھر انتخاب کا معاملہ مزید اہم اور نازک ہو جاتا ہے۔ بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کون کرتا ہے؟ کیا بچے خود انتخاب کر رہے ہیں؟ لیکن ضروری تو نہیں کہ بچے صحیح انتخاب کر رہے ہوں۔
ہو سکتا ہے وہ تعلیم پر تفریح کو ترجیح دے کر اس کا انتخاب کر لیں‘جس کے ذریعے وہ دیکھ اور سن زیادہ سکیں بہ نسبت محنت اور انگیجمنٹ کے۔ ہو سکتا وہ ایسے مواد کا انتخاب کر لیں جو زبان‘ تصویری خاکوں اوراقدار کے حساب سے ان کی عمر سے مناسبت نہ رکھتا ہو لیکن غیرمعیاری مواد کی موجودگی میں بچوں کو انتخاب کرنے کی آزادی دینا ضروری نہیں کہ اچھے نتائج کی حامل ہو۔معلومات حاصل کرنے کا ہمارا طریقہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ پڑھائی سے ہم‘ سننے اور دیکھنے کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ پڑھائی میں گہری وابستگی ضروری ہے۔ آپ ایک بار پڑھتے ہیں‘ دوبارہ پڑھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو جب چاہیں سہ بارہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ پڑھنے میں دھیان لگانا پڑتا ہے جبکہ سننے میں ہوتا یہ ہے کہ ہم کام کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی سن رہے ہوتے ہیں یعنی بیک وقت ایک سے زیادہ کام (ملٹی ٹاسکنگ) میں لگے ہوتے ہیں۔
دیکھنے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج ہم اپنی خبریں ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے حاصل کرتے ہیں ناکہ اخبارات سے۔دوسروں کے خیالات اور اعمال کے ساتھ ہماری وابستگی‘ ذاتی بات چیت یا پڑھنے کے بجائے کمپیوٹر‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے زیادہ ہے۔ یہ سب ہماری انٹریکشن کو مشکل بناتے ہیں۔ ہمارا توجہ کسی ایک جانب مرکوز کرنے کا دورانیہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ جب ہم پڑھتے بھی ہیں تو ایسا لگنے لگتا ہے جیسے کتابیں اور لمبے مضامین (آرٹیکل) نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو کسی بھی دلیل کا جتنا ممکن ہو مختصر خلاصہ چاہئے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو مختصر توجہ طلب دورانئے کے لئے آئیڈیل بھی ہیں اور مختصر توجہ طلب دورانئے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
ہم مختلف چینلوں کی سرفنگ کرتے رہتے ہیں اور ہوتا تو یہ ہے کہ ایک چینل دیکھتے ہوئے بھی ہمیں توجہ صرف اشتہاروں کے وقفے کے دوران ہی دینی ہوتی ہے ورنہ خبریں تو زیادہ تر ایک ٹکر (ticker) کی صورت میں ٹیلی ویژن سکرین کے نچلے حصے میں نشر ہو رہی ہوتی ہیں۔ جو کچھ یہاں لکھا گیا‘ وہ واضح طور پر عالمی مسائل ہیں لیکن وہ مقامی طور پر ہمیں متاثر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے طالب علموں‘ اپنے بچوں اور اپنے شہریوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب چیزیں لوگوں کی ذہنیت کو محدود کر رہی ہیں اور انہیں چھوٹا دانشور اور شہری بنا رہی ہیں اور اس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ بہتری اور اِس کے سدباب کی حکمت عملی نچلی سطح (مائیکرو لیول) تک بھی لاگو کرنا ہو گی۔
(بشکریہ:ڈان۔ تحریر: فیصل باری)
(بشکریہ:ڈان۔ تحریر: فیصل باری)
سب کچھ وہی کا وہی ہے‘ درس و تدریس اور نصاب بھی۔ میرے ایک دوست نے 1960ء کی دہائی میں پڑھائی جانے والی نصاب کی ایک کتاب جو کہ ’چوتھی جماعت‘ میں پڑھائی گئی تھی اور اس میں مشہور شخصیات کا ذکر تھا۔ پہلے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک باب سمیت چار ابواب تھے‘ دیگر باب گوتم بدھ‘ حضرت عیسی علیہ السلام اور سکھ مذہب کے روحانی پیشوا ’بابا گرو نانک‘ سے متعلق تھے۔ کتاب کے دیگر حصے میں بھارت کے مختلف حصوں کے سیاسی و دنیاوی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد پر ابواب شامل نصاب تھے۔ بہت سے مسلمان بادشاہوں اور رہنماؤں کے علاؤہ‘ اس میں اشوک کے ساتھ ساتھ راجہ رنجیت سنگھ کے مختصر حالات زندگی بھی درج تھے۔
تبدیلی صرف مواد میں نہیں آ رہی‘ جس طریقے سے ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں‘ وہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ اُو لیول کا کورس ’اُو لیول‘ سے پہلے ہی شروع کرا دیا جاتا ہے تاکہ مضامین سمجھنے یا ازبر کرنے کے لئے طالبعلموں کو زیادہ وقت مل سکے۔ ایک سال میں دو یا تین مضامین کے امتحان دلائے جاتے ہیں تاکہ بہتر گریڈ حاصل کیے جا سکیں۔ رٹا بازی‘ پچھلے پندرہ برس کے مقابلے میں زیادہ عام ہو گئی ہے‘ یہاں تک کہ نامور تعلیمی ادارے بھی ’رٹابازی‘ کی لعنت سے پاک نہیں۔
گائیڈز‘ نوٹس اور سمریوں پر انحصار ماضی کے مقابلے بڑھ گیا ہے۔ ماضی کے عظیم ادیبوں اور دانشوروں کے کلاسیکی اور اصل خیالات کیساتھ وابستگی مزید محدود ہے۔ پڑھائی مزید کم ہو گئی ہے اور یہ سکول اور یونیورسٹی دونوں پر لاگو ہے۔ میں اکثر اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ کتنے اخبار باقاعدگی سے پڑھتے ہیں‘ تو ایسے بہت ہی کم ہیں‘ بہت سوں کو تو دوستوں کی جانب سے ’فیس بک اپ ڈیٹس‘ کے ذریعے ہی بیرونی معلومات حاصل ہو پاتی ہیں۔ ایک وقت تھا‘ جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) جو اُس وقت واحد چینل ہوا کرتا تھا‘ باقاعدگی سے انگریزی زبان میں فلمیں اور سیریلز دکھایا کرتا تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ شام میں ایک کارٹون آتا تھا اور پرائم ٹائم میں کوئی سیریل یا مزاحیہ(کامیڈی) ڈرامہ وغیرہ آتا تھا۔ رات گئے کوئی مووی‘ ہفتے میں تین یا چار بار ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی۔
ان میں سے بہت سی فلمیں اور ڈرامے معیار اور پیغام کے لحاظ سے بہت ہی اچھے ہوتے تھے اور پاکستانی ناظرین کے لئے نہایت احتیاط سے انہیں منتخب کیا گیا تھا۔میں نے ان پروگراموں سے دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھا کہ لوگ کیسے رہتے ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں اور اخلاقی نظام کیا ہے۔ انگریزی زبان اور ادب سے میری محبت بھی ان ہی پروگراموں کی دین ہے۔ پی ٹی وی اب ایسا نہیں کرتا۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اور بھی بہت سے چینلز ہیں جو دنیا بھر کے پروگرامز اور فلمیں دکھاتے ہیں۔ ایسے مواد تک رسائی‘ ڈی وی ڈیز نے مزید آسان بنا دی ہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن چونکہ پاکستان ٹیلی ویژن اب ایسا نہیں کرتا اور اب بھی بہت سے لوگ پی ٹی وی ہی دیکھتے ہیں لہٰذا یہ نقصان ہی ہے۔ پھر انتخاب کا معاملہ مزید اہم اور نازک ہو جاتا ہے۔ بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کون کرتا ہے؟ کیا بچے خود انتخاب کر رہے ہیں؟ لیکن ضروری تو نہیں کہ بچے صحیح انتخاب کر رہے ہوں۔
ہو سکتا ہے وہ تعلیم پر تفریح کو ترجیح دے کر اس کا انتخاب کر لیں‘جس کے ذریعے وہ دیکھ اور سن زیادہ سکیں بہ نسبت محنت اور انگیجمنٹ کے۔ ہو سکتا وہ ایسے مواد کا انتخاب کر لیں جو زبان‘ تصویری خاکوں اوراقدار کے حساب سے ان کی عمر سے مناسبت نہ رکھتا ہو لیکن غیرمعیاری مواد کی موجودگی میں بچوں کو انتخاب کرنے کی آزادی دینا ضروری نہیں کہ اچھے نتائج کی حامل ہو۔معلومات حاصل کرنے کا ہمارا طریقہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ پڑھائی سے ہم‘ سننے اور دیکھنے کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ پڑھائی میں گہری وابستگی ضروری ہے۔ آپ ایک بار پڑھتے ہیں‘ دوبارہ پڑھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو جب چاہیں سہ بارہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ پڑھنے میں دھیان لگانا پڑتا ہے جبکہ سننے میں ہوتا یہ ہے کہ ہم کام کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی سن رہے ہوتے ہیں یعنی بیک وقت ایک سے زیادہ کام (ملٹی ٹاسکنگ) میں لگے ہوتے ہیں۔
دیکھنے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج ہم اپنی خبریں ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے حاصل کرتے ہیں ناکہ اخبارات سے۔دوسروں کے خیالات اور اعمال کے ساتھ ہماری وابستگی‘ ذاتی بات چیت یا پڑھنے کے بجائے کمپیوٹر‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے زیادہ ہے۔ یہ سب ہماری انٹریکشن کو مشکل بناتے ہیں۔ ہمارا توجہ کسی ایک جانب مرکوز کرنے کا دورانیہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ جب ہم پڑھتے بھی ہیں تو ایسا لگنے لگتا ہے جیسے کتابیں اور لمبے مضامین (آرٹیکل) نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو کسی بھی دلیل کا جتنا ممکن ہو مختصر خلاصہ چاہئے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو مختصر توجہ طلب دورانئے کے لئے آئیڈیل بھی ہیں اور مختصر توجہ طلب دورانئے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
ہم مختلف چینلوں کی سرفنگ کرتے رہتے ہیں اور ہوتا تو یہ ہے کہ ایک چینل دیکھتے ہوئے بھی ہمیں توجہ صرف اشتہاروں کے وقفے کے دوران ہی دینی ہوتی ہے ورنہ خبریں تو زیادہ تر ایک ٹکر (ticker) کی صورت میں ٹیلی ویژن سکرین کے نچلے حصے میں نشر ہو رہی ہوتی ہیں۔ جو کچھ یہاں لکھا گیا‘ وہ واضح طور پر عالمی مسائل ہیں لیکن وہ مقامی طور پر ہمیں متاثر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے طالب علموں‘ اپنے بچوں اور اپنے شہریوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب چیزیں لوگوں کی ذہنیت کو محدود کر رہی ہیں اور انہیں چھوٹا دانشور اور شہری بنا رہی ہیں اور اس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ بہتری اور اِس کے سدباب کی حکمت عملی نچلی سطح (مائیکرو لیول) تک بھی لاگو کرنا ہو گی۔
(بشکریہ:ڈان۔ تحریر: فیصل باری)