پانی، پیٹرول اور گیس کا متبادل

آج کل گیس و تیل کا بحران عروج پر ہے جس کے سبب سی این جی اسٹیشنز میں ہفتے میں دو سے تین دن لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جبکہ ایندھن کی کمی کے باعث پٹرول پمپس پر بھی پٹرول کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی این جی اسٹیشنز اور پٹرول پمپس پر گاڑیوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ اب تو سی این جی اور پٹرول کی قیمتوں کو بھی آگ لگ گئی ہے۔ مستقبل میںسی این جی لوڈشیڈنگ کی لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرنے اور سستی توانائی سے گاڑی چلانے کے لئے گیس یا پٹرول کی کمی کو دور کرنے یا پھر کوئی دوسرا متبادل استعمال میں لانے کی ضروری تھی۔ ایسے میں لاہور کے شہری ڈاکٹر غلام سرور نے پانی سے گاڑی چلاکر لوگوں میں سی این جی اور پٹرول کی لوڈشیڈنگ سے بچنے کی ایک امید پیدا کر دی ہے۔ ڈاکٹر سرور کی تیار کردہ واٹر کٹ ٹیکنولوجی کی بدولت گاڑی صرف ڈیڑھ لیٹر پانی سے 40 ہزار کلو میٹر کا فاصلہ 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔​
trans.gif
ڈاکٹر سرور نے اپنے جہلم (سرائے عالم گیر) میں واقع قائم نیشنل سائنٹفک اینڈ ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر میں پانی سے چلنے والی دو گاڑی بنائیں ہیں اور یہ دونوں گاڑیاں 60 فیصد فیول کی بچت کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر سرور نے اس مقصد کے لئے ڈاکٹر سرور نے گاڑی بھی خود ڈیزائن کی ہے جسے ٹویوٹا کرولا موڈل کی کار کو درمیان سے کاٹ کر لی لیموزین کی شکل دی گئی ہے جبکہ اس کے انجن کی طاقت دو ہزار سی سی کے بجائے تین ہزار سی سی کر دی گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سی این جی کے برعکس پانی سے گاڑی چلاتے وقت گاڑی کے انجن کی پاور کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ پیٹرولیم فیول سے حاصل ہونے والی طاقت 19 فیصد جبکہ پانی سے حاصل ہونیو الی طاقت 140 فیصد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو سی این جی کی طرح گاڑی کے انجن پر دباﺅ پڑتا ہے اور نہ گاڑی کا انجن جلد خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنولوجی ماحول دوست بھی ہے کیونکہ گاڑی چلتے وقت کاربن کے بجائے آکسیجن کی بھاری مقدار خارج کرتی ہے یعنی گاڑی جتنی زیادہ چلے گی ماحول میں فضائی آلودگی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی۔​
ڈاکٹر سرور کے مطابق ان کی واٹر کٹ کسی بھی عام گاڑی میں باآسانی لگائی جاسکتی ہے اور ابتدائی طور پر تیار کی جانے والی کٹ کو اگر مقامی طور پر کمرشل بنیادوں پر تیار کیاجائے تو اس مکمل کٹ کی قیمت بمشکل تیس سے چالیس ہزار روپے کے درمیان ہوگی۔ ڈاکٹر سرور نے برطانیہ کی مختلف جامعات سے اکنامی، انجینئرنگ اور ٹرانسپورٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اوروہ ملک کے توانائی بحران کو حل کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور پانی سے چلنے والی گاڑی کی تیاری بھی اسی مقصد کی اہم کڑی ہے۔ ڈاکٹر سرور کے مطابق پانی سے گاڑی کے انجن کو چلانے کے لئے ایک بیٹری کے ذریعے الیکٹرولائٹ کی مدد سے پانی کو توڑاجاتا ہے اور اس میں موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن کو علیحدہ کردیاجاتا ہے۔ پانچ سے چھ کلو گرام وزنی کٹ کے ساتھ منسلک پلاسٹک کی ٹینکی میں صرف دو لیٹر پانی ڈالا جاتا ہے جو ایک ہزار کلو میٹر کے بعد بھی حیرت انگیز طور پرصرف ایک چائے کی پیالی کی مقدار کم ہوتا ہے۔​
ڈاکٹر سرور اپنے قائم کردہ ادارے قائم نیشنل سائنٹفک اینڈ ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر میں بلامعاوضہ قوم کے بچوں اور بچیوں کو سائنسی فنون سکھا رہے ہیں۔ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں سی این جی اور پٹرول کی کمی کے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے گاڑیاں کی پانی سے چلنے والی ٹیکنولوجی اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔​
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف سی این جی پر 35 لاکھ کے قریب گاڑیاں چل رہی ہیں جبکہ پٹرول اور ڈیزل پر گاڑیاں الگ چل رہی ہیں۔ آج سی این جی یا پٹرول نہیں ہے مگر ہم پانی ڈال کر گاڑی چلا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم سی این جی کی طرح تمام گاڑیوں کو پانی پر منتقل کر دیں ، یوں تو ہم پانی کے بحران میں مبتلا ہو جائیں گے۔ پانی کو صرف گھریلو سطح پر استعمال ہونے والی گاڑیوں کے لئے مخصوص کر دیا جائے اور دیگر کمرشل گاڑیوں میں واٹر کٹس پر پابندی لگا دی جائے۔ اس طرح نہ تو سی این جی یا پٹرول کے شعبے پر بوجھ بڑے گا اور نہ پانی کے مسائل ہوں گے۔​
ماہرین کا خیال ہے کہ پٹرولیم شعبے سے تعلق رکھنے والے کاروباری لوگ پانی سے چلنے والی ٹیکنولوجی کو ملک میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس طرح ان کے کاروباری منافع میں کمی آجائے گی جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی ہوگی۔ 1960ء میں جب امریکہ کے کچھ سائنسدانوں نے گاڑی کو پانی پر چلاتے ہوئے فیول کی تین فیصد تک بچت کرڈالی تو آئل کی بڑی کمپنیز کی جانب سے اس نظریے کی مخالفت کی گئی اور اس کو خطرناک قراردیا گیا کیونکہ بقول ان کے اس کٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بم تیارکئے جاسکتے ہیں۔ یہ سائنسدان جب اپنی ریسرچ سے باز نہ آئے تو اس ریسرچ پرکام کرنے والے 25 سائنسدانوں کے ایک گروپ کو خاموشی سے موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا۔ اس تمام واقع کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی اور ملکی دونوں سطح پر پانی سے چلنے والی ٹیکنولوجی کا خیرمقدم ہونا ناممکن ہے۔ لیکن اگر عوام چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے، یہ ٹیکنولوجی چاہے عام نہ ہو پر ڈاکٹر سرور جیسے لوگوں سے تربیت لے کر خود بنائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنا بھلا سوچنا ہے ، ملک میں گیس اور تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں 10 سے 12 روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔ اگر یہی حالات رہے تو لوگ گاڑیوں کو چھوڑ کر پیدل چلنے لگیں گے۔​
ڈاکٹر سرور کی بنائی گئی پانی سے گاڑی چلانے کی ٹیکنولوجی سستی ٹیکنولوجی ہے اور اسے ملکی سطح پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔​
تحریر: سید محمد عابد
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ عابد بھائی شریک محفل کرنے کا۔

لو جی اب پانی بھی عنقا ہونے والا ہے یا پھر پیٹرول کی قیمت کی طرح اس کی بھی قیمت چند ماہ میں اتنی ہی اوپر چلی جائے گی۔
 
عابد بھائی یہ خبر اب تھوڑی سی پرانی ہو چکی ہے۔میں نے مارننگ ود فرح میں ڈاکٹر صاحب کا تفصیلی انٹرویو سنا تھا ملاحظہ ہو۔
ویسے باتیں کرنے کے انداز سے ڈاکٹر صاحب خالص پینڈو لگتے ہیں(انٹرویو دیکھنے کے بعد بتائیے گا)
 
جی ہاں یہ معلومات تھوڑی پرانی ہو گئی ہیں مگر میرا مضمون لکھنے کا مقصد صرف ڈاکٹر صاحب یا ان کی ٹیکنولوجی کو متعارف کروانا نہیں تھا بلکہ میں لوگوں کو پانی سے گاڑی کو چلانی کی طرف مائل کرنا چاہتا تھا تاکہ لوگ سی این جی اور پٹرول کے مسائل سے آزاد ہو سکیں۔۔۔۔۔
 

بلال

محفلین
ویسے باتیں کرنے کے انداز سے ڈاکٹر صاحب خالص پینڈو لگتے ہیں(انٹرویو دیکھنے کے بعد بتائیے گا)
اجی پینڈو لگیں کیوں نہیں، آخر پینڈو پینڈو ہی لگے گا۔ آپس کی بات ہے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا زیادہ حصہ انگلینڈ میں گذرا ہے اور اب بھی ان کے بیوی بچے انگلینڈ ہی ہوتے ہیں۔

یوں تو ڈاکٹر صاحب مشرف دور میں ہی کام کاج شروع کر چکے تھے اور کافی شہرت بھی حاصل کر چکے تھے، لیکن مجھے آج صبح ہی اس دھاگے سے ڈاکٹر صاحب کے متعلق پتہ چلا اور پھر ابھی ابھی ان سے بالمشافہ ملاقات کر کے واپس گھر پہنچا ہوں۔ گو کہ فیول سیل سے انجن چلانا ڈاکٹر غلام سرور چوہدری کا آئیڈیا نہیں بس انہوں نے فیول سیل کو استعمال کرتے ہوئے ایندھن کی کچھ بچت کی ہے۔ ویسے باتوں سے اور ہلکے پھلکے انٹرویو سے میں نے جو اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق ڈاکٹر غلام سرور بہت ہی زبردست اور انقلابی قسم کے انسان ہیں اور اگر عام لوگوں کی نظر سے دیکھیں تو سیدھا سیدھا پاگل انسان ہے۔ اپنے ملک کے لئے کچھ کرنے کی خاطر انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور اپنی جیب سے کئی کروڑ روپیہ لگا (ضائع کر) چکے ہیں۔ ان کے اس فیول سیل والے کام سے زیادہ مجھے اس بوڑھے انسان کی ہمت، حوصلے اور لگن نے متاثر کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے متعلق لکھنے کو بہت سی باتیں ہیں لیکن وہ پھر کسی تحریر میں تفصیل سے لکھتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بلال بھائی بہت شکریہ یہ سب شریک محفل کرنے کا۔

ڈاکٹر صاحب کے متعلق ضرور لکھیے گا۔ انتظار رہے گا۔
 
اجی پینڈو لگیں کیوں نہیں، آخر پینڈو پینڈو ہی لگے گا۔ آپس کی بات ہے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا زیادہ حصہ انگلینڈ میں گذرا ہے اور اب بھی ان کے بیوی بچے انگلینڈ ہی ہوتے ہیں۔

یوں تو ڈاکٹر صاحب مشرف دور میں ہی کام کاج شروع کر چکے تھے اور کافی شہرت بھی حاصل کر چکے تھے، لیکن مجھے آج صبح ہی اس دھاگے سے ڈاکٹر صاحب کے متعلق پتہ چلا اور پھر ابھی ابھی ان سے بالمشافہ ملاقات کر کے واپس گھر پہنچا ہوں۔ گو کہ فیول سیل سے انجن چلانا ڈاکٹر غلام سرور چوہدری کا آئیڈیا نہیں بس انہوں نے فیول سیل کو استعمال کرتے ہوئے ایندھن کی کچھ بچت کی ہے۔ ویسے باتوں سے اور ہلکے پھلکے انٹرویو سے میں نے جو اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق ڈاکٹر غلام سرور بہت ہی زبردست اور انقلابی قسم کے انسان ہیں اور اگر عام لوگوں کی نظر سے دیکھیں تو سیدھا سیدھا پاگل انسان ہے۔ اپنے ملک کے لئے کچھ کرنے کی خاطر انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور اپنی جیب سے کئی کروڑ روپیہ لگا (ضائع کر) چکے ہیں۔ ان کے اس فیول سیل والے کام سے زیادہ مجھے اس بوڑھے انسان کی ہمت، حوصلے اور لگن نے متاثر کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے متعلق لکھنے کو بہت سی باتیں ہیں لیکن وہ پھر کسی تحریر میں تفصیل سے لکھتا ہوں۔
ضرور لکھیے گا تا کہ ہماری بھی انفارمیشن اپڈیٹ ہو۔
میں بے صبری سے آپکی پوسٹ کا انتطار کر رہا ہوں
 
Top