پارکنگ پلازہ کی خاطر، بلوچستان میں کتابوں کا قتلِ عام

جاسم محمد

محفلین
پارکنگ پلازہ کی خاطر، بلوچستان میں کتابوں کا قتلِ عام
ببرک کارمل جمالی منگل 16 اپريل 2019
1632555-kitabqatleaamx-1555389132-903-640x480.jpg

لگتا ہے ہماری قوم کو کتابوں کی نہیں، پارکنگ پلازوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

بلوچستان میں کتب خانوں کا قتل عام گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ ہر سال بلوچستان میں سیکڑوں کتب خانے بند ہوکر مختلف دکانوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کی سر زمین پر کئی رسالہ جات بھی اسی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ حتی کہ اسی وجہ سے لوگوں نے کتابوں کی دکانوں پر جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ کوئٹہ کے باسیوں کے سامنے میزان چوک پر بیس کے قریب بک اسٹالز کی دکانیں مسمار کرکے ان کی جگہ پر پارکنگ پلازہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کتاب دشمنی پر حکومت وقت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مقامی ان پڑھ ڈرائیور کے بقول، ہمیں کتابیں نہیں پارکنگ کےلیے جگہ چاہیے۔

بلوچستان کے سب سے بڑے شہر کوئٹہ کے میزان چوک پر کچھ سال پہلے بیس کے قریب بک اسٹالز ہوتے تھے۔ آج کل انہیں گرا کر پارکنگ پلازہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پارکنگ پلازہ سے پہلے یہاں پر ایک مچھلی بازار ہوتا تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی قائم ہونے کے بعد یہاں پر بیس کے لگ بھگ بک اسٹالز لگائے گئے جو دن رات طلبہ کی تعلیم کےلیے معاون ثابت ہو رہے تھے۔ اس جگہ سے طلبہ و طالبات کتابیں اور اخبارات خریدنے میں مشغول رہتے تھے۔ بہترین کتابیں اور پورے ملک کے رسالہ جات اور اخبارات اس جگہ پر آرام سے مل جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان اسٹالز پر پرانی کتابیں اور پرانے اخبارات بھی مل جاتے تھے۔

kitab-qatl-e-aam-03-1555388985.jpg


مگر اب کتابوں کی جگہ لمبی لمبی کابلی گاڑیوں نے لے لی ہے جن کے چمکتے شیشے آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان شیشوں سے پہلے کتابیں مستقبل کے معمار بنایا کرتی تھیں۔ اب اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ آج کل اس جگہ پر پولیس کا انتباہی بورڈ آویزاں ہے کہ تیز رفتاری کا انجام موت۔ کاش یہ بورڈ بھی کوئی لگادے: ’’کتابوں سے غفلت کا انجام، قوم کی سست رفتار موت۔‘‘ کاش کراچی میں کتابوں کے اتور بازار کی طرح یہاں بھی ایک دن کتابوں کا اتوار بازار قائم کیا جائے تو بہترین عمل ہوگا۔

دنیا کی عظیم ترین شخصیات نے کئی جنگیں ادب اور ثقافت کےلیے لڑی تھی، جن میں ایک برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل بھی تھے۔ چرچل کے زمانے میں دوسری جنگ جاری تھی کہ دفاعی بجٹ کےلیے مختص رقم ختم ہوگئی۔ ان کے وزیر دفاع نے آ کر چرچل سے کہا کہ جنگ کےلیے مختص کردہ رقم ختم ہوچکی ہے، اگر آپ حکم دیں تو ہم ادب اور کلچر کے پیسے جنگ میں لگا دیں؟

چرچل نے کہا: ’’میں یہ جنگ اسی ادب اور کلچر کےلیے لڑ رہا ہوں، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ادب اور کلچر کا بجٹ جنگ پر لگادیا جائے۔‘‘ چرچل کا پیغام وزیر دفاع نے سپاہیوں تک پہنچایا تو سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ چرچل کے سپاہیوں نے لڑائی ازسرنو ادب اور کلچر کےلیے شروع کردی۔ ادب اور کلچر کی جنگ شکست کے بجائے جیت میں بدل گئی۔ چرچل نے اس دن کے بعد سیکڑوں کتب خانے بنائے اور ثقافت کے پروگرام ملک میں کروائے جو آج تک جاری ہیں۔

ہمارے پیارے ملک پاکستان میں ہر ایم پی اے اور ہر ایم این اے کو ہر سال 20 لاکھ روپے ادب اور کلچر کےلیے ملتے ہیں۔ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا؟ اگر یہ پیسہ ادب اور تقافت پر خرچ ہوتا تو دنیا میں ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے۔ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہزاروں لائبریریاں موجود ہیں جہاں مطالعے کےلیے ہر روز صبح سویرے بچے، نوجوان اور بوڑھے آتے ہیں؛ اور ان ہی کتابوں میں اپنا حال اور ماضی تلاش کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں کتاب کلچر ترقی کررہا ہے جبکہ ہمارے ملک میں کتاب کلچر زوال پذیر ہوتا جارہا ہے۔

kitab-qatl-e-aam-02-1555388982.jpg


بلوچستان کے سرداروں نے ہمیشہ کتب بینی کی مخالفت کی ہے۔ ان میں ایسے بلوچ سردار بھی شامل ہیں جو خود تو کتب بینی کے شوقین تھے لیکن اپنے علاقے میں رہنے والوں کی تعلیم اور ان میں مطالعے کی عادت پیدا کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

بلوچستان میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں اذان دینے کے بعد کہا جاتا ہے کہ بیٹا! ہم بہت غریب ہیں کیونکہ ہمارے پاس آپ کے پڑھنے کےلیے کتب خانے نہیں۔ جب وہ بچہ بلوچستان کی سر زمین پر دو سال کی عمر میں گھومنے لگتا ہے تو ماں پہلا سبق سوکھی روٹی کھلاتے ہوئے یہ دیتی ہے کہ پڑھ بیٹا! ہم بہت غریب ہیں کیونکہ ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر آپ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کےلیے اچھی کتابیں اور کتب خانے نہیں۔ جب وہی بچہ چار سال کی عمر میں پہلی بار قرآن مجید پڑھنے مسجد جاتا ہے تو مولوی صاحب کہتے ہیں: بیٹا پڑھ! ہم غریب دیس کے باسی ہیں۔ جب بچہ چھ سال کی عمر میں پرائمری اسکول جاتا ہے تو استاد ڈنڈی مار کر اس بچے سے کہتا ہے: بیٹھ بیٹا ٹاٹ پر! ہم امیر دیس کے بہت غریب لوگ ہیں۔ جب وہی بچہ بلوچستان کی سرزمین پر مڈل اسکول میں جاتا ہے تو استاد ٹوٹی ہوئی بنچ پر بٹھا کر کہتا ہے: پڑھ بیٹا! ہمارے پاس پڑھنے کےلیے کتابیں نہیں۔

جب بچہ ہائی اسکول میں پہنچتا ہے تو استاد ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے بٹھا کر کہتا ہے: پڑھ! ہم غریب اور سچے دل والے ہیں؛ اور ہمارے پاس پڑھنے کےلیے نہ کتابیں ہیں نہ لائبریری ہے اور نہ ہی کتابوں کی کوئی دکان ہے۔ جب بچہ کچھ اور بڑا ہوکر کالج کی دیوار عبور کرتا ہے تو لیکچرار بنچ پر بٹھا کر آہستہ سے کہتا ہے: پڑھ! ہم غریب ہیں۔ جب وہی بچہ بلوچستان کی واحد یونیورسٹی میں جاتا ہے تو اس کو پروفیسر خوبصورت خواب دکھا کر پھر آہستہ کہتا ہے: پڑھ بیٹا! ہم امیر صوبے کےغریب طالب علم ہیں اور ہمارے پاس لائبریری تک نہیں۔ وہی بچہ ہاسٹل میں روٹی کے گرد گھومتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے: سن! ہم بہت غریب لوگ ہیں۔

وہی بچہ جب مرجاتا ہے تو قبر میں اتارتے ہوئے لوگ کہتے ہیں: ہم غریب ہیں، مگر ہم پسماندہ نہیں۔ ہم پر غربت کی مہر لگائی گئی۔ ہم غریب نہیں، غریب تو وہ ذہن ہیں جو ہمیں غریب سمجھتے ہیں۔ ہم بڑے صوبے کے ساتھ بڑے دل والے غریب ہیں۔

ہمیں پڑھنے کےلیے کتابیں چاہئیں، ہمیں ہتھیاروں سے نفرت ہے مگر یہاں پر کتاب سے زیادہ ہتھیار کو طاقتور بنایا جارہا ہے جو افسوسناک عمل ہے۔ اگر بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ کتاب بینی کا شوق پیدا کیا جائے تو ہتھیاروں کا مکرو دھندہ خودبخود بند ہوجائے گا۔

kitab-qatl-e-aam-01-1555388981.jpg


اے حکمرانو! اس ملک پر رحم کرو! گورنر ہاؤس کو لائبریری میں یا یونیورسٹی میں بدلنے سے پہلے جن جن جگہوں پر کتابوں کے بازار ہیں، انہیں نہ گراؤ! ان کی جگہ پارکنگ پلازہ نہ بناؤ کہ چمکتی گاڑیوں سے کہیں بہتر چمکتی کتابیں ہیں۔

ہم بلوچستان کے باسی، وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان، صدر جناب ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال صاحب اور گورنر بلوچستان جناب یاسین زئی صاحب سے بذریعہ بلاگ و سوشل میڈیا درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں پارکنگ پلازہ نہیں چاہیے، ہمیں کتابیں چاہئیں جو ہمارے مستقبل کو روشن کریں۔ خدارا حکومت اس بات کا نوٹس جلد از جلد لے تاکہ بلوچستان میں کتابوں قتل عام بند کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top