پارلیمان وزیراعظم کے نئے ویژن کو آئینی تحفظ فراہم کرے

جاسم محمد

محفلین
پارلیمان وزیراعظم کے نئے ویژن کو آئینی تحفظ فراہم کرے
سلمان نثار شیخ جمعرات 6 فروری 2020
1975925-wazerazamkavision-1580736982-515-640x480.jpg

عمران خان جن وعدوں اور دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی ایفا نہ ہوسکا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یوسف رضا گیلانی سے عدالت نے بار بار کہا کہ آصف زرداری کے اکاؤنٹس سے متعلق سوئس حکومت کو خط لکھو۔ وہ نہ مانے۔ توہینِ عدالت کا نوٹس مل گیا۔ پھر بھی نہ مانے۔ عدالت نے سزا سنا دی۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو بولے پی پی کےلیے جوڈیشل وکٹمائزیشن نئی بات نہیں۔

نواز شریف سے عدالت نے کہا منی ٹریل دو۔ انہوں نے نہ دی۔ پوچھا، بتاؤ اپنے اثاثوں میں ایف زیڈ ای والی تنخواہ کیوں چھپائی؟ بولے میں نے تنخواہ وصولی ہی نہیں تھی۔ عدالت نے کہا، یہ سوال نہیں، سوال یہ ہے کہ کمپنی کے مطابق آپ اس کے تنخواہ دار تھے، آپ کو اس کا حساب اثاثوں میں ظاہر کرنا چاہیے تھا، چاہے کہہ دیتے میں تنخواہ نہیں لیتا مگر یہ سارا معاملہ چھپایا کیوں؟ انہوں نے نہ بتایا۔ عدالت نے کہا نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔ برطرف ہوئے تو بولے، کیوں نکالا؟

پرویز مشرف سے عدالت دس سال پوچھتی رہی بتاؤ آئین کیوں توڑا؟ ایمرجنسی کیوں لگائی؟ انہوں نے عدالت کو جواب دینا کسرِ شان سمجھا۔ جب پوچھا جاتا جواب دیتے، یوں پوچھو گے تو نہیں بتاؤں گا، یوں پوچھو۔ کبھی کہتے کھلی عدالت میں نہیں کمیشن میں جواب دوں گا، تو کبھی کہتے بیمار ہوں، ابھی نہیں پھر پوچھنا۔ عدالت دس سال انتظار کرتی رہی۔ مشرف ملکوں ملکوں گھومتے رہے۔ عدالت نے سزا سنا دی تو بولے، فیصلہ غلط ہے، کچھ لوگوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔

پاکستان میں نیب نے بے شمار افراد کو بغیر کوئی جرم ثابت کیے، بغیر سزا سنائے گرفتار کر رکھا ہے۔ اے این ایف نے رانا ثناء اللہ کو بغیر جرم ثابت کیے، بغیر سزا سنائے گرفتار کیے رکھا۔ پاکستان کی جیلوں اور حوالات اور تفتیشی مراکز میں لاکھوں افراد برسوں سے بغیر جرائم ثابت ہوئے گرفتار ہیں۔ نہ عوام جانتی ہے، نہ میڈیا جانتا ہے، نہ کوئی ان کے حق میں مظاہرے کرتا ہے اور نہ کوئی ان کے حق میں آواز اٹھانے والوں کی سنتا ہے۔ کسی کو کوئی پروا نہیں کہ یہ ہزاروں لاکھوں لوگ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں، ان کے خاندان ان کے بغیر کس طرح زندگیاں گزار رہے ہیں، ان کے بچوں اور دیگر اہل خانہ کی زندگیاں کیسے اہلِ دنیا کےلیے مقام عبرت بنی ہوئی ہیں۔ جس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے، وہ اتنا ہی منہ زور ہے اور اتنی ہی اس کی سنی جاتی ہے اور جو جتنا کمزور ہے، اتنا ہی اس کی بات کو ان سُنی کردیا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2012 سے اب تک پاکستان میں 70 پولیو ورکرز مارے جاچکے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ غریب، مجبور، بے بس، لاچار، کبھی بغیر تنخواہ تو کبھی چند روپوں کی خاطر کام کرنے والے مرد و زن ہوتے ہیں، چنانچہ ان کی زندگی تو کیا موت تک کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں اور سرکار دربار کے مجاوروں میں سے کوئی ان کے جنازوں میں جانا پسند کرتا ہے، نہ ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھنا ضروری سمجھتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگیوں کی حفاظت کا کوئی مناسب انتظام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

وطن عزیز میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ ہیں نواز شریف اور پرویز مشرف جیسے لوگ، جو طاقتور ہیں اور طاقتوروں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ عوام تو صرف چارہ ہیں، ایندھن ہیں۔ ریاست پاکستان کو نہ چین میں پھنسے طلبا میں کوئی دلچسپی ہے، نہ پولیو ورکرز کی شہادتوں میں، نہ ڈاکٹر آمنہ مسعود جنجوعہ اور ان جیسی ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دکھوں میں، نہ آئین شکن کو سزا دلوانے میں اور نہ ہی کسی اور مجبور کی دادرسی اور کسی اور ظالم کی سرکوبی میں۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے دور میں ہورہا ہے کہ جب ملک کا وزیراعظم ایک ایسا شخص ہے جس کے نعرے ہی یہ ہوا کرتے تھے ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘، ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘، ’’امیر کےلیے ایک اور غریب کےلیے دوسرا قانون نہیں ہوسکتا‘‘، ’’چھوٹے چور جیلوں میں اور بڑے باہر نہیں ہوسکتے‘‘، ’’اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے ایف بی آر اور نیب کو ٹھیک کرنا ہے‘‘، ’’پولیس کو غیرسیاسی کرنا ہے‘‘ وغیرہ۔ لیکن بقول فیض
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے

ریاست کو وجود میں لانے کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ اسے مظلوم کی ڈھال اور تلوار بننا تھا لیکن آج ریاست پاکستان ظالم کی ڈھال اور تلوار ہے۔ وہ آئینِ پاکستان کے نہیں، پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی ہے۔ سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے ورثا کے نہیں، قاتلوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ورثا کے نہیں، راؤ انوار کے ساتھ کھڑی ہے۔ غریب مزارعین کے نہیں، اعظم سواتی کے ساتھ کھڑی ہے۔ قندیل بلوچ کے نہیں، اسے مار دینے والوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پانامہ اسکینڈل میں آشکار ہونے والے ان درجنوں وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ کھڑی ہے جنہوں نے عوام کا خون چوس کر آف شور کمپنیاں بنائیں۔

ان حالات میں ہماری اس ملک کی پارلیمان اور اس میں بیٹھے تمام قانون سازوں سے التماس ہے کہ خدارا وزیراعظم پاکستان کے وژن سے سبق سیکھیں۔ جس طرح وزیراعظم نے وقت اور حالات سے سبق سیکھا ہے، آپ بھی سیکھیں۔ جس طرح انہوں نے پرانی، غیرعملی اور غیرمنفعت بخش سوچ سے رجوع کیا ہے، آپ بھی کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم وژنری رہنما عطا کیا ہے تو خدارا اس کے وژن کو استعمال کریں اور آگے بڑھیں۔ قوم کو ایک فضول خلجان سے نکالیں۔ ٹاک شوز کے اینکرز کو ہر روز ایک ہی چکی پیسنے سے چھٹکارا دلائیں۔ ملک و قوم کو سماجی انصاف کے فرسودہ تصورات کا طواف کرنے کی سعی لاحاصل سے آزاد کروائیں اور تعلیم، صحت، روزگار، صنعتوں کے قیام، کاشتکاری، کان کنی اور ماہی پروری جیسے ضروری اور منفعت بخش اور ناگزیر امور پر غوروفکر کرنے کےلیے آزاد کریں۔

ایک زمانہ تھا عمران خان لاپتہ افراد کے دھرنوں میں جایا کرتے تھے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کےلیے آواز بلند کیا کرتے تھے، مشرف کو سزا دلوانے کی بات کیا کرتے تھے، نواز شریف سے مبینہ کرپشن کا اربوں روپیہ نکلوانے کی بات کیا کرتے تھے، ملک کے ایماندار ترین آدمی کو چیئرمین نیب لگانے کی بات کیا کرتے تھے، زرداری سے مبینہ کرپشن کا اربوں روپیہ نکلوانے کی بات کیا کرتے تھے، ایف بی آر اور ایف آئی اے کو ٹھیک کرنے کی بات کیا کرتے تھے، پولیس اصلاحات کی بات کیا کرتے تھے، پروٹوکول کے خلاف بولا کرتے تھے، لیکن اب انہوں نے ان میں سے کسی ایک نہیں بلکہ سب باتوں سے رجوع کرلیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پارلیمان بھی وزیراعظم کے وژن کو اپنائے اور فوری طور پر باقاعدہ آئین میں یہ ترمیم کردے کہ آج سے ایک نہیں دو پاکستان ہوں گے۔ بڑوں کے جرم معاف ہوں گے۔ چھوٹوں کو سزا ہوگی۔ پولیس کو مزید وحشی بنادیا جائے گا۔ نیب جس کی چاہے پگڑی اچھالے، جسے چاہے جب تک چاہے گرفتار رکھے اور جتنے برس بعد چاہے یہ کہہ کر چھوڑ دے کہ جرم ثابت نہیں ہوسکا اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ جو چاہے، جب چاہے آئین توڑے، اسے کوئی سزا نہیں ملے گی اور جو چاہے، جسے چاہے اٹھا کر لے جائے اور جب تک چاہے غائب رکھے وغیرہ۔

جب یہ سب ہورہا ہے تو پھر مان لینے میں کیا حرج ہے؟ کم از کم قانونی اور غیرقانونی کی بحث تو ختم ہوجائے گی۔ قوم ایک اضطرابِ مسلسل سے رہائی تو پا جائے گی۔ قوم کا نظریۂ حیات اور ضابطۂ اخلاق تو طے پا جائے گا۔ جب تک یہ آئینی ’’اصلاحات‘‘ نہیں ہوں گی تب تک ہم اسی مخمصے میں الجھے رہیں گے اور دیگر اہم کاموں پر بھی توجہ نہیں دے پائیں گے۔ چنانچہ ہماری مقننہ سے التماس ہے کہ اس جانب فوراً توجہ دی جائے اور نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم کے نئے وژن کو فوری طور پر آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top