پاتے رہے یہ فیض تری بے رخی سے ہم

پاتے رہے یہ فیض تری بے رُخی سے ہم
گویا کہ دور ہوتے رہے زندگی سے ہم

غم دائمی ہے اور خوشی عارضی سی چیز
اس واسطے قریب نہیں ہیں خوشی سے ہم

محسوس تم سے مل کے ہوا ہم کو پہلی بار
ہیں ہم کنار آج مجسم خوشی سے ہم

اک دور تھا لکھا تھا مرے دل پہ تیرا نام
ہیں آج تیری بزم میں اک اجنبی سے ہم

جلنے سے آشیاں کے چراغاں سا ہو گیا
محروم ہو چکے تھے نئی روشنی سے ہم

ہے زندگی کی شام نہیں ہم نوا کوئی
ہر سمت دیکھتے ہیں عجب بے کسی سے ہم

تخریب کائنات ہے انسان دشمنی
سرتاج کہہ رہے ہیں یہ ہر آدمی سے ہم

(سرتاج عالم عابدی)​
 
Top