امجد اسلام امجد پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے
اک دشت انتظار کو جادہ کیے ہوئے!

آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ
گرد سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے

دیکھو تو کون لوگ ہیں؟ آئے کہاں سے ہیں!
اور اب ہیں کس سفر کا ارادہ کیے ہوئے؟

اس سادہ رُوکے بزم میں آتے ہی بجھ گئے
جتنے تھے اہتمام ، زیادہ کیے ہوئے

اٹھے ہیں اس کی بزم سے امجد ہزار بار
ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے!​
 
Top