ٹی وی ڈرامے کی موجیں اور فلم والوں کی بدحالی!

جاسم محمد

محفلین
ٹی وی ڈرامے کی موجیں اور فلم والوں کی بدحالی!
31/03/2019 حنیف سحر



آج کل ٹی وی ڈراموں کی ریٹنگ جیسے آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ نجی چینلز کی پوری تاریخ میں ایسی بلند بانگ ریٹنگز اس سے قبل کبھی کسی چینل کو یا کسی پروگرام کو یا کسی ڈرامے کونصیب نہیں ہوسکیں۔ ایسا ہوا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اچانک پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز عقل و فن کی کسی ایسی عظمت کو پہنچ چکے ہیں کہ راتوں رات انھوں نے ایسے غیر معمولی ڈرامے بنانا سیکھ لیے ہیں جنھیں دیکھے بغیر ناظرین کا گزارا ہی نہیں ہے اور اسی وجہ سے ان ڈراموں کی مقبولیت نے پاکستان میں ٹی وی ڈرامے کی تاریخ کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ٹی وی ڈراموں کے نہ تو موضوعات میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے نہ ہی کوئی ایسی تیکنیکس استعمال ہونا شروع ہوئی ہیں جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئیں۔ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ہمیشہ سے تھا۔ تو پھرایسا کیا ہوا کہ الہٰ دین کے چراغ کی طرح کوئی جن تھا جسے بوتل میں بند کیا ہوا تھا اور اب اسے آزادی ملی ہے اور اب یہ اسی جن کا کمال ہے کہ اسے حکم دیا جاتا ہے اور وہ من چاہی ریٹنگزکسی بھی ڈرامے کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔

ہر چند کہ یہ کسی الہٰ دین کے چراغ کا کمال نہیں ہے پھر بھی لگتا ایسا ہی جیسے کچھ جنات ہیں جو کچھ لوگوں کے قابومیں ہیں جن کو حکم دے کر چینلز والے من چاہی ریٹنگز حاصل کررہے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے نام نہاد عاملوں کے پاس موئکل ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے کام کرواتے ہیں شاید ہی کبھی کسی نام نہاد عامل نے کسی سائل کو یہ کبھی بتایا ہو کہ یہ موئکل ہوتا کیسا ہے یہ کس قسم کی شکل و صورت کا مالک ہے اس کی ہیت کذائی کیا ہے اور اس کی بے پناہ طاقت کا راز کیا ہے؟

پھر بھی ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ موئکل سے جو کام چاہیں کروا سکتے ہیں۔ اتنی بیش بہا طاقت تو غریب ابلیس کے پاس بھی نہیں ہے جو براہ راست خدا اورانسانوں کا دشمن عظیم ہے۔ مگر عاملوں کا دعویٰ کچھ اسی کا قسم کا ہے کہ جو چاہو پاؤ ہر مراد پوری ہوگی۔ محبوب آپ سے محبت کرتا ہو یا نہ کرتا ہو آپ کے قدموں میں ہوگا۔ ایسے عاملوں کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے پاس کسی اچھے علاقے میں اچھا گھر تک نہیں ہوتا۔ شکل سے ( اگر آپ نے میری طرح کبھی کسی عامل کو دیکھا ہو تو) ایسا لگ رہا ہوتا ہے جیسے مانگے تانگے کے کھانے سے اس کی آنکھوں میں روشنی ہے۔

اور چہرے پر زندگی کا سراغ میسر ہے۔ ٹی وی ڈراما چونکہ خواتین کو اپنی ٹارگٹ مارکٹنگ مانتا ہے لہٰذا یہاں ڈراموں میں زیادہ تر عامل بھی عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ عامل بی بیاں بھی ہروہ کام کرسکتی ہیں جومرد عامل کرسکتے ہیں۔

ایک ڈراما تو انھی دنوں ایک چینل پرایسا بھی موجود ہے جہاں ایک لڑکی نے ایک ایسے آدمی کو عامل بی بی کے چلوں کی طاقت سے نہ صرف اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ خود سے محبت کرنے پرمجبور بنا لیا اور پھر اس آدمی سے جو در اصل بچپن سے کسی اور لڑکی سے محبت کرتا تھا اس کی منگنی ہوچکی تھی عامل بی بی نے اپنے علم کے زور سے یہ منگنی تڑوادی اور جو لڑکی عامل خاتون کی مٹھی گرم کررہی ہے۔ اس سے نہ صرف ایسے آدمی کی شادی کروادی بلکہ ایک عدد بچہ بھی پیدا کروادیا۔ اور یہ سب ہونے کے بعد لڑکی نے اپنے منھ سے اپنے شوہر سے کہا کہ تم تو میری صورت تک دیکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن یہ سب عامل بی بی کا کمال ہے کہ آج تم میرے شوہر ہو میرے بچے کے باپ ہو اور مجھ سے محبت کرتے ہو۔ ( اتنا سب کچھ اس قسم کے ڈراموں میں عامل عورتوں نے اپنے چلوں کی طاقت سے لڑکیوں کی جھولی میں ڈال رکھا ہے۔)

جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگرایسا ممکن ہوتا تو دیوداس پارو۔ ہیر رانجھا۔ اور ایسے تمام رومانوی کرداروں کا ایسا درد ناک انجام تونہ ہوتا۔ وہ بھی کسی ایسے ہی عامل سے رابطہ کرتے اور اپنی اپنی منزلوں کی مراد کو پہہنچ جاتے۔ ان دنوں ایسے ہی عجوبہ ڈرامے دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کے سامنے عقل کی صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور دماغ کی چھاتی پر مونگ دلی جارہی ہے۔ ہر چند کہ ایسے عجیب الخلقت واقعات ہالی ووڈ کی ہارر فلموں میں بھی باکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں جنھیں دیکھنے کے بعد زندگی کی حقیقتوں کا جنازہ اس کے باوجود اٹھ جاتا ہے کہ ایک بھی تلخ حقیقت اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلی تک نہیں ہوتی۔

اب اس جن کے بارے میں بات ہوجائے جس نے ٹی وی ڈراموں کی ریٹنگ کے گراف کو آسمانوں تک پہنچا دیا ہے۔ اس جن کا نام ہے ”انڈیا”۔ جس کے ڈراموں کو نشر کرنے پر ان دنوں سرکاری پابندی لگی ہوئی ہے اور اسی پابندی کی وجہ سے پاکستانی ڈراموں کی ریٹنگ نے کہرام مچایا ہوا ہے۔ یہ دوسرا موضوع ہے کہ زیادہ تر ایسے ڈراموں کو ریٹنگ کی دولت سے مالا مال کیا جاتا ہے جو جہالت کے فروغ اورعورت کے کردار کی پستیوں کو مذید گہرا کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔

تاہم انڈیا کے ڈراموں اور فلموں پر لگنے والی پابندی سے ایک طرف جہاں ڈراما چینلز کو بڑی تعداد میں فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان کی ریٹنگز کے گراف بڑھے ہوئے ہیں اور اسی حساب سے انھیں ملنے والے اشتہارات کے ریٹس میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ اسی شدت سے انڈیا کی فلموں پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے سینما انڈسٹری کی بدحالی مسلسل ایسی سطحوں کو چھو رہی ہے جہاں سے کسی بھی شعبے کی پستی کو ماپا جاسکتا ہے۔ انڈیا کی فلموں پر لگنے والی پابندی سے ایک طرف جدید طرز پر بنے ہوئے ملٹی پلیکیس سینماز کا مستقبل خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے تو خود پاکستان کی بحال ہوتی ہوئی فلم انڈسٹری بھی ایک نئے بحران کا شکار ہوتی نظر آتی ہے۔

سنیما بین افراد کو گھروں سے نکال کر سینماز تک لانے کا جو مشکل ترین کام انڈیا کی فلمیں انجام دیا کرتی تھیں اب ان کی ناموجودگی سے یہ کام کوئی دوسرا انجام نہیں دے رہا چنانچہ سینماز ویران پڑے ہوئے ہیں۔ اور مالی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اول تو پاکستانی فلمیں ابھی معیار اور پسندیدگی کی اس سطح کو نہیں پہنچ سکیں جہاں وہ اکیلے سینماز کو ہاؤس فل کرنے کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہوں۔

پاکستان میں بننے والی بیشتر فلمیں یاتو بری طرح فلاپ ہوجاتی ہیں یا پھر وہ اتنی زیادہ غیر معیاری ہوتی ہیں کہ ملٹی پلیکیس سینمازکا اپنا خرچ تک اٹھانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ بڑی مشکل سے ایک سال میں دو یا تین فلمیں اس قابل کہی جاسکتی ہیں جوملٹی پلیکس سینمازکے وجود کو قائم رکھنے میں مدد گار کہی جاسکتی ہیں لیکن کیا محض دو تین فلموں کی کامیابی سے ان بے پناہ اخراجات کا بوجھ اٹھانے والے سیمناز کی بقاء ممکن ہو سکتی ہے؟

کہا جارہا ہے کہ سیمنا انڈسٹری ان دنوں شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ سینماز میں کام کرنے والے ملازمیں کو ملازمتوں سے فارغ کیا جارہا ہے۔ سینماز کی رونقیں ماند پڑچکی ہیں۔ سو یہ بحران اور کچھ عرصے جاری رہا تو سینمازکی بقا پوری طرح خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اب یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر موجودہ سرکار سینما انڈسٹری کو بچانے کے لیے انڈیا کی فلموں پر سے پابندی اٹھا لیتی ہے تو کیا یہ پابندی ڈراموں پر لگی رہ سکتی ہے؟

اس کا جواب تو آنے والے والا وقت اور حالات ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ انڈیا کے ڈراموں پر لگی ہوئی پابندی کے ہٹائے جانے سے ڈراموں کے ریٹنگز گراف اس تیزی سے نیچے آئیں گے۔ کہ بلندیاں خواب و خیال ہوجائیں گی، جیسا کہ پابندی لگنے سے پہلے تھا اس منظر نامے کو جس نے دیکھا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ پاکستانی ڈراموں کی ریٹنگ کہاں تک جاسکتی ہے اور کتنی بڑی تعداد میں جاسکتی ہے۔ لیکن اسے کیا کہیں کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک کو بچاتے ہیں تو دوسرا ڈوبنے لگتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک ڈراما تو انھی دنوں ایک چینل پرایسا بھی موجود ہے جہاں ایک لڑکی نے ایک ایسے آدمی کو عامل بی بی کے چلوں کی طاقت سے نہ صرف اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ خود سے محبت کرنے پرمجبور بنا لیا اور پھر اس آدمی سے جو در اصل بچپن سے کسی اور لڑکی سے محبت کرتا تھا اس کی منگنی ہوچکی تھی عامل بی بی نے اپنے علم کے زور سے یہ منگنی تڑوادی اور جو لڑکی عامل خاتون کی مٹھی گرم کررہی ہے۔ اس سے نہ صرف ایسے آدمی کی شادی کروادی بلکہ ایک عدد بچہ بھی پیدا کروادیا۔ اور یہ سب ہونے کے بعد لڑکی نے اپنے منھ سے اپنے شوہر سے کہا کہ تم تو میری صورت تک دیکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن یہ سب عامل بی بی کا کمال ہے کہ آج تم میرے شوہر ہو میرے بچے کے باپ ہو اور مجھ سے محبت کرتے ہو۔ ( اتنا سب کچھ اس قسم کے ڈراموں میں عامل عورتوں نے اپنے چلوں کی طاقت سے لڑکیوں کی جھولی میں ڈال رکھا ہے۔)
معلوم نہیں یہ کونسا پھسڈی ڈرامہ ہے۔ البتہ آجکل بہت زبردست ڈرامے بھی چل رہے ہیں جیسے اے آر وائے کا سیریل ’’چیخ‘‘ اور ہم ٹی وی کا سیریل ’’رانجھا رانجھا کر دی‘‘۔
 
Top