ٹیکنالوجی اور انسانی روزگار: مستقبل کے خدشات

جاسم محمد

محفلین
ٹیکنالوجی اور انسانی روزگار: مستقبل کے خدشات
28/07/2019 پروفیسر جمیل چودھری؎



جیسے جیسے معیشت کے مختلف شعبہ جات میں آٹو میشن بڑھ رہی ہے انسانوں کی جگہ مشینیں لیتی جارہی ہیں۔ ایک ایک مشین سینکڑوں کاکام سنبھال رہی ہے۔ اس طرح انسانوں میں بے روزگاری کے امکانات بڑے پیمانے پر پیدا ہورہے ہیں۔ مشینوں کے سبب بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے خدشات انیسویں صدی میں بھی تھے۔ مگر وہ کبھی حقیقت میں نہ ڈھل سکے۔ جب سے صنعتی عہد شروع ہوا۔ ہر وہ روزگار جو مشین نے چھینا اس کی جگہ نیا روزگار پیداکردیاگیا۔

معیارزندگی بھی انیسویں صدی سے اب تک ڈرامائی انداز سے اونچا ہوا۔ مگر اب اکیسویں صدی میں پھر بڑے پیمانے کی بے روزگاری کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ پہلے ایسے ہوتا رہا کہ مشینیں جسمانی صلاحیتوں والے کام سنبھال لیتی تھیں۔ ہمیں زراعت، کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں اب ہیوی مشینری کام کرتی نظر آتی ہے۔ ایک ایک مشین سینکٹروں لوگوں کی جگہ نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں کی جگہ کام کرتی نظر آتی ہے۔ زراعت میں ہارڈویسٹر نے سینکٹروں دستی مزدوروں کو فارغ کردیا۔

چند دہائیاں پہلے تک ہم دیہاتوں میں یہی دیکھتے تھے کہ گندم کی کٹائی کے وقت مزدور ہاتھوں میں درانتیاں پکٹرے صبح سے شام تک گندم کاٹتے اور انہیں ڈھیروں کی شکل میں اکٹھا کرتے نظر آتے تھے۔ اکثر مزدور صرف ایک ماہ میں پورے سال کی اپنی ضرورت کی گندم حاصل کرلیتے تھے۔ دوسری فصلوں کی کٹائی میں بھی مختلف طرح کے ہارویسٹر اور کٹر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ریلوے ٹرینیں اور بسیں آئیں اور بے شمار جانور اور مزدور بے کار ہوگئے۔

تیز رفتار بحری جہازوں نے ملاحوں کو بے روزگار کردیا۔ ایسے ہی کارخانوں میں ہوا۔ آٹو میٹک مشینوں نے مزدوروں کی جگہ لے لی۔ انسانوں میں 2 طرح کی صلاحیتیں ہیں۔ جسمانی اور دماغی۔ جب زرعی، ٹرانسپورٹ اورصنعتی روزگار مشینیں چھین لیں۔ توانسانوں نے وہ سارے کام سنبھال لئے جن میں دماغی صلاحیتیں زیادہ درکار ہوتی ہیں۔ لیکن اب اکیسویں صدی میں مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ ذہانت بھی انسانی بے روزگاری کا سبب بنتی جارہی ہے۔

روبوٹس ہمیں اکثر جگہوں پر کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ صرف جسمانی صلاحیتوں والے کام ہی نہیں کررہے۔ بلکہ دماغی صلاحیتوں والے کام بھی بخوبی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ سمجھنا انتہائی اہم ہوگا کہ مصنوعی ذہانت (A 1 ) کا انقلاب صرف کمپیوٹر کارکردگی یاتیزرفتاری سے متعلق ہے۔ بلکہ یہ علوم حیاتیات میں فیصلہ کن تبدیلیاں لانے کی توانائی سے بھر پور ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ بائیوکیمسٹری کا نظام انسانی جذبات، خواہشات اور پسند کو کس طرح تقویت دیتا ہے۔

ایسے ہی کمپیوٹر بھی انسانی رویوں کا تجزیہ، انسانی فیصلوں کی پیش بینی اور انسانی ڈرائیورز بینکرز اور قانون دانوں کی جگہ سنبھال سکتے ہیں۔ ڈرائیور کے بغیر کا رکے کئی ماڈل مختلف ملکوں میں تیار ہوچکے ہیں۔ اور تجرباتی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ گوگل جیسی بڑی کمپنی نے بغیر ڈرائیور کار کے لئے ایک علیحدہ کمپنی بنا دی ہے۔ اور اس کا کام یہی ہے کہ کار میں نصب کمپیوٹر آلات بغیر کسی رکاوٹ کے اسے منزل مقصود تک لے جائے۔

اگر یہ منصوبہ مکمل ہوکر تمام دنیا میں پھیل جاتا ہے تو انسانی روزگار کا یہ ذریعہ (ڈرائیور) بھی ختم ہوجائے گا۔ اور کمپیوٹر خو د ہی کارکو شہروں اور دوردراز علاقوں تک لئے پھریں گے۔ ڈرون جہاز کے بارے تو آپ پڑھتے ہی ہوں گے۔ یہ بھی دوردراز علاقوں تک کارروائیاں کررہے ہیں۔ اگرچہ اس کے پیچھے اسے آپریٹ کرنے والے دفتر میں بہت سے انسانی ماہرین بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیا اس چیز کا امکان ہے کہ مستقبل قریب میں کنٹرول روم میں بھی مصنوعی ذہانت والے روبوٹس (انسان) تمام کام سنبھالے ہوئے ہوں؟

بنکوں میں آٹو میشن کے نتائج ہم خود ہی دیکھ رہے ہیں۔ بینکوں میں عملہ کم ہوتاجارہا ہے۔ کام اب کمپیوٹرز کے ذریعے لیاجارہا ہے۔ چیک کے ذریعے رقم نکلوانے کا طریقہ تو اب قدیم ہوچکا ہے۔ مشینوں (اے ٹی ایم) کے ذریعے ہی رقوم نکلوائی بھی جارہی ہیں اور ارسال بھی کی جارہی ہیں۔ سروسز بلزکی ادائیگیاں بھی شروع ہیں۔ آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت نے ہرطرف جھنڈے گاڑ ے ہوئے ہیں۔ اور یہ کام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مستقبل کی نوکریوں کو صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہی خطرہ نہیں ہے۔

بلکہ بائیوٹیکنالوجی بھی بہت بڑی تبدیلیاں لارہا ہے۔ نیوروسائنسدان ایسی چیزوں پر کام کررہے ہیں جو 2050 ء تک ماہرین نفسیات اور محافظوں کی جگہ مصنوعی ذہانت کے انسانوں کی تقرری ممکن بنادیں گے۔ مصنوعی ذہانت کے روبوٹس میں صرف انسانی خوبیاں ہی نہیں بلکہ غیر انسانی صلاحیتیں بھی حیرت انگیز ہیں۔ ان میں سے ایک بہترین رابطہ اور دوسری اپ ڈیٹنگ کی صلاحیت ہے۔ کروڑوں انسانوں کی جگہ سنبھالنے کے لئے کروڑوں روبوٹس اور کمپیوٹرز کی ضرورت نہیں۔

یہ ایک جدید نیٹ ورکس کے ذریعے بہت کچھ سنبھال سکیں گے۔ جب دنیا میں کسی نئی بیماری یا دوا کا علم ہوگا توتمام انسان ڈاکٹرز کو اس بارے بتانا بہت مشکل ہوگا۔ اس کے برعکس اگردنیا بھر میں دس ارب مصنوعی ذہانت والے ڈاکٹرز بھی ہوں توفوراً ہی اس بیماری اور دوا سے واقف ہوجائیں گے۔ اس سے انسان کوصحت سے متعلق فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ گوگل کے تحت ایک بالکل الگ کمپنی بنائی گئی ہے اسے Calicoکہاجاتا ہے۔ اس کو بے شمار فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔

انسانی صحت کے ماہرین، جینیائی انجینئرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو ایک ہی جگہ اکٹھا کردیاگیا ہے۔ کمپنی کے ذمہ یہ کام ہے کہ مختلف بیماریاں انسان کے قریب نہ آئیں۔ انسان لمبے عرصے تک زندہ رہے اور بالکل جوان اور صحت مند رہے۔ اگر قدیم زمانے میں انسان کی عمرکئی صدیوں پر مشتمل تھی۔ تو اب بھی انسان 100 سال سے 200 سال تک جئے اور بالکل صحت مند جئے۔ جینیائی انجینئرز کا اس میں بڑا رول ہوگا۔ اگر یہ صورت حال پیدا ہوگئی تو انسان ایک جاب پر 100 سے 150 سال تک کام کرتارہے گا۔

تو نئے پیداہونے والے کہاں جائیں گے؟ نوجوانوں کو بے روزگاری کے خدشات نظر آرہے ہیں۔ لیکن انسان نے ماضی میں بھی مشینوں اور خاص طورپر آٹومیٹک مشینوں کا مقابلہ کیا ہے۔ اور روزگار کے بے شمار متبادل ذرائع پیداہوئے ہیں۔ اب بھی روزگار کے بحران سے بچنے کے 2۔ راستے نظر آتے ہیں۔ آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت کوتیزی سے پھیلنے نہ دیاجائے۔ اس کی رفتار اتنی ہوکہ ساتھ ساتھ متبادل روزگار پیدا ہوسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کبھی جبر کی صورت میں نہیں آئی۔

جوکچھ آج کل سائنسدان کہہ رہے ہیں ضروری نہیں کہ ہوبہو ایساہی ہو۔ اس سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ آخر حکومتیں اور سائنسدان جدید ترین بائیوٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کومعاشرے میں لاتے وقت انسان کے روزگار کے بارے ضرور سوچیں گے۔ بائیوٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے بڑے پیمانے پر انسان بے روزگار ہوجائیں گے؟ یہ نظریات آج کل پروفیسر یوول نوح ہراری کی وجہ سے پھیل رہے ہیں۔ ان کی کتابیں پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہورہی ہیں۔

اور دنیا بھر کے تھنک ٹینکس ان کے خیالات سے استفادہ کے لئے پروفیسر ہراری کو دعوت دیتے رہتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ان کے خیالات Talk of the worldبنے ہوئے ہیں۔ پرفیسر نوح ہراری کہتے ہیں جاب مارکیٹ میں انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے درمیان مقابلہ کی فضا شاید پیدانہ ہو۔ بلکہ تعاون واشتراک ہو۔ پولیس اور بنکاری کے شعبوں میں تعاون انسانوں اور کمپیوٹرزدونوں کو مات دے سکتا ہے۔ ان سب نوکریوں کے ساتھ ایک مسٔلہ درپیش ہوگا وہ ہے انتہائی مہارت کا۔

ماضی میں بھی آٹومیشن کامقابلہ ایک پیشے سے دوسرے پیشے میں منتقلی سے کیاگیا۔ اب بھی مہارت حاصل کرکے پیشے تبدیل کیے جاسکیں گے۔ پروفیسر نوح ہرارے کہتے ہیں۔ 2050 ء تک نہ صرف تاحیات روزگار بلکہ تاحیات پیشہ کا تصور بھی بالکل دقیانوسی ہوچکا ہوگا۔ لیکن نوح ہراری کی یہ تمام باتیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔ مستقبل ہی بتائے گا کہ ان کی کہی ہوئی باتیں درست ہوتی ہیں یا غلط۔ اندازے تو تصورات ہی ہوتے ہیں۔ اگرآٹو مشینوں کے آنے سے انسانوں میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدانہیں ہوئی تومصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی کے ملاپ کے حالات کا بھی انسان ضرور مقابلہ کرلے گا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔
 
Top