ٹپوری ڈاکٹر مجاہد الاسلام

سیما علی

لائبریرین
افسانہ: ٹپوری



ڈاکٹر مجاہد الاسلام اسسٹنٹ پروفیسر، اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنئو

Screen-Shot-2018-10-09-at-10.51.10-688x387@2x-300x169.jpg


جارج کرسٹن کالج کے مقابلے میں مجھے یہاں کے گنپتی بپّا مہلا کالج کی لائف بڑی ہی احمقانہ قسم کی لگتی تھی ۔ممکن ہے اس کی اہم وجہ اس کالج کا نظام تعلیم رہا ہو۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو مگر ایک بات صاف تھی کہ گنپتی بپّا مہلا کالج کی لڑکیوں کی لائف میں کسی طرح کی کوئی چارمنگ نہیں تھی ، بعض لڑکیاں توکالج کی طرف سے سخت ممانعت کے باوجود بھی اپنے نائٹ سوٹ اور ہوائی چپل ہی میں کالج آجایا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود بھی اس کالج کی چڑیل سے چڑیل قسم کی لڑکیاں بھی اپنی غیرت و نخوت کے نشے میں اس قدر چور رہتی تھیں کہ غیر تو غیر رہے خود آپس ہی میں ایک دوسرے کو دیکھنا تک پسند نہیں کرتی تھیں ۔ اگر بھول سے بھی کبھی کوئی کسی کے پاس سے گزر جاتی تو وہ آپس میں کتیوں کی طرح اپنی ناکیں نکوستی تھیں ۔ چند ایک لڑکیاں جو خود کو ایک دوسرے کی بہت قریبی دوست ( Close Friend ) ظاہر کرتیں تھیں وہ بھی جب ایک دوسرے سے جدا ہوتیں تو منہ بسورتی تھیں۔ مجھے اکثر اپنے کرسٹن کالج کی یادیں ستاتی تھیں۔ ہم لڑکیوں میں خوبصورت و اسمارٹ نظر آنے کی ہوڑ لگی رہتی تھی ۔ یہ الگ بات ہے لڑکے کبھی کبھار کمینٹس (s Comment) پاس کرنے کی کوششوں میں پھکڑ پن کی تمام حدوں کو پھلانگ جایا کرتے تھے….. ہماری زندگی میں ایک قسم کی چارمنگ تھی، کشش تھی۔

چونکہ گنپتی بپّا میں میری ابھی تک کوئی ایسی قریبی فرینڈ نہیں بن پائی تھی جس کے ساتھ میں کچھ ٹائم پاس کر لیتی۔ اس لئے میں انٹرول کا وقت عموماً کلاس ہی میں بیٹھ کر گزار دیتی تھی ۔ ایک دوپہر کی بات ہے ابھی انٹر ول ختم نہیں ہوپایا تھا ۔ میں کلاس روم میں ہی بیٹھی ہوئی تھی، اچانک میرے دل میں ایک عجیب و غریب خیال آیا ۔اس کے بعد میں کسی بھی طرح سے خود کو وہاں پر نہ روک پائی اور فوراً ہی کلاس روم سے نکل پڑی ۔ باہر حد نگاہ تک میدان ہی میدان تھا، جس میں لڑکیاں بیڈمنٹن، ٹینس ، والی بال اور کبڈّی وغیرہ کھیل رہی تھیں۔چونکہ شروع ہی سے مجھے کتابوں سے اتنی دلچسپی رہی کہ میں نے گھر ہو یا اسکول کہیں بھی کھیل کود کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا ، گھر میں بھائی اور باہر کلاس فیلوز مجھے کتابی کیڑہ کہہ کر ہی پکارا کرتے تھے ۔ کچھ دورچلنے کے بعد میں ایک طرف کو کھڑی ہوگئی ۔ یہاں پر کچھ لڑکیاں ٹینس کھیل رہی تھی ، بلکہ کھیل کم اور شور زیادہ مچا رہی تھیں۔ میری نظر یہیں پر اس کی نظر سے ٹکرائی۔ میں ٹھٹھک کر رہ گئی ۔ ہم دونوں فوراً ہی غیر ارادی طور پرایک طرف کو ہوگئے۔ گوری رنگت، کھلے ہوئے بال، نہ بہت لمبے نہ بہت چھوٹے ، ترشی ہوئی بھوئیں ، سڈول بانہیں، سینہ کچھ ایسا جیسے کہ فاختائیں اڑنے کے لئے پرتول رہی ہوں۔

غرض یہ کہ وہ مجھ سے کئی گنا خوبصورت اور سمارٹ تھی۔ ان دنوں جسمانی اوبڑ کھابڑ کی وجہ سے میرے اندر پیدا ہوئی احساس کمتری سے باہر نکالنے کے لئے اکثر میری ممّا مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ اصل میں تو لڑکی کا رنگ روپ شادی کے بعد ہی نکھر تا ہے ۔ کلیوں میں چٹخ بھونروں کے اس کے ارد گرد منڈلانے کے بعد ہی آتی ہے ۔ اس روز اس سے جو میری ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی اس سے پتہ چلا کہ اس کا نام سرشٹی ہے، فائن آرٹس کی اسٹوڈنٹ ہے۔ میری ہی طرح سے اس کو بھی کھیل ویل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ کہ وہ بھی یہاں کے ماحول سے بہت زیادہ کبیدہ خاطر ہے۔ کالج میں جب چھٹی کی گھنٹی بجی اور میں گھر جانے کے تیار ہو رہی تو میں نے دیکھا کہ وہ پہلے ہی سے میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ میں نے اشاروں ہی اشاروں میں ٹٹولا کہ اس کو کدھر جانا ہے؟ اس وقت اس نے جو کچھ بھی مجھے بتایا اس سے پتہ چلا کہ وہ بہت دور تک میرا ساتھ دے گی ۔ اس کی اس غیر متوقع رفاقت سے مجھے یک گونہ خوشی حاصل ہوئی ، کیوں کہ کچھ ہی دور آگے بڑھنے کے بعد راستہ کچھ زیادہ ہی سنسان ہوجایا کرتا تھا، یہی نہیں میں نے کچھ ہی دنوں میں گھر سے کالج آنے کے لئے بھی اس سے مشورہ کرکے ایک خاص وقت مقرر کر لیا تاکہ وہ آتے وقت بھی میرے ساتھ رہے۔ اورہم دونوں کا خوشی خوشی ایک دوسرے کی رفاقت میں راستہ طے ہوجائے ۔

اس کی معیت میں ابھی چند ایک روز ہی گزرے ہونگے کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ کالج سے نکلنے کے ًبعد جو پہلا چوراہا آتا تھا، جو اب تک مجھے سنسان پڑا نظر آتا تھا وہاں پر اب ایک طرح کی پر اسرار سن گن شروع ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے قبرستان کے مردوں میں اچانک جان پڑ گئی ہو۔ مگر ہمیں کیا کرنا تھا ہم دونوں تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھاتے ہوئے گزرجاتے۔ کچھ ہی دنوں بعد ہم نے یہ محسوس کیا کہ اس چوک پر کالج کے ہی مجنوں صفت ٹپوریوں کا ایک گروپ سرگرم ہو گیا ہے ۔ میں سرشٹی کی دلی کیفیت کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی مگر مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی۔ ایک دن کی بات ہے چھٹی کے بعد ہم دونوں حسب معمول کالج سے نکلے چوراہے پر جیسے ہی پہنچے میں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ عام دنوں کے مقابلے میں آج ٹپوریے غول کی شکل میں کچھ اس طرح منڈلا رہے تھے جیسے کہ انہیں کسی خاص چہرے کی تلاش ہو ۔ میں حواس باختہ تیزی سے آگے کو بڑھ گئی، پھر جب میں یہ دیکھنے کے لئے پیچھے مڑی کہ سرشٹی میرے ساتھ ہے بھی یا نہیں تو میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ سرشٹی بہت پیچھے ہی ایک ٹپوریے سے آنکھیں چار کئے ہوئے کھڑی ہے…… پھر میں جیسے ہی آگے کو بڑھی وہ دوڑ کر میرے پاس پہنچی ۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا کہ جیسے ہی ہم دونوں کالج سے نکلتے اور وہ چوراہا آتا سرشٹی اپنی رفتار کو دھیمی کر دیتی اور میں لامحالہ آگے کو بڑھ جایا کرتی۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگی کہ چوراہے پر ضرور کوئی ایسی خاص چیز ہے جو سرشٹی کے قدم گیر ہوتی ہے ۔ جلد ہی سرشٹی نے اس راز کو راز نہ رکھ کر ایک روز جب ہم دونوںچوراہے سے گزر رہے تھے تو اس نے بلا تکلف یہاںپر جو چند ٹپوری قسم کے لڑکے مٹر گشتی کر رہے تھے ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتا یا کہ یہی وہ لڑکا ہے جومجھ پر جان چھڑکتا ہے اور یہ کہ وہ میرے لئے کبھی بھی کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہے۔ بہرحال یہ معاملہ دل کا تھا میں نے اس وقت سرشٹی کو کچھ بھی کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔ ویسے بھی وہ لڑکا مجھے اسٹوڈنٹ کم اور لفنگا ،موالی زیادہ نظر آیا، گھر آکر جب میں نے اس سارے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا تو دو راستے واضح ہو کر میرے سامنے آئے۔ یا تو میں سرشٹی سے اپنے تعلقات منقطع کرلوں ۔ کیوں کہ اس سے میری بھی بدنامی کا سوال تھا ۔ بہت ممکن ہے کہ کل کو یہ ٹپوریے اس کی آڑ میں مجھے بھی چھیڑنے کی کوشش کریں، اوردوسری بات یہ تھی کہ میں سرشٹی کو سمجھائوں۔ جہاں تک رہی تعلقات منقطع کر لینے کی بات تو یہ میرے گلے نہیں اتری، کیوں کہ میرے نہ چاہنے کے باوجود بھی اگر وہ میرا ساتھ پکڑ لیتی تب بھی میں کیا کرسکتی تھی؟ میں نے موخرالذکر طریقے کو ہی ترجیح دی اور سرشٹی کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم ایک باوقار کالج کی ایک باوقار اسٹوڈنٹ ہو جس کی ملک بھر میں شہرت ہے ۔ جس سے لوگوں کی ایک قسم کی آستھا بھی جڑی ہوئی ہے،پھر ہر لڑکی کا ایک خاندانی اسٹیٹس بھی ہوتا ہے۔ سرشٹی پر اس ٹپوری کے عشق کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ الٹا مجھے ہی سمجھانے لگی، کہنے لگی میں تو اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کئے ہوئی ہوں ۔ میں نے کہا کہ سرشٹی یہ تو تمہارے پڑھنے لکھنے کے دن ہیں ۔ تم نے خود سے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا؟ کیا یہ سب کچھ تمہارے گارجین کو پتہ ہے؟ سرشٹی نے میرے سوالات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔کہنے لگی کہ پہلے تم یہ تو بتائو کہ شادی مجھے کرنی ہے یا میرے گارجین کو؟۔

میں کہاں چوکنے والی تھی ۔ میں نے بھی فوراً ہی میرٹھ کی سان پر لگی قینچی کی طرح دو بدو جواب دیا۔ بد نصیب سے بد نصیب والدین بھی نہیں چاہتے کہ اس کی اولاد کی شادی نہ ہو؟….. مگر ہر چیز کا ایک وقت متعین ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس وقت کے آنے سے پہلے ہی اولاد اپنا آپا کھو دے … وہ بھڑک اٹھی ….. کہنے لگی …. ہم ہر کام کو والدین ہی کی مرضی پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ لوہا جب گرم ہو تو ہتھوڑا چلا ہی لینا چاہیے ۔ سرشٹی میری باتوں کو سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی میں نے اس وقت اس سے مزید بحث فضول سمجھی اور آگے کو بڑھ گئی۔ اب ہم دونوں کا ساتھ میں کالج آنا جانا کم ہی ہوتا اگر اتفاق سے کبھی ساتھ ہوگئے تو اور بات تھی۔ اب وہ اس میدان میں بھی جہاں پر ہم لوگ اکثر انٹرول میں اکٹھے ہوکر باتیں کرتے تھے وہاں پر بھی نہیں آتی ۔کچھ ہی دنوں میں عالم یہ ہو گیا کہ وہ کالج کب آتی اور کب یہاں سے نکلتی مجھے یہ بھی پتہ نہیں چل پاتا۔ اس کے کلاس فیلوز بتاتے کہ کلاس کرنا نہ کرنا اس کے موڈ پر ہے کبھی کبھی تو پریڈ کے دوران ہی اٹھ کر چلی جاتی ہے ۔ اس کی اس حرکت سے کئی ٹیچر اس سے ناراض بھی ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک روز سرشٹی اچانک مجھے انٹرول میں اسی میدان کے ایک کنارے شہتوت کے پیڑ کے نیچے نظر آئی، دور سے وہ ٹھیک سے پہچانی بھی نہیں جا رہی تھی، میں خودہی اس کے قریب گئی ۔ بجھی بجھی سی رنگت، چہرہ آنسوئوں کے قطروں سے داغدار مجھے بڑی فکر ہوئی پہلے تو میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی وہ بلبلا کر رونے لگی ، جب میں نے حقیقت واقعہ جاننے کی کوشش کی تو سرشٹی دھاڑیں مار کر رونے لگی …… میں لٹ گئی ، برباد ہو گئی ، اب مجھ سے شادی کون کرے گا؟ میں نے کہا آخر پوری بات تو بتائو ہوا کیا؟….. کہنے لگی بات ابھی کل کی ہے، اس ٹپوری کے بچے نے میرا وشواس گھات کیا …. مجھے کرزن پارک میں دھوکے سے ایک ایسی کھو نما جگہ پرنلے گیا جہاں سے مجھے بھاگتے بھی نہیں بنا…. الٹا اس نے ہی مجھے دھمکی دی کہ اگر تم نے ذرا بھی زبان کھولی تو میں تمہارے پورے خاندان کو ہی تہس نہس کر دونگا ۔

اچانک میرے ذہن میں کونیکا کا چہرہ کوند گیا۔ کونیکا میری کلوز فرینڈ ہے۔ جبکہ وہ کبھی میری کلاس میٹ نہیں رہی۔ وہ ایک دوسرے ہی کالج میں پڑھتی ہے۔ مگر اس نے کبھی بھی اپنی کوئی چیز مجھ سے نہیں چھپائی۔ وہ ایک امیر باپ کی بیٹی ہے ۔ اکثر ایک ساتھ کئی لڑکوں کو فلرٹ کرتی ہے ۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ سمجھایا کہ یہ فلرٹ ولرٹ بڑی خطر ناک قسم کی چیز ہے ۔ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے ….. کبھی بھی لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں….. اور کئی بار اس کے ساتھ ایسا ہوا بھی، مر کے جی اٹھی؟ …..۔. پھر سرشٹی اتنی پریشان کیوں ہے؟ میری سمجھ سے باہر تھا…. کیا کونیکا یہ سمجھتی ہے کہ پیسے سے سب کچھ….. خریدا جا سکتا ہے.. .؟ … مگر سرشٹی مڈل کلاس کی لڑکی ہے …. بلکہ لوور میڈل کلاس کی …… میری ممّا اکثر نصیحت کرتے ہوئے مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ مڈل کلاس کی لڑکیوں کے لئے عزت ہی ان کی سب سے بڑی دولت ہے….. وہ کیا گئی…. میرے ذہن کے پردے پر اوپر نیچے کئی سوالات کوندنے لگے۔ سرشٹی کی گھبراہٹ سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ یہ معاملہ کسی بھی قیمت پر کل کا نہیں ہو سکتا ہے …… اس سے ضرور کچھ چوک ہوئی ہے میں نے جب اس سے ذرا کھنگال کے پوچھا تو اس نے خود ہی ساری باتیں اگل دیں ۔

ظاہر ہے کہ یہ معاملہ کچھ ایسا ویسا نہیں تھا کہ جس کی جانکاری سرشٹی کی ماں کو نہ ہوتی۔ عورتیں ویسے بھی قیافہ شناس ہوتی ہیں آسمان میں گڑہیں باندھتی ہیں جبکہ سرشٹی تو اس کی بیٹی ہی تھی۔ سرشٹی کی عجیب و غریب حرکتوں سے وہ سب کچھ فوراً ہی تاڑ گئیں ۔ پہلے تو ماں نے لعنت ملامت کی…… اس سے بھی اس کی تسلی ہوئی تو جم کر سرشٹی کی ٹھکائی کی۔ بار بار یہی دہراتی کہ کیا اسی کارنامے کے لئے میں نے تمہیں گنپتی بپّا بھیجا تھا…..؟ سرشٹی کی ماں نے فوراً ہی اپنے کچھ قریبی رشتے داروں سے مشورہ کیا ۔ لڑکی ذات ہے، رشتے داروں نے معاملے کا دبا دینے کا ہی مشورہ دیا ، مگر اس سے سرشٹی کی ماں کی کب تسلی ہونے والی تھی۔ وہ ایک پڑوسی کی مدد سے تھانے پہنچیں، تھانے دار بڑا گھاگ قسم کا تھا ، پائوں ٹیبل پر رکھے دن دیہاڑے شراب پی رہا تھا۔ تھانے دار نے جب سے نوکری جوائن کی تھی مفت کی روٹی توڑتا آیا تھا وہ ایسے کسی معاملے میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتا تھا جس میں اسے بڑی آمدنی کی امید نہیں ہوتی۔ پہلے تو وہ سب کچھ بڑی خاموشی سے سنتا پھر اس نے الٹے سرشٹی کی ماں ہی کو دھمکانا شروع کردیا ۔کیا وہ لڑکا…… کھو میں تمہاری بیٹی کو زبردستی لے گیا تھا؟ کیا اس کی بھی مرضی اس میں شامل نہیں تھی ؟۔ اپنی بیٹی پر تو تمہاراکنٹرول ہے نہیں؟ جب چڑیا چگ گئی کھیت… ؟ سرشٹی کی ماں کو وہاں سے بھاگتے ہی بنی ……۔

سرشٹی کی ماں پہلے تو ہفتوں نیم حکیموں کے چکر لگاتی رہیں پھر جب ادھر سے فرصت ملی تو اس نے سب سے پہلے سرشٹی کی پڑھائی کو ہی بند کر دینے کا فیصلہ کیا مگر پھر فوراً ہی اس خوف سے کہ پڑوسی کیا سوچیں گے اس نے خود ہی سرشٹی کو کالج لانے اور لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ اگرچہ وہ خود بھی ایک جاب میں تھی۔ ان کے پاس وقت کی بڑی قلت تھی۔ ادھر ابھی ٹھیک سے سرشٹی کی ماں کا یہ زخم مندمل بھی نہیں ہوپایا تھا کہ ایک روز اچانک اعلیٰ افسروں نے اس کے دفتر میں چھاپہ ماری کی یہ غیر حاضر پائی گئیں فوراً سسپینڈ کردی گئیں۔ بڑی روئی گرگرائیں مگر افسران نے اس کی ایک نہ سنی ۔ پلّے پیسہ بھی نہیں تھا جس کو دے کر معاملے کو رفع دفع کروالیتیں بڑی مشکل سے دفتر کے ہی ایک بابو کی منت سماجت پرافسر معاملے کی فائل کو تہہ دینے پر راضی ہوا۔ ادھر ایک مرتبہ پھر چوک چوراہوں کی رونق بڑھنی شروع ہوگئی ۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر وہ ٹپوری مردود تو نہیں بلکہ اس کے ایک قریبی ساتھی نے ہی سرشٹی کے ساتھ ہمدردی جتانی شروع کی، اس کے رِستے زخم پر پھاہا رکھنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے اس نے بر سر عام اپنے اُس ٹپوری ساتھی کے خلاف اور سرشٹی کے حق میں زبردست بھاشن دیاَ پہلے پہل تو سرشٹی اس سے دور دور ہی بھاگتی رہی۔ ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ دودھ کی جلی بلّی چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے ۔مگر کب تک؟ ….. اس ٹپوری نے کچھ اس طرح سے پانسا پھینکا کہ سرشٹی چاروں شانے ہی چت گری۔ ایک مرتبہ پھر اس کی زندگی اتھل پتھل کا شکار ہو گئی ۔ اس کی کئی قریبی ساتھیوں نے مجھے اس نئے واقعے کی خبر دی مگر میرے دل کو کسی بھی طرح سے یقین نہ آیا….. مگر میرا شک اس وقت یقین میں تبدیل ہو گیا جب میں نے ایک روز اسی چوراہے پر سرشٹی کو ایک نئے ٹپوریے کے ساتھ کندھا اچکا اچکا کر محو گفتگو دیکھا ۔ پھر کچھ ہی دنوں میں عالم یہ ہوگیا کہ چاہے کلاس ہو ، کینٹین ہو یا پھر کھیل کا میدان ایک بار پھر ہر ایک کی زبان پر انہی دونوں کے چرچے رہنے لگے۔

ایک دن راہ چلتے اچانک میری سرشٹی سے ملاقات ہو گئی ۔ میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اس کواس کی ماں کی مجبوری کا بھی حوالہ دیا۔ مگر وہ اس ٹپوری کے عشق میں اس حد تک اندھی ہو چکی تھی کہ میری باتوں کا پہلے کی طرح ہی اس پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ کہنے لگی وہ اس طرح کا نہیں ہے ….. اس مرتبہ میں بہت پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہی ہوں۔ ہم بہت سی کارآمد چیزوں کو صرف اس لئے کھو دیتے ہیںکہ ہم اس میںبہت ہی زیادہ مین میکھ نکالنے لگتے ہیں۔ میں نے اپنی کوششوں کو کوئلے پر صابن گھسنے کے مترادف سمجھا اور فوراً ہی خاموش ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکی ذات کا اگر ایک مرتبہ پائوں پھسل جائے تو وہ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کرگزرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے ۔ جبکہ لڑکے ایسی لڑکیوں کو کبھی بھی سنجیدگی سے لیتے ۔ حتیٰ کہ جب ان کو رشتے کا معاملہ بھی در پیش آتاہے تب بھی وہ اپنی اس بدنصیب لڑکی کو نظر انداز کرکے ‘لحم طری’ کی تلاش میں در درکی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ، اور پھر آخر میں وہ ایک ایسے گڑھے میں اوندھے منہ گرتے ہیں ……

جہاں سے ان کے لئے اٹھنانبھی مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں سرشٹی کا پھر وہی پرانا چکر شروع ہو گیا ۔اسکول سے ہفتوں ہفتوں غیر حاضرنرہتی ۔ اس کی قریبی فرینڈز سے پتہ چلتا کہ آج میڈم اس رسٹورنٹ میں گئیں تو کل اس گیسٹ ہائوس میں ۔ پھر جلد ہی بات مخفی نہ رہ کر ان کی ماں تک پہنچ گئی ۔ پہلی مرتبہ کی ذلت و رسوائی کا داغ ہی ابھی ان کے دل و دماغ پر سے کون سا دھلا تھا؟ …… اس مرتبہ ماں نے سمجھانے کے بجائے گھونسے اور ڈنڈے سے کام لیا اور جہاں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی وہیں جب وہ ڈیوٹی پر جاتی تو گھر کے باہر بڑا سا تالا لگا کر جاتی۔ سرشٹی کی ماں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ لڑکی ذات ہے گھر میں اس طرح سے اس کو تالا لگا کر رکھنا بھی مناسب نہیں اگر اس نے کوئی غلط قدم اٹھا لیا تو اور بھی زیادہ بدنامی ہوگی۔ اس نے سرشٹی کا تعلیمی سلسلہ تو موقوف کرا ہی دیا، اس مرتبہ ایک نئی تبدیلی یہ آئی کہ اس نے سرشٹی کو اس کے ایک دور کے ماموں کی مدد سے اپنے گھر کے پاس ہی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں نرس لگوا دیا، طوعاً و کرحاً یہ سلسلہ چل نکلا، یہ کبھی دن کی ڈیوٹی ہوتی تو کبھی رات کی مگر اتنی آسانی ضرور تھی کہ وہ وقت کے وقت اپنے گھر آجاتی، جس کی وجہ سے وہ کافی خوش تھی، قبل اس کے کہ کوئی ناگہانی صورت حال پیش آتی۔ سرشٹی اپنی خوش اخلاقی و خوش اطواری کی وجہ سے ہسپتال کے ہی ایک جونیر ڈاکٹر کی نظر میں کُھب گئی اور بہت جلد ہی دونوں نے ایک ساتھ جینے و مرنے کا تہیہ بھی کر لیا۔ سرشٹی کی ماں کو جب اس پوری کہانی کا پتہ چلا تو بہت ہی زیادہ خوشی ہوئی ۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ سرشٹی نوکری، شادی ، شوہر ،بچے اور گھر داری میں پھنس کر پھر کبھی اپنے ماضی کو نہیں دہرا پائے گی ۔لڑکے نے مقامی لال بہادر شاستری آیورویک کالج سے بی اے ایم ایس کیا ہوا تھا۔ اور اب عارضی طور پر یہاں پر لگ گیا تھا، اس کے گھر میں ممی پاپا کے علاوہ دو بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا ۔ شادی ابھی کسی کی بھی نہیں ہوئی تھی یہ لڑکا اپنے گھر کی سب سے بڑی اولاد تھا ۔ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی ۔ سرشٹی کی ماں نے دل کھول کر خرچ کیا بلکہ یو ں سمجھ لیجئے کہ اس کے پاس جو جہاں بھی تھا وہ سب کچھ اس نے سرشٹی یا پھر اس کے شوہر پر لٹا دیا ۔ ویسے بھی اس کی کوئی دوسری اولاد تو تھی نہیں ۔

ادھر سرشٹی جب سسرال پہنچی تو وہ سسرال والوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر پائی اس کی اب تک کی زندگی بڑے ہی الّے تللّے میں گزری تھی خود کو نندیں دیور اور ساس، سسر کے بیچ میں کچھ زیادہ خوش نہ رکھ پائی، بے چار ے شوہر کے لئے یہ سب کچھ سمجھ پانا ناممکن تھا۔ گھر کے دوسرے فرد تو الگ رہے خود سرشٹی کی اپنے شوہر سے بھی چخ چخ پخ پخ رہنے لگی۔ گھر میں ایک مثلث(Triangle) سا رہنے لگا۔ جبکہ سرشٹی کے سسر بیٹے اور بہو کے بیچ کی لڑائی کو گڈااور گڈے کی لڑائی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے، ان کا خیال تھا کہ ہر وہ شخص جو کسی نئی جگہ پر جاتا ہے، کچھ انکمفرٹیبل (uncomfortable) سا ضرور محسوس کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ کو ناپسند کر رہا ہے یا اس جگہ سے اس کو نفرت ہے۔ ان کے کہنے مطلب یہ تھا کہ میاں بیوی میں کبھی لڑائی ہو ہی نہیں سکتی ۔ وہ ایک مثال بھی دیتے تھے کہ سانڈ کے گائے کو سنگ مارنے یا پھر گائے کے سانڈ کے لات مارنے کو ہم نفرت پر محمول نہیں کرسکتے ؟….. بلکہ یہ محبت ہی کی ایک قسم ہے۔

اس کے باوجود بھی دلہے راجہ اکثر و بیشتر معاملے کو سلجھانے کے کئے باپ کے بجائے ساسو ماں کا سہارا لینے لگے۔ ساسو ماں اپنی بیٹی کو سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ جہاں اپنی بیوگی کا حوالہ دیتی وہیں اس کو اس کی آوارگی کا طعنہ دینا بھی نہیں بھولتی ۔ ماں کی نصیحتوں سے سرشٹی کے رویے میں وقتی طور سے ضرور کچھ تبدیلی آجاتی مگر وہ جو کہتے ہیں کتے کی دم….. دلہے راجہ نے اس کا مستقل حل یہ نکالا کہ چونکہ اپنے گھر میںبھی ساسو ماں اکیلی ہی ہیں وہ یہیں آکر رہیں۔چونکہ سرشٹی کی ماں اس کی پیدائش کے کچھ ہی دن بعد ہی بیوہ ہوگئی تھیں، ابھی تو جسم کا تار بھی ٹھیک سے نہیں ٹوٹا تھا ، سب کچھ بھرا پُرا ہی تھا ۔ بیٹی کی شادی کے بعد ایک طرح سے وہ اور بھی زیادہ تن وتنہا ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے پڑوسیوں سے لے کر خوانچہ فروشوں تک کی نظر یں اس پر اٹکی رہتیں۔ دلہے راجہ کی اس غیر متوقع دلچسپی کو دیکھ کر وہ فوراً اس کے لئے تیار بھی ہوگئیں۔ اور پھر کچھ ہی دنوں میں دلہے راجہ کی آئو بھگت کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی نوکری کو بھی resign کر بیٹھیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنا سسرالی گھر بھی بیچ ڈالا۔ شروع شروع میں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا، مگر بہت جلد ہی سرشٹی کو اپنی ماں کی وقت بے وقت کی مداخلت بری لگنے لگی، ادھر ہسپتال میں ڈیوٹی کامعاملہ بھی بہت کچھ الجھ سا گیا، اگر دونوں کی ڈیوٹی ساتھ ہی ساتھ ہوتی تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی رہتا، اگر دولہے کی ڈیوٹی رات کی ہوتی اور سرشٹی کی دن کی تو یہ بھی کسی حد تک قابل برداشت تھی، اس کے برعکس اگر کبھی سرشٹی کی ڈیوٹی رات کی اور دولہے کی دن کی ہوتی تو معاملہ بڑی حد تک بگڑ جاتا ۔ ڈیوٹی کرکے جیسے ہی سرشٹی گھر میں داخل ہوتی ایسا لگتا کہ جیسے گھر کا درجہ حرارت غیر متعینہ حد تک بڑھ جاتا ۔اسی وقت سے ہی میاں بیوی میں جھگڑا، تکرار شروع ہوجاتی۔ سرشٹی کے سسر نے آئے دن کی چخ پخ کا آسان راستہ یہ نکالا کہ ان تینوں ہی کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ فی الوقت یہ تینوں ماں ، بیٹی اور داماد ایک کرائے کے مکان میں ٹائم پاس کر رہے ہیں۔

پچھلے دنوں یہ تینوں مجھے ایک میرج پارٹی میں نظر آئے۔ میں حال و احوال جاننے کے لئے فوراً ان کے پاس پہنچی ۔ سرشٹی کی گفتگو سے مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ اپنی ماں سے خوش نہ ہو۔
(ختم شد)
 
Top