ٹرانسجیڈر بل

وصی اللہ

محفلین
ٹرانس جینڈر بل. کیا واقعی ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے؟
سب سے پہلے بل کے نام پر بات ہونی چاہیے . اس سے ایک الجھن سلجھ جائے گی.
یہاں دو مختلف الفاظ کے معانی سمجھنا نہایت ضروری ہے. ان میں سے پہلا لفظ ٹرانس جینڈر ( transgender ) جبکہ دوسرا انٹر سیکس ( intersex ) ہے.
انٹر سیکس کی چار اقسام ہیں.
1..... وہ بچے جن کے جنسی اعضاء ڈیویلپڈ نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ شادی کے قابل نہیں ہوتے . یہ نقص لڑکا اور لڑکی دونوں میں پایا جاسکتا ہے. اعضائی نقائص کے حامل بچوں میں سے ایسے بچوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے.
2...... وہ بچے جن میں بیک وقت مرد و عورت دونوں کے پوشیدہ اعضاء ہوتے ہیں. ان کے لیے ٹیسٹ کا طریقِ کار اپنایا جاتا ہے. جس کے نتیجے میں یہ علم ہو جاتا ہے کہ دونوں میں سے کون سا عضو زرخیزی لیے ہوئے ہے اور کون سا عضو بےکار ہے. جو بھی عضو زرخیزی کے قابل نہ ہو اسے آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا جاتا ہے. اس کے نتیجے میں خود بخود جنس بھی متعین ہوجاتی ہے. اس سب کے بعد ایسے بچے دیگر بچوں جیسے نارمل اور بےنقص ہو جاتے ہیں.
3...... وہ بچے جن کا بظاہر عضو واضح نہیں ہوتا مگر حقیقت میں داخلی طور پر ان میں uterus ( بچہ دانی ) اور ovary ( بیضہ دانی ) جیسے اعضاء موجود ہوتے ہیں. سرجری کے بعد وہ نارمل لڑکی بن جاتے ہیں. اعضائی نقائص کے حامل بچوں میں سے ایسے بچوں کی تعداد اٹھانوے فیصد ہوتی ہے.
4....... ایسے بچے جن کی پیدائش کے وقت چھوٹا سا سوراخ یا ہلکا سا ابھار ہوتا ہے. ایسے بچوں کے بارے میں ان کی ماؤں سمیت دیگر اہلِ خانہ شدید کنفیوژن اور تذبذب کا شکار ہوتے ہیں. کچھ اپنی دانست میں انہیں بیٹا قرار دیتے ہیں اور کچھ بیٹی. بسااوقات ہوتا یہ ہے کہ والدین ایک بچے کو بیٹی سمجھ کر پرورش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ حقیقت میں میں بیٹا ہوتا ہے. بعض اوقات والدین ایک بچے کو بیٹا سمجھ کر پال رہے ہوتے ہیں مگر وہ حقیقت میں بیٹی ہوتی ہے. وقت کے ساتھ ساتھ بچے خود کو وہی صنف سمجھنے لگتے ہیں جو ان کے والدین اور اہلِ خانہ طے کرتے ہیں.
ٹیسٹ پراسس کے بعد ڈاکٹر یہ طے کرتا ہے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی. جنس کے تعین کے بعد مختلف طرح کی ہارمون تھراپی اور انجیکشنز کے بعد جنسی عضو ڈیویلپڈ ہوتا ہے. اس کے بعد متعدد آپریشنز کیے جاتے ہیں. جن کے نتیجے میں وہ نارمل لڑکا یا لڑکی بن جاتے ہیں.
اگر انٹر سیکس علاج سے محروم رہ جائے تو معاشرے میں اسے جسمانی نقائص کی وجہ سے تضحیک، ٹھٹھول اور تمسخر کا سامنا کرنا پڑتا ہے. یہ وہ طبقہ ہے جو رحم، حسنِ سلوک اور اچھے رویے کا متقاضی ہے. اس طبقے کے حقوق کے قانونی تحفظ کے لئے کوشش کی ضرورت ہے.
دوسرا لفظ Transgender ہے. ٹرانس جینڈر پیدائش کے وقت سو فیصد نارمل انسان ہوتا ہے. لڑکا ہے تو مکمل لڑکا اور لڑکی ہے تو مکمل لڑکی. کچھ عمر گزرنے کے بعد اسے ایک نفسیاتی بیماری لاحق ہوجاتی ہے جسے جینڈر ڈس فوریا ( gender dysphoria ) کہا جاتا ہے. اس بیماری کے زیرِ اثر وہ خود کو مختلف صنف سمجھنے لگتا ہے . لڑکا ہے تو خود کو لڑکی جبکہ لڑکی ہے تو خود کو لڑکا سمجھنے لگتی ہے.
ایسے لوگوں کا نفسیاتی طور پر علاج کیا جاتا ہے. جس کے بعد وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں.
ساری گفتگو سے یہ معلوم ہوا کہ ٹرانس جینڈر بنیادی طور پر عام انسانوں کی طرح نارمل اور جسمانی نقائص سے مبرا جبکہ انٹرسیکس جسمانی نقائص لے کر پیدا ہوتا ہے. لگے ہاتھوں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں جسے ہیجڑا، خواجہ سرا یا مخنث کہا جاتا ہے وہ دراصل انٹر سیکس ہے نہ کہ ٹرانس جینڈر.
ان تفصیلات کی روشنی میں بآسانی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اصل میں تحفظ کی ضرورت انٹر سیکس ( ہیجڑا، مخنث، خواجہ سرا ) کو ہے نہ کہ ٹرانس جینڈر کو . کیونکہ انٹر سیکس کو ہی معاشرے میں برے رویے کا نشانہ بنایا جاتا ہے. ٹرانس جینڈر جسمانی طور پر نارمل ہونے کی وجہ سے تمسخر اور استہزا اڑائے جانے سے محفوظ رہتا ہے.
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر بل کا نام ٹرانس جینڈر کیوں رکھا گیا ؟
جواب یہ ہے کہ شیریں مزاری صاحبہ اور ان کے ہمنوا انگریزی سے اس قدر نابلد تو ہیں نہیں کہ انہیں ٹرانس جینڈر اور انٹرسیکس میں فرق معلوم نہ ہو. بات ساری یہ ہے کہ اگر بل کا نام انٹر سیکس رکھا جاتا تو ٹرانس جینڈر نامی مخلوق کے لئے ایک خاص طرح کا چور دروازہ کھلا چھوڑنا ممکن نہ ہوتا. چور دروازے کے بارے میں آنے والی سطور میں بات کرتے ہیں.
اب تک کی تمام گفتگو سے معلوم ہوا کہ بل کا نام ہی غلط ہے. اصل میں انٹر سیکس کے نام سے بل پاس کیا جانا چاہیے تھا . ایسا ہوتا تو تنازع کبھی بھی سر نہ اٹھاتا اور حقیقی مظلوموں کی اشک شوئی بھی ہوجاتی . یہ نتیجہ بھی نکلا کہ بل کو ٹرانس جینڈر کا نام دے کر مخصوص نتائج حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انٹرسیکس یعنی خواجہ سراؤں کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے. نام ان کا استعمال کیا گیا مگر تحفظ کسی اور طبقے کو فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے.
اب آتے ہیں اصل نکتے کی طرف.
اس وقت بل کے حوالے سے دو فریق ہیں. ایک فریق کا کہنا ہے کہ بل میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دیے جانے کا پہلو نکلتا ہے . دوسرے فریق کے مطابق بل میں ایسی کوئی بات نہیں.
حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو خدشات بالکل بجا ہیں. واقعی اس قانون کے چور دروازے سے ہم جنس پرستی کی دنیا میں قانونی طور پر قدم رکھنا ممکن ہے.
آئیے ہم بل کی عبادت پڑھتے اور اس پہ غور کرتے ہیں.
شق نمبر 3 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک کی عبارت ہے :
A transgender person shall have a right to be recognized as per his or her self-perceived gender identity, as such, in accordance with the provisions of this act.
یعنی ٹرانس جینڈر کو اس بات کا حق حاصل ہوگا کہ اس کے اپنے زعم یا خیال کے مطابق اس کی صنفی شناخت تسلیم کی جائے.
شق نمبر 3 کی ذیلی دفعہ نمبر دو کچھ یوں ہے :
A person recognized as transgender under sub-section (1) shall have a right to get himself or herself registered as per self-perceived gender identity with all government departments including, but not limited to NADRA.
یعنی وہ شخص جسے ذیلی دفعہ نمبر ایک کے تحت ٹرانس جینڈر تسلیم کیا گیا ہے، اسے اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خود کو ازخود طے کردہ صنف کے مطابق رجسٹر کروا لے. وہ یہ رجسٹریشن نادرا سمیت تمام سرکاری شعبہ جات میں کروا سکے گا.
دونوں ذیلی دفعات اول تا آخر لفظ بہ لفظ نقل کی گئی ہیں. یہ اس لئے کہا تاکہ کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ بات ادھوری ہے یا سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کی گئی ہے. دونوں ذیلی شقوں میں استعمال ہونے والا لفظ self-perceived معاملے کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے. اس لفظ کا مطلب ہے کہ کسی شخص کا اپنی ذات کے بارے میں ازخود کوئی تصور قائم کرنا.
آپ نے دیکھا کہ ان دفعات میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد یا عورت ازخود اپنی کوئی سی بھی صنف طے کر لے اور اس کے بعد نادرا سمیت کسی بھی سرکاری شعبے میں جاکر اس صنف کے مطابق رجسٹریشن کا کہے تو نادرا سمیت تمام شعبے اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اسے مزعومہ شناخت کے مطابق رجسٹر کریں. نادرا اسے اس کی کہی ہوئی صنف کے مطابق شناختی کارڈ بنا کر دے گا.
آسان لفظوں میں یوں کہیے کہ کسی مرد کو یہ وہم ہوجائے کہ وہ مرد نہیں بلکہ عورت ہے. اس کے بعد وہ سیدھا نادرا کے دفتر میں پہنچے اور وہاں کے عملے سے کہے کہ جناب میں مرد نہیں بلکہ عورت ہوں تو نادرا چپ چاپ اسے عورت قرار دے کر شناختی کارڈ تھما دے گا. اسی طرح کوئی عورت ایسا کرے تو اسے مردانہ شناختی کارڈ بنا کر دیا جائے گا.
بل میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ نادرا اسے پہلے میڈیکل بورڈ یا ڈاکٹروں کے پاس جانے کا کہے گا اور تصدیق کے بعد شناختی کارڈ کا اجرا کرے گا، بلکہ مذکورہ شخص کا کہنا ہی کافی ہوگا . نادرا سمیت دیگر شعبہ جات کو تحقیق کرنے یا طبی شواہد طلب کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا.
یہ ہے وہ چور دروازہ جہاں سے ہر جنس پرست انٹری مار سکتا ہے.
اسے یوں سمجھیے کہ ایک مرد نے نادرا سے خود کو عورت قرار دلوایا. اب وہ قانوناً عورت ہے جبکہ حقیقت میں مرد ہے. اب وہ کسی بھی مرد سے شادی کرنا چاہے تو اسے قانوناً نہیں روکا جاسکے گا. کیونکہ سرکار اسے اس کے کہنے کے مطابق عورت قرار دے چکی. اب یہ قانونی طور پر عورت اور مرد کی جبکہ حقیقت میں مرد کی مرد سے شادی ہوگی اور اسی کا نام ہم جنس پرستی ہے.
صاحبو! قانون میں کسی بھی طبقے کے لئے خفیہ طور پر گنجائش پیدا کرنی ہو تو واشگاف انداز میں سب کچھ لکھ کر بڑے بڑے پھاٹک نہیں بنائے جاتے ، بلکہ اسی طرح معاملات کو مبہم رکھ کر چھوٹے چھوٹے شگاف چھوڑے جاتے ہیں. یہی وہ شگاف ہوتے ہیں جہاں سے مجرم بآسانی انٹری مارتا اور بچ نکلتا ہے.
یہ تو اس بل کا صرف ایک پہلو ہے. سماجی طور پر اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں ، جن پہ گفتگو کی ضرورت ہے.

#نوازکمال
 
Top