سترھویں سالگرہ ًمشاعرہ اگست 2022۔۔۔آنکھوں دیکھا، کانوں سُنا تحریری حال

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
السلام علیکم معزز محفلین
ہماری خوش قسمتی ہے کہ اردو محفل کے نامی گرامی شعراء کا کلام سننے کا یہ دوسرا موقعہ ہمیں ملا ہے۔ اور ہم پچھلے سال کی طرح قلم کاغذ + ٹیبلٹ سامنے رکھے بیٹھے ہیں کہ آپ سب جو شاعری کا گلدستہ پیش کریں ، ہم ان گُلوں کو اپنی ٹک ٹک سے تحریری شکل دیتے جائیں۔ بس یوں سمجھیں کہ یہ بھی شاعری سے لگاؤ اور چاہت کی انتہا ہے کہ خود تو کوئی خیال شاعری کی صورت ذہن میں اترتا نہیں، تو آپ سب کا خوبصورت کلام ہی لکھ کر اس تمنا کو پورا کر لیتے ہیں۔
گھڑی کی سوئیاں آگے کو بڑھتی جا رہی ہیں اور انتظار کی گھڑیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مشاعرہ میں میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔۔ حسن محمود جماعتی
اور مہمان خصوصی ہیں ہمارے پیارے استاد محترم ۔۔۔۔۔۔اعجاز عبید (الف عین)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یہ کچھ نام ہیں جن کا کلام ہم سنیں گے۔ کچھ کو ساتھ میں دیکھا بھی جا سکتا ہے اور چند ایک بقول یاسر شاہ پس پردہ رہ کر اپنا کلام پیش کریں گے۔
سید اسد معروف
مقبول
محمل ابراھیم
فاخر
عبدالرؤوف
عظیم
فیصل عظیم فیصل
عباد اللہ
محمد شکیل خورشید
منیب احمد ۔ میم الف
صابرہ امین
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
محمد احسن سمیع راحل
سید عاطف علی
عرفان علوی
محمد خلیل الرحمٰن
اعجاز عبید ۔ الف عین
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جو نام لکھنے سے رہ گئے ہیں ۔ وہ ساتھ ساتھ شامل کر دیں گے۔
تمام معزز شعرا ء سے پیشگی معذرت چاہتے ہیں کہ اگر تیزی سے لکھنے کے دوران ہم سے کوئی املا کی غلطی ہو جائے یا کچھ لکھنے سے رہ جائے تو اسے بعد میں تدوین کر کے درست کر دیں گے۔
ویسے ہمیں اس شرمندگی سے بچانے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ جو محفلین اپنا کلام پیش کر لیں ، وہ ہمیں مکالمہ میں اپنا پیش کردہ کلام بھیج دیں۔
ہے نا آسان سا حل؟ عمل کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بالاخرانتظار کی گھڑیاں ختم ہو ہی گئیں۔
اور پورے منٹ لیٹ ہونے کے بعد مشاعرہ شروع ہونے جا رہا ہے۔
ا س تاخیر کی وجہ تو بعد میں جانیں گے اس وقت تو سارا دھیان ہے اس طرف

آن لائن عالمی محفل مشاعرہ
اردو محفل کی سترھویں سالگرہ کے موقع پر
20اگست 2022
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
تاکید یہ بھی کی کہ میں لکھتا رہوں خطوط
بھولوں نہ میں اسے یہ سزا دے گیا مجھے
یہ ہے وہ پہلی آواز جو سنائی دی۔۔۔ اس سے پہلے کے اشعار انھی سے لیں گے یعنی مقبول صاحب سے
مقبول کر گیا ہے عطا آگ ہجر کی
مانگا تھا میں نے کیا وہ ہے کیا دے گیا مجھے
(تدوین کے بعد مکمل غزلیں پیشِ خدمت ہیں )

کہتے ہیں لوگ، آ کے دوا دے گیا مجھے
پیالہ وُہ جب بھی زہر بھرا دے گیا مجھے

مانگا جو میں نے ہاتھ تو وُہ خود پسند شخص
اوقات میں رہوں ، یہ صلا دے گیا مجھے

جاتے ہو ئے کہا کہ عبادت ہے عشق بھی
خود بے وفا تھا درسِ وفا دے گیا مجھے

تاکید یہ بھی کی کہ میں لکھتا رہوں خطوط
بھولوں نہ میں اسے یہ سزا دے گیا مجھے

مقبول، کر گیا ہے عطا آگ ہجر کی
مانگا تھا میں نےکیا، وُہ ہےکیا دے گیا مجھے

واہ واہ بہت زبردست۔۔
واہ واہ کی گونج میں انھوں نے اپنی غزل ختم کی۔
ایک اور غزل سنانے کی تیاری میں ترنم کے ساتھ


اور دوسری غزل پیش کرتے ہیں۔۔۔۔
عشق کی گھات ابھی باقی ہے
دُکھ کی سوغات ابھی باقی ہے

ظلم کی رات گذر جائے بھی
ہجر کی رات ابھی باقی ہے

کھو چکا سب میں تری فرقت میں
دلِ بد ذات ابھی باقی ہے

اب تک آنکھوں سے بہے ہیں آنسو
خوں کی برسات ابھی باقی ہے

کیسے بھر سکتی ہے جھولی میری
اس کی خیرات ابھی باقی ہے

آزماتا ہے مجھے روز خُدا
کیا کوئی مات ابھی باقی ہے

روح پرواز کرے کیسے مری
اک ملاقات ابھی باقی ہے

تم نے تعریف سنی ہے اپنی
میری تو بات ابھی باقی ہے

اس کے پردے پہ ہی جاں جانے لگی
آنا بارات ابھی باقی ہے

سانس لینے سے مرے ہے ثابت
رب کی بھی ذات ابھی باقی ہے

کچھ گئی عمر گذر ہے مقبول
کچھ سِیَہ رات ابھی باقی ہے
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہمارے پیارے دلارے بھائی عبد الروؤف ۔۔۔ ما شاء اللہ

یکلخت غیر دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

اک سلسلہ سا چل رہا ہے عمر بھر سے یوں
وہ آزمائے مجھ کو اور اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا اٹھاؤں منتِ تیغ و سپر کو میں

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

بے داد ہی رہی گو سناتا گیا فغاں
گلشن کے پھول پھول کو ہر اک شجر کو میں

اس کا پڑے نہ پالا تغافل کے قہر سے
تڑپا ہوں جس کی عمر بھر اک اک نظر کو میں

شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

جس کے سبب ہوا ہوں میں آہ و فغاں میں طاق
اُس ہی پہ وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں

دوسری غزل

ہر شاخِ گل پہ رنگ نمایاں خزاں کا ہے
بے فکر غم سے دل ابھی بھی باغباں کا ہے

بکھرا ہوا پڑا ہے پڑا ہے زمیں پر جو ٹوٹ کر
ٹوٹا ہوا وہ تارا کسی کہکشاں کا ہے

میرا تو چہرہ زرد غموں کے سبب ہوا
لیکن یہ کیا کہ زرد یہ رنگ آسماں کا ہے

بے فائدہ تو غیر نہ مجھ کو ستائے گا
یہ کام تو حضور کسی مہرباں کا ہے

تم اضطرابِ دل کو برا جاننے لگے
اب خوف مجھ کو حادثہء ناگہاں کا ہے

کچھ جاننا نہیں ہے یہ بے دولتِ یقیں
دو پل کی لذتوں میں زیاں دو جہاں کا ہے

جو وسعتِ خیال سے بھی ہیں وسیع تر
کیوں تنگ مجھ پہ ہر قدم ایسے جہاں کا ہے

تو دل میں تھا تو مجھ پہ تھا تیرا ہی اختیار
اب دیکھ مجھ پہ کچھ اثر تیری زباں کا ہے؟

بہت زبردست روؤف بھائی۔۔۔ چھا گئے تُسی۔

محمد عبدالرؤوف بھائی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
عبدالروؤف بھائی کے بعد دعوت دی جا رہی ہے محترم عظیم صاحب کو۔۔۔

شاید موجود نہیں اس لئے
اب محمد خورشید شکیل صاحب کو دعوت دی گئی ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
سب کو السلام علیکم کہنے کے بعد غزل پیش کر رہے ہیں۔

عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی
انسیت پھر بڑھی ہے تھوڑی سی

اب تسلی ہوئی ہے تھوڑی سی
بات آگے چلی ہے تھوڑی سی

پھر تری یاد کے دریچے سے
زندگی دیکھ لی ہے تھوڑی سی

ان سے کچھ عشق وشق تھوڑا ہے
یونہی دیوانگی ہے تھوڑی سی

چار پل ان کے ساتھ جینے کو
زندگی مانگ لی ہے تھوڑی سی

شہر تاریک ہےبہت ہی شکیل
روشنی بانٹنی ہے تھوڑی سی

دوسری غزل۔۔۔

اب راہ میں رکوں کہ چلوں اپنے گھر کو میں
مبہوت دیکھتا ہوں ابھی راہ گزر کو میں

وہ اک نظر کہ ہوش سے بیگانہ کر گئی
بھولا نہیں ہوں آج تلک اس نظر کو میں

شاید ملے سراغ میرے گھر کا ہی۔۔۔
اب تک ٹٹولتا ہوں انھی بام و در کو میں

۔۔۔ناسپاس سے اٹھ کر بھی اے شکیل
حیران ہوں کہ جاؤں تو جاؤں کدھر کو میں

خوبصورت کلام خوبصورت انداز میں پیش کیا شکیل بھائی۔
ہماری نالائقی کہ کچھ الفاظ لکھنے سے چھوٹ گئے۔ آپ سے ہی پوچھ کر تدوین کریں گے ان شاء اللہ

محمد شکیل خورشید
 
آخری تدوین:
Top