ویران مسجد ( نشاط شاہدوی)

ویران مسجد

اے مرے ملحد ہمزاد تجھے لے جاؤں
ایک ویران سی مسجد میں جہاں کوئی نہیں
اپنے اجداد کی روحوں نے یہاں بوئے ہیں
ہچکیاں، نالے، پریشان دعا، اشک حزیں

فرش سے چمٹے ہوئے زہد کے سجدوں کے نقوش
خاک سے منبر و محراب کے شانے بوجھل
کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کی فضا میں لرزش
غیر مرئی سی تصاویر نظر سے اوجھل

وقت کا ہاتھ سفیدی کو کهرچتا ہی رہا
تیرگی جیسے جمی جاتی ہے دیواروں پر
نورِ تقدیس میں نہلائی ہوئی راتیں گئیں
اب چراغاں کوئی کرتا نہیں میناروں پر

طاق پہ ٹوٹا دیا، زاہد شب زندہ دار
اونگهتا رہتا ہے جلتا ہے جلا جاتا ہے
سرنگوں جادہء ہستی کے مسافر کی طرح
وقت کو روندتا چلتا ہے چلا جاتا ہے

برگ ہائے گل و ریحان یہاں بکهرے ہیں
ایک ٹوٹے ہوئے صندوق پہ بوسیدہ ورق
ان پہ حرفوں کے خد و خال ہیں دهندلائے ہوئے
جیسے ہنگامۂ ظلمت میں ہیں تابندہ ورق

قلبِ مہجور کی غم ناک صدائیں اب تک
اس کی خاموش فضاؤں میں پهریں آوارہ
سقف پارینہ، ابابیلوں کا مسکن آباد
بن گیا زخمِ نظر سوزِ جگر نظارہ

ہوگئے چور گراں بار تهکن سے گنبد
جهک گئی ہے در و دیوار کے پشتوں کی کماں
چهت کے سوراخ پهٹی چادریں اور ملبہء خشت
ان گنت گزرے ہوئے سالوں کے موہوم نشاں

مکڑیاں ماضی کے افسانے کو دہراتی ہیں
تانتی رہتی ہیں ہر گوشے میں سیمیں جالے
کون بتلائے یہاں کتنے نصیبے جاگے
نقشِ سنگیں کے لبوں پر تو پڑے ہیں تالے

اس جگہ خاک تخیل کے فسوں ہوتے ہیں
کفر و الحاد بهی سجدوں میں نگوں ہوتے ہیں

نشاط شاہدوی
 
Top