وہ کون ہے کہ کبھی سامنے بھی آتا نہیں

عظیم

محفلین


غزل



وہ کون ہے کہ کبھی سامنے بھی آتا نہیں
مگر جو دیکھو تو آنکھوں سے دور جاتا نہیں

ہزار جگہوں پہ دل کو لگا کے دیکھ لیا
مجھے اب اس کے سوا اور کچھ بھی بھاتا نہیں

بس اک رضا ہے جو اس کی، مجھے وہ ہے مطلوب!
جز اس کے اور تو میرا کچھ اس سے ناتا نہیں

نہ جانے کیا ہے کہ دنیا کے عیب دیکھتا ہوں
کسی بھی شخص پہ انگلی مگر اٹھاتا نہیں

بہت سے دکھ بھی ہیں پنہاں، یہ میرے سینے میں
مری طرح کوئی دنیا میں مسکراتا نہیں

میں خود کو مان کے بیٹھا ہوا ہوں شاعر ایک
مگر جو شعر ہے مجھ سے کہا وہ جاتا نہیں

ہے کچھ ضرور مگر مجھ کو علم کوئی کہاں
نظر تو آتا ہے سب کچھ، سمجھ میں آتا نہیں

نہ جانے کیا ہے یہ بندش کہ غم ہی ہے مقبول
جسے ہو عشق وہ بندہ کیوں گیت گاتا نہیں

مجھے تو خود سے شکایت ہے، اس کا کیا کہنا!
وہ پیار کرتا ہے ایسا کہ کچھ ستاتا نہیں

گزرتی جاتی ہے اچھے سے رسم و رہ اپنی
وہ روٹھتا نہیں مجھ سے تو میں مناتا نہیں



 
عظیم بھائی ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ اگر اس غزل کے ساتھ کچھ اور وقت گزارتے تو بہتر ہوتا۔
کئی مصرعوں میں تنافر بہت زیادہ کھٹک رہا ہے۔ کچھ مصرعوں میں غیر ضروری تعقید بھی نظر آئی ۔۔۔

مقطعے میں ’’اچھے سے‘‘نے تو حیران ہی کر دیا! ۔۔۔ لگتا ہے ہندی کااثراردو والوں میں اچھے سے سرائیت کر چکا ہے :)
 

عظیم

محفلین
عظیم بھائی ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ اگر اس غزل کے ساتھ کچھ اور وقت گزارتے تو بہتر ہوتا۔
کئی مصرعوں میں تنافر بہت زیادہ کھٹک رہا ہے۔ کچھ مصرعوں میں غیر ضروری تعقید بھی نظر آئی ۔۔۔

مقطعے میں ’’اچھے سے‘‘نے تو حیران ہی کر دیا! ۔۔۔ لگتا ہے ہندی کااثراردو والوں میں اچھے سے سرائیت کر چکا ہے :)
بہت شکریہ بھائی راحل آپ کے تبصرے کا
تین مصرعوں میں جو تنافر ہے اس کا مجھے غزل کہتے ہوئے بھی احساس تھا، لیکن افسوس کہ اس وقت بھی اس سے بچا نہیں گیا اور اب بھی کوئی متبادل سمجھ نہیں آ رہا، تعقید کہاں ہے اس کی آپ نے وضاحت نہیں کی! آخری شعر میں "اچھے سے" تو میں بھی حیران ہوں کہ واقعی اتنا ناگوار گزر سکتا ہے!
 
Top