وہ کب آئے گا؟

جاسم محمد

محفلین
08 ستمبر ، 2020
سہیل وڑائچ
وہ کب آئے گا؟
230178_7475353_updates.JPG

فائل فوٹو

اُس نے سیاست کرنی ہے تو اسے واپس تو آنا ہوگا، اُسے اچھی طرح سے علم ہے کہ اُس کا ووٹ بینک موجود ہے، اِس ووٹ بینک کو قائم رکھنا ہے تو اُس کے لئے قابلِ یقین بیانیے کی بھی ضرورت ہے۔ ووٹ بینک اُسی دن تک قائم رہتا ہے جس دن تک اُمید قائم رہے، اُمید ٹوٹ جائے تو ووٹ بینک بھی بکھر جاتا ہے۔ اُس نے اپنے ووٹر اور سپورٹر کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ دیا اس کے بعد سے بیماری، بیرونِ ملک روانگی اور خاموشی کا لمبا وقفہ آ گیاہے۔


اب وقت ہے کہ وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے خاموشی، بیماری اور بیرون ملک رہنے کا جواز دے۔ مخالف اس کی بیماری کو بہانہ بازی کہہ رہے ہیں، حکومت اور عدالت اُسے واپس بلا رہی ہے، ایسے میں چپ کا روزہ توڑنا ہوگا اور اگلے سیاسی اہداف طے کرنا ہوں گے، صاف لگتا ہے کہ وہ ابھی نہیں آئے گا، علاج کروائے گا، دل کا بائی پاس ہونا ہے اس کے مرحلے سے گزرے گا اور پھر سیاسی لائحہ عمل سوچے گا۔

ویسے بھی اسے کیا پڑی ہے کہ وہ واپس آئے، نہ تو کوئی تحریک چل رہی ہے، نہ الیکشن کا کوئی موسم ہے، نہ ملک کی سیاست میں تلاطم ہے، نہ حکومت اور ریاستی اداروں میں کسی خلیج کی کوئی خبر آ رہی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بےچینی موجود ہے مگر ابال کی سطح پر نہیں، ایسا نظر نہیں آ رہا کہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے والے ہیں۔ ایسے میں وہ کیوں نہ بےفکری سے لندن میں آرام کرے، علاج کروائے، اپنی یادداشت کھوتی ماں کے ساتھ وقت گزارے، موقع ملے تو ہائیڈ پارک میں سیر کرے، اہلِ خانہ کے ساتھ کافی پیے یا کھانے کھائے۔

وہ یہاں آتا ہے تو سیدھا جیل جائے گا، وہی عدالتوں اور حاضریوں کے چکر، وہی جزا و سزا کا معاملہ، پہلے بھی بیمار ہوا اور اس قدر شدید بیمار کہ حکومت کو خود اسے جیل سے نکال کر اسپتال داخل کروانا پڑا تھا، مشکل سے اس صورتحال سے جان چھوٹی تھی پھر سے کیوں اسی حال میں چلا جائے، وہ کیوں نہ انتظار کرے کہ حالات میں کچھ تبدیلی آئے، کوئی اختلاف پیدا ہو، سیاست میں گرمی آئے، عدالتی، انتظامی یا ریاستی عہدیداروں میں اس کے حق میں کوئی تبدیلی آجائے، فی الحال وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے اور اسے یہی پالیسی سوٹ کرتی ہے۔

دریں اثنا پارک لین لندن کے 3 فلیٹس کو 2 فلیٹوں میں تبدیل کر دیا گیا، چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں مگر گزارہ ہو رہا ہے، حسن کا خاندان تو وہیں رہتا ہے حسین کی فیملی بھی آج کل وہیں مقیم ہے۔ ضرورت پڑنے پر اسی بلڈنگ کا ایک اور فلیٹ بھی کرائے پر لے لیا جاتا ہے، جگہ کم ہونے اور مہمان آنے پر بعض دفعہ گدے ڈال کر بھی کام چلایا جاتا ہے۔

لوگ اسے سادہ کہیں، بھولا سمجھیں یا اسے خوش نصیب قرار دیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت گہرا ہے، ہر شخص سے سیاست پر مشورہ کرتا ہے مگر اپنے دل میں کیا ہے اس کا کسی کو معلوم نہیں ہونے دیتا۔ 1983سے لیکر 2020 تک کے 37سال میں اس نے اپنے ووٹ بینک کو مسلسل بڑھایا ہے اور اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا ہے، اسے اکنامکس کے پیچیدہ فارمولوں کا علم ہو نہ ہو، عوام کی خوشحالی کے فارمولے کا علم ہے۔ اسے انجینئرنگ کی ڈرائنگز کا علم ہو نہ ہو، تعمیرات اور سڑکوں کی اہمیت کا علم ہے۔ اسے علمِ سیاسیات کے ابواب سے آگاہی ہو نہ ہو یہ ضرور علم ہے کہ کب بولنا ہے اور کب سیاسی طور پر خاموش رہنا ہے۔

وہ کئی بار مشکلوں سے گزرا، پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل سیاسی طور پر خودکشی کے مترادف تھی مگر اس نے اسے حرمین شریفین میں بلائے جانے کے بیانیے میں ایسا ملفوف کیا کہ کئی سال تک جلاوطنی یا ڈیل کے درمیان فرق ہی محسوس نہ ہو سکا فی الحال بھی نواز شریف کی پُراسرار خاموشی کا سبب سراسر سیاسی مصلحت ہے، وہ زبان اسی وقت کھولے گا جب سیاسی موسم اسے سوٹ کرے گا۔

وہ پرانی وضع کا سیاست دان ہے، ٹھنڈا ٹھنڈا چلتا ہے مگر اس کی سیاست کی ٹائمنگ کمال کی ہے، وہ ٹائمنگ میں صرف ایک بار ’’چوکا‘‘ ہے جب تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد اس نے جے آئی ٹی کے پاس اپنی حاضری کو بلا تامل قبول کر لیا وگرنہ اس کے بیشتر سیاسی فیصلے چاہے جونیجو سے علیحدگی ہو، غلام اسحاق خان سے لڑائی ہو، فاروق لغاری کے خلاف امپیچمنٹ ہو، سب کی ٹائمنگ بہت اچھی تھی۔

اطلاع یہی ہے کہ وہ سیاسی حالات کا مسلسل جائزہ لیتا رہتا ہے، اسے علم ہے کہ لمبی خاموشی اور طویل وقفہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، اسے یا تو واپس آنا ہے یا بولنا ہے؟ وہ فی الحال واپس نہیں آ سکتا تو بیٹی اور بھائی کو تو متحرک کر سکتا ہے، فی الحال وہ بیٹی کے ذریعے مزاحمتی اور بھائی کے ذریعے مفاہمتی بیانیے کو جاری رکھے گا۔

سیاست کے فیصلہ کن موڑ پر وہ طے کرے گا کہ کونسا بیانیہ سوٹ کرتا ہے اورپھر اس بیانیے پر عمل کرے گا۔ اسے سیاسی مسئلے کے علاوہ وراثتی مسئلہ بھی درپیش ہے۔ وہ یہ تو فیصلہ کر چکا ہے یا پھر یہ فیصلہ خود بخود ہو گیا ہے کہ اس کے اپنے بچوں میں سے صرف مریم ہی سیاست کرے گی، حسین اور حسن نواز شریف فی الحال اپنے کاروبار ہی کریں گے۔ یہ بھی طے ہے کہ پارٹی کی صدارت شہباز شریف کے پاس رہے گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی آپس میں سیاسی ایڈجسٹمنٹ کیسے ہو۔ شہباز شریف نے لندن میں میاں نواز شریف کو یہ معاملہ طے کرنے کو کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ فیملی سربراہ کے طور پر آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ مجھے اور حمزہ دونوں کو سو فیصد قبول ہو گا۔ مریم نواز کو بھی اس مسئلے کا علم ہے اور وہ بھی حمزہ شہباز شریف کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتیں۔

دیکھیں میاں نواز شریف اس حوالے سے اب کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کب کرتے ہیں؟

وہ سود و زیاں کو بخوبی جانتا ہے مگر سیاست کا یہ موڑ خطرناک ہے۔ ایک طرف کرپشن کے مقدمات، سزائیں اور جیل ہے دوسری طرف ریاستی اداروں سے قائم ڈیڈ لاک بھی جلدی ختم ہوتا نہیں نظر آتا۔ اسی طرح ستمبر اکتوبر میں آپریشن کے بعد زیادہ دیر بیرون ملک رہنا بھی سیاسی طور پر غیر سودمند ہوگا، واپس آتا ہے تو جیل، وہاں رہتا ہے تو اپنوں اور بیگانوں کے طعنےسننا پڑیں گے۔ اس مشکل صورتحال کا سامنا آپریشن کے بعد ہوگا دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ اس سے کیسے نکلتا ہے۔ آسان نسخہ تو یہ ہے کہ وہ لندن میں بیٹھے ہی بولنا شروع کر دے۔ یہیں سے سیاسی طور پر سرگرم ہو جائے مگر اس سے بھی کئی پیچیدگیاں توپیدا ہوں گی۔

وزیراعظم عمران خان نے جولائی تا دسمبر کے چھ ماہ کو اپنی حکومت کے لئے انتہائی اہم قرار دیا تھا، اپوزیشن کے لئے بھی یہ چھ ماہ بہت اہم ہیں۔ اپوزیشن کی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور صرف حکومت کی غلطیوں پر انحصار کرنے کی پالیسی فرسودہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو اس چھ ماہ میں کچھ کرکے دکھانا حکومت کے لئے چیلنج ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کے لئے بھی عملی طور پر متحرک ہو کر کچھ کر دکھانے کا وقت ہے۔ اگر صرف حکومت کی غلطیوں پر انحصار رہا تو اپوزیشن کا انتظار کافی لمبا بھی ہو سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
09 ستمبر ، 2020
سلیم صافی
حکومت اور اپوزیشن
پاکستان تحریک انصاف کو دو حوالوں سے باقی جماعتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ ایک تو اسے، ایسا رہنما ملا ہوا ہے جو سلیبرٹی اور سیماب صفت ہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ وہ خالص میکاولین فلسفے پر عمل پیرا ہیں اور اس بات کو رتی بھر ذہن میں نہیں لاتے کہ کل کیا کہہ رہے تھے اور آج کیا کہہ رہے ہیں۔

وہ اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں کہ وہ بات کریں اور کام کریں، جس سے لوگ واہ واہ کرنے لگ جائیں۔ بےشک وہ کام یا وہ بات ناممکن یا ملک کے مفاد کے منافی (اسامہ بن لادن والی بات)ہو یا ان کے ماضی کے دعوئوں کے یکسر منافی ہو لیکن اگر اس پر لوگوں کی طرف سے شاباش ملتی ہے تو وہ اس کام یا بات کو کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

دوسری سبقت پی ٹی آئی کو پروپیگنڈے کے میدان میں حاصل ہے۔ یہ پارٹی چونکہ میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے بنائی اور اقتدار میں آئی ہے، اس لئے اس کے قائد سے لے کر ورکر تک ہر بندہ پروپیگنڈے کا ماہر ہے۔ وہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس ایک وزارتِ خزانہ تو نہیں، لیکن وزیراعظم سے لے کر معاونین خصوصی تک ہر بندہ وزیر اطلاعات ہے۔ پارٹی اور صوبائی حکومتوں کے ترجمانوں کو ساتھ ملا لیا جائے تو اس حکومت میں وزرائے اطلاعات یا گوئبلز کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے۔ یہ حکومت میڈیا پر برہم بھی ہے لیکن میڈیا کو جس طرح اس نے قابو کررکھا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہاکی یا فٹ بال کے کیس کو مثال بنایا جائے تو ہر حکومت میں صحافت اور سیاست کا میچ حکومتی ہاف میں گرم رہتا ہے لیکن پی ٹی آئی اقتدار میں ہوکر بھی گیم کو اپوزیشن کے ہاف میں گرم رکھنے میں کامیاب ہے۔ وہ ہر وقت مصلحتوں کی شکار اپوزیشن پر حملہ آور رہتی ہے اور اپوزیشن اپنی صفائیاں دیتی پھرتی ہے۔

یوں پی ٹی آئی کی بیڈ گورننس اور ہر طرف جاری خاموش تباہی کا سیاست میں مناسب تذکرہ ہوتا ہے اور نہ صحافت میں۔ تازہ ترین مثال کابینہ کی طرف سے غیرملکی شہریت کے حامل لوگوں کو الیکشن لڑنے کا حق دینے کا فیصلہ ہے۔ چین یا انڈیا میں تو ایسا ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن غیرملکی افواج کی موجودگی میں افغانستان جیسے ملک کا بھی جو آئین بنا ہے، اس کی رو سے غیرملکی شہریت رکھنے والا رکن پارلیمنٹ یا وزیر مشیر نہیں بن سکتا۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے سرپرستوں کے شوروغوغا سے ہی ایک وزیراعظم ایک دوست ملک کا اقامہ رکھنے کی وجہ سے نااہل ہوئے ہیں لیکن اب خان صاحب کی اپنی کابینہ امریکہ اور برطانیہ کی شہریت کے حامل لوگوں سے بھری پڑی ہے۔

ضد ملاحظہ کیجئے کہ اس دوران کابینہ نے غیرملکی شہریت رکھنے والوںکو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا لیکن اپوزیشن خاموش ہے کیونکہ نون لیگ کو نواز شریف کی واپسی کے قضیے میں الجھا دیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اس کی دکھتی رگ سندھ میں۔ وزیراعظم اعلان کررہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل چین سے وابستہ ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں کو امریکہ اور برطانیہ کے شہریوں سے یا پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندوں سے بھرا جارہا ہے لیکن اپوزیشن میں اتنی سکت نہیں کہ ملکی سلامتی اور مستقبل کے ساتھ اس کھلواڑ کو ایشو بنا سکے۔

سچ تو یہ ہے کہ موجودہ اپوزیشن کو اپوزیشن کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے اپنی اپنی دکھتی رگ دکھا دی ہے اور اب جب وہ ہلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی ان دکھتی رگوں کو چھیڑا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی دکھتی رگ قیادت کے کیسز اور سندھ حکومت ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی دکھتی رگ گڈکاپ اور بیڈ کاپ یا ڈبل گیم کی سیاست اور شریف خاندان کے کیسز ہیں۔ دونوں کی قیادت اس انتظار میں ہے کہ عمران خان کو ملنے والا این آر او ختم ہو جائے گا اور نتیجتاً نظر کرم ان پر پڑجائے گی لیکن یہ نہیں سوچتے کہ این آر او دینے والوں کو عمران خان سے تکلیف کیا ہے جو ان سے لے کر ان کو این آر او عنایت کردیں۔ پیپلز پارٹی نے تو تابعداری انتخابات سے پہلے شروع کی تھی۔

انتخابات کے بعد بھی اگر پیپلز پارٹی تابعداری نہ کرتی تو موجودہ حکومتی بساط کبھی بھی اس شکل میں نہیں بچھ سکتی تھی لیکن پھر بھی جب قیادت زیر عتاب آئی تو نمائشی اپوزیشن شروع کردی لیکن یہ نمائشی اپوزیشن بھی این آر او دینے کی صلاحیت رکھنے والی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہوتی ہے اور بنیادی پیغام یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ عمران خان کو ملنے والا این آر او ختم کرکے ہمیں دے دیں تو ہم ان سے اچھا ڈیلیور کرسکتے ہیں تاہم وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ گاہے گاہے کی اپوزیشن بھی ان کو این آر او کے لئے ڈسکوالیفائی کرلیتی ہے۔ نون لیگ کا معاملہ تو پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے راستے الگ الگ ہیں۔

اصل مقابلہ دونوں کی اولاد میں ہے لیکن جہاں تک بھائیوں کا تعلق ہے یہ باقاعدہ اور سوچی سمجھی تقسیم ہے جس کے تحت گڈکاپ اور بیڈ کاپ کھیلا جارہا ہے۔ قبل از انتخابات اور بعدازانتخابات نون لیگ کی سیاست کا لب لباب بھی یہی ہے کہ وہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگر عمران خان کو ملنے والا این آر او ختم کرکے ان کو دیا جائے تو وہ ان سے بہتر ڈیلیور کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی جب ان کو مار پڑتی ہے تو مریم نواز اور نواز شریف کا انقلابی بیانیہ مخصوص وقت کیلئے روبہ عمل لایا جاتا ہے تاہم اس جزوقتی اپوزیشن کی وجہ سے این آر او ملنے کے امکانات معدوم اور عمران خان کو ملنے والے این آر او کی گرہیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اب جب شہباز شریف مفاہمت کی بات آگے بڑھاتے ہیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور جب مریم نواز انقلابی بیانیہ کے ساتھ میدان میں آتی ہیں تو لوگ اس پر یہ سوچ کر یقین نہیں کرتے کہ کوئی رعایت ملنے کے بعد پھر غائب ہوجائیں گی۔

یوں اس وقت یہ ملک اللہ کے سہارے چل رہا ہے۔ ہم تاریخ کے عجیب دور سے گزر رہے ہیں کہ اس ملک میں حکومت ہے اور نہ اپوزیشن۔ یا کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومتی رویہ حکومت والا نہیں بلکہ اپوزیشن والا ہے جبکہ اپوزیشن کی کوئی ادا اپوزیشن والی نہیں۔

حکومت کو ملک اور عوام کے اصل ایشوز سے دلچسپی ہے اور نہ اپوزیشن کو۔ حکومت کی صرف میڈیا اور نام نہاد اپوزیشن پر نظر ہے جبکہ اپوزیشن کی صرف اپنی قیادت کے مسائل پر۔ ہم پہلی مرتبہ ایک ایسے عجیب دور سے گزر رہے ہیں کہ عوام حکومت کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور اپنی ترجمانی کے لئے اپوزیشن کو بھی۔ یا اللہ اس ملک پر رحم فرما۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ حکومت میڈیا پر برہم بھی ہے لیکن میڈیا کو جس طرح اس نے قابو کررکھا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
واقعی یہ پہلی حکومت ہے جو جمہوریت پسند صحافیوں کی جھوٹی خبروں کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیتی ہے۔
'جمہوریت پسند خواتین صحافیوں کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے'
اگر ہاکی یا فٹ بال کے کیس کو مثال بنایا جائے تو ہر حکومت میں صحافت اور سیاست کا میچ حکومتی ہاف میں گرم رہتا ہے لیکن پی ٹی آئی اقتدار میں ہوکر بھی گیم کو اپوزیشن کے ہاف میں گرم رکھنے میں کامیاب ہے۔ وہ ہر وقت مصلحتوں کی شکار اپوزیشن پر حملہ آور رہتی ہے اور اپوزیشن اپنی صفائیاں دیتی پھرتی ہے۔
یہ اسلئے کیونکہ اپوزیشن سابقہ ادوار میں بار بار باریاں لینے کے بعد ا س حکومت پر تنقید کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔
یوں پی ٹی آئی کی بیڈ گورننس اور ہر طرف جاری خاموش تباہی کا سیاست میں مناسب تذکرہ ہوتا ہے اور نہ صحافت میں۔
سارا دن لفافہ میڈیا اس حکومت کو نااہل اور ناکام ثابت کرکے سوتا ہے۔ اگلی دن حکومت جوں کی توں پھر وہیں موجود ہوتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اب جب شہباز شریف مفاہمت کی بات آگے بڑھاتے ہیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور جب مریم نواز انقلابی بیانیہ کے ساتھ میدان میں آتی ہیں تو لوگ اس پر یہ سوچ کر یقین نہیں کرتے کہ کوئی رعایت ملنے کے بعد پھر غائب ہوجائیں گی۔
یعنی پوری کی پوری اپوزیشن خود نااہل ہے مگر الزام حکومتی نااہلی کا 24 گھنٹے لگاتی ہے۔
جبکہ اپوزیشن کی صرف اپنی قیادت کے مسائل پر۔
جب اپوزیشن حکومت میں تھی تب بھی اس کی نظر صرف اپنی قیادت کے فوائد پر مرکوز تھی۔ اسی لئے تو اس انجام کو پہنچی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
10 ستمبر ، 2020
اویس یوسف زئی
نواز شریف اتنے عرصے سے لندن میں ہیں، اسپتال بھی داخل نہیں ہوئے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سرینڈر کرنے کیلئے دی جانے والی مہلت ختم ہوگئی اور نواز شریف نے سرنڈر نہيں کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کی اور اس دوران سابق وزیراعظم کو دی گئی مہلت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ عدالت نے سماعت کے دوران کہا ہے اس قانونی نکتے پر عدالت کی معاونت کریں کہ کیا اشتہاری ملزم کے سرینڈر کیے بغیر کسی دوسرے کیس میں اس کی درخواست سنی جا سکتی ہے یا نہیں؟

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف 19 نومبرکو بیرون ملک گئے، 4 ہفتے کی مدت دسمبر میں ختم ہوئی اور وفاقی حکومت نے ابھی تک ان کی صحت معلوم کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا آج عدالت کے سامنے صرف یہ سوال ہے کہ اشتہاری ہونے کے بعد کیا ہم نواز شریف کی درخواست پر سماعت کر سکتے ہیں؟ اشتہاری ملزم کا سرینڈرکرنا ضروری ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جس ڈاکٹر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا وہ تو خود امریکا میں ہیں جبکہ نواز شریف گزشتہ سات آٹھ ماہ سے لندن میں ہیں اور اسپتال بھی داخل نہیں ہوئے۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس متعلق میں پہلے بھی عدالت کو بتا چکا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی درخواست اور اپیلیں سنی جائیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اس کے لیے ہم پہلے مفرور ڈیکلیئر کریں گے اور پھر اپیل سنیں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ انڈرٹیکنگ میں واضح لکھا ہےکہ ہائی کمیشن کےنمائندے کے ذریعے صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے نواز شریف کی صحت کا معلوم نہیں کیا کیونکہ وہ اسپتال میں داخل نہیں اور علاج ہوا ہی نہیں۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف کو موقع دیا تھا کہ وہ سرینڈر کریں، ابھی تک نوازشریف کو حاضری سے استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں کہ اگرایک کیس میں کوئی اشتہاری ہوجائےتو کیا دوسرے کیس میں اس کو سناجاسکتا ہے؟ اسی نکتے پر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے بطور حوالہ جات جمع کرا ئیں اور آئندہ سماعت پر دلائل دیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

علاوہ ازیں قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت منسوخی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور گرفتاری کی اجازت مانگی ہے۔

درخواست میں کہا کہ نواز شریف نے سزا معطلی کے بعد اس رعایت کا غلط استعمال کیا، بیرون ملک جا کر مفرور ہو گئے، ضمانت منسوخ کر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید تھے، تاہم 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے تینوں کی سزائیں معطل کرکے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے، جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔
 
Top