وہ پیارے خطاب ہیں جن کا مزہ اہل محبت جانتے ہیں

رضا

معطل
[FONT=Al_Mushaf]بسم اللہ الرحمن الرحیم[/FONT]
اللہ عزوجل کا انبیاء کو خطاب فرمانا اور اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خطاب فرمانا۔ وہ پیارے خطاب ہیں جن کا مزہ اہل محبت جانتے ہیں
آیت سادسہ : قال جلت عظمتہ :یٰا دم اسکن انت و زوجک الجنۃ ۲؂
چھٹی آیت : اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم !تو اور تیری بیوی جنت میں رہو ۔(ت)
(۲؂ القرآن الکریم ۲/ ۳۵ )
وقال تعالییا نوح اھبط بسلام منا۳؂۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام ۔
(۳؂القرآن الکریم ۱۱/ ۴۸)
وقال تعالی :یا ابراھیم قد صدقت الرؤیا۴؂ ۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا ۔
(۴؂القرآن الکریم ۳۷/ ۱۰۵ )
وقال تعالییموسی انی انا اللہ۵؂ ۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا بے شک میں ہی ہوں اللہ (ت)۔
(۵؂ القرآن الکریم۲۸ /۳۰ )
وقال تعالییٰعیسٰی اِنِّی مُتَوفِّیک۶؂۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا اے عیسی میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا۔ (ت)
(۶؂ القرآن الکریم۳/ ۵۵)
وقال تعالییاداؤد انا جعلنک خلیفۃ۷؂۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا اے داؤد بے شک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا۔(ت)
(۷؂ القرآن الکریم ۳۸ /۲۶)
وقال تعالییا زکریا انا نبشرک۱؂
اور اللہ تعالی نے فرمایا اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں۔(ت)
(۱؂ القرآن الکریم ۱۹ /۷)
وقال تعالییایحیی خذ الکتاب بقوۃ۲؂ ۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا اے یحیی کتاب مضبوط تھام ۔(ت)
(۲؂القرآن الکریم۹ /۱۲)
غرض قرآن عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے مگر جہاں محمد رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے خطاب فرمایا ہےحضور کے اوصاف جلیلہ و القاب حمیدہ ہی سے یادکیا ہےیٰا یھا النبی انا ارسلنک ۳؂۔
اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔
(۳؂ القرآن الکریم ۳۳/ ۴۵)
یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک۴؂۔
اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔
(۴؂ القرآن الکریم ۵/ ۶۷)
یا یھا المزملoقم الیل۵؂۔
اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے رات میں قیام فرما۔
(۵؂ القرآن الکریم۷۳ /۱ و۲)
یایھا المدثر oقم فانذر ۶؂۔
اے جھرمٹ مارنے والے کھڑا ہو ،لوگوں کو ڈر سنا۔
(۶؂ القرآن الکریم۷۴/ ۱ و ۲)
یٰسo و القرآن الحکیم oانک لمن المرسلین ۷؂۔
اے یٰس یا اے سردار مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مرسلوں سے ہے ۔
(۷؂ القرآن الکریم۳۶ /۱تا۳ )
طہ oماانزلنا علیک القرآن لتشقی۸؂۔
اے طہ! یا اے پاکیزہ رہنما ! ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑے ۔
(۸؂ القرآن الکریم۲۰ / ۱ و ۲ )
ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں اور ان خطابوں کو سنے گا بالبداہت حضور سید المرسلین و انبیائے سابقین کا فرق جان لے گا ع
یا دم ست با پدر انبیاء خطاب
یایھا النبی خطاب محمد است
(''اے آدم!'' نبیوں کے باپ کے لیے خطاب ہے ۔اور محمد مصطفٰی صلی تعالی علیہ وسلم کے لیے خطاب ہے۔ ''اے نبی'' ۔ت )
امام عزالدین بن عبد السلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں بادشاہ جب اپنے تمام امرا کو نام لےکر پکارے اور ان میں خاص ایک مقرب کو یوں ندا فرمایا کرے اے مقرب حضرت اے نائب سلطنت ،اے صاحب عزت ،اے سردار مملکت ___تو کیا کسی طرح محل ریب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہ سلطانی میں سب سے زیادہ عزت و وجاہت والا اور سرکار سلطانی کو تمام عمائد و ارکین سے بڑھ کر پیارا ہےفقیر کہتا ہے غفراللہ تعالی لہ ،خصوصایا یھا المزمل۱؂،اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے۔(ت)
(۱؂ القرآن الکریم ۷۳ /۱ )
ویٰایھا المدثر۲؂ ۔
اے جھرمٹ مارنے والے ۔(ت)
(۲؂ القرآن الکریم ۷۴ /۱)
تووہ پیارے خطاب ہیں جن کا مزہ اہل محبت جانتے ہیں ان آیتو ں کے نزول کے وقت سید عالم صلی تعالی علیہ وسلم بالا پوش اوڑھے ،جھرمٹ مارے لیٹے تھے ،اسی وضع و حالت سے حضور کو یاد فرما کر ندا کی گئی ،بلا تشبیہ جس طرح سچا چاہنے ولا اپنے پیارے محبوب کو پکارے :او بانکی ٹوپی والے ،او دھانی دوپٹے والے ع
او دامن اٹھا کے جانے والےفسبحان اللہ و الحمد و الصلواۃ الزھراء علی الحبیب ذی الجاہ ۔اللہ تعالی کو پاکی ہے اور تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں اور روشن درود وجاہت والے محبوب پر ۔( ت)
 

رضا

معطل
ثم اقول (پھر میں کہتا ہوں ۔ت)نہایت یہ ہے کہ اشقیائے یہود مدینہ و مشرکین مکہ جو حضور سے جاہلانہ گفتگو میں کرتے ۔ان مقالات خبیثہ کو بغرض رد و ابطال و مژدہ رسانی عذاب و نکال بار ہا نقل فرمایا گیا مگر ان گستاخوں کی اس بے ادبانہ ندا کا کہ نام لے کر حضور کو پکارتے ۔محل نقل میں ذکر نہ آیا ۔ہاں جہاں انھوں نے وصف کریم سے ندا کی تھی ،اگرچہ ان کے زعم میں بطور استہزا تھی ،اسے قرآن مجید نقل کر لایا کہ :قالو ایٰایھا الذی نزل علیہ الذکر۳؂۔بولے اے وہ جس پر قرآن اترا ۔صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، (۳؂ القرآن الکریم ۷۳ /۱)

بخلاف حضرات انبیائے سابقین علیہم الصلواۃ و التسلیم کہ ان کے کفار کے مخاطبے ویسے ہی منقول ہیں ۔یانوح قد جادلتنا۴؂ ،
اے نوح تم ہم سے جھگڑے ،
(۴؂ القرآن الکریم ۱۱ /۳۲)

ء انت فعلت یاھذا بالھتنا یا ابراھیم ۱؂۔
کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم! (۱؂القرآن الکریم ۲۱ /۶۲)
یاموسی ادع لنا ربک بما عھد عندک۲؂ ۔
اے موسی ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔ (۲؂ القرآن الکریم ۷ /۱۳۴)
یاصالح ائتنا بما تعدنا۳؂۔
اے صالح ہم پر لے آو جس تم وعدہ دے رہے ہو ۔(۳؂القرآن الکریم ۷ /۷۷)
یا شعیب ما نفقہ کثیرا مما تقول۳؂۔
اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں (ت) (۴؂القرآن الکریم ۱۱ /۹۱)

بلکہ اس زمانہ کے مطیعین بھی انبیاء علیہم الصلواۃ و التسلیم سے یونہی خطاب کرتے ہیں اور قرآن عظیم نے اسی طرح نقل فرمائی ،
اسباط نے کہا :یٰموسی لن نصبر علی طعام واحد ۵؂۔اے موسٰی !ہم سے تو ایک کھانے پر ہرگز صبر نہ ہوگا۔
(۵؂ القرآن الکریم ۲ /۶۱)

حواریوں نے کہا :یعسی ابن مریم ھل یستطیع ربک۶؂۔
اے عیسٰی بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا ۔ (ت) (۶؂ القرآن الکریم ۵ /۱۱۲)
یہاں اس کا یہ بندوبست فرمایاکہ اس امت مرحومہ پر اس نبی کریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم کا نام پاک لے کر خطاب کرنا ہی حرام ٹھہرایا:
قال اللہ تعالٰی :لاتجعلواددعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا۷؂۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: رسول کا پکارنا آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ (۷؂القرآن الکریم ۲۴/ ۶۳)

کہ اے زید،اے عمرو۔ بلکہ یوں عرض کرو :یارسول اللہ ، یانبی اللہ ، یا سدی المرسلین، یا خاتم النبیین ، یاشفیع المذنبین، صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم وعلٰی اٰلک اجمعین۔
ابو نعیم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں راوی :قال کانوا یقولون یا محمد یا اباالقاسم فنھٰھم اللہ عن ذٰلک اعظاماً لنبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، فقالوایا نبی اللہ ، یا رسول اللہ۱؂ ۔
یعنی پہلے حضور کو یا محمد یا ابالقاسم کہا جاتا اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کی تعظیم کو اس سے نہی فرمائی ، جب سے صحابہ کرام یا نبی اللہ ، یا رسول اللہ کہا کرتے ۔
(۱؂ دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الاول عالم الکتب بیروت الجزء الاول ص۷)
( الدرالمنثور تحت الآیۃ ۲۴ /۶۳ داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ /۲۱۱)

بیہقی امام علقمہ وامام اسود اورابو نعیم امام حسن بصری وامام سعید بن جبیر سے تفسیر کریمہ مذکورہ میں راوی :لاتقولوا یا محمد ولٰکن قولوا یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ ۲؂ ۔یعنی اللہ تعالٰی فرماتاہے : یا محمد نہ کہو بلکہ یا نبی اللہ ، یارسول اللہ کہو۔
(۲؂ تفسیر الحسن البصری تحت الآیۃ ۲۴ /۶۳ المکتبۃ التجاریۃ مکۃ المکرمۃ ۲ /۱۶۴)
( الدرالمنثوربحوالہ عبدبن حمید عن سعید بن جبیر والحسن تحت الآیۃ ۲۴ /۶۳ داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ /۲۱۱)

اسی طرح امام قتادہ تلمیذ انس بن مالک سے روایت کی ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔
ولہذا علماء تصریح فرماتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔
اورواقعی محل انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولٰی تبارک وتعالٰی نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تجاوز کرے بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا : گریہ لفظ کسی دعاء میں وارد ہوجو خود نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی جیسے دعائےیا محمد انی توجھت بک الی ربی۳؂۔اے محمد!میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا۔( ت)
(۳؂ المستدرک للحاکم کتاب صلٰوۃ التطوع دعاء ردالبصر دارالفکر بیروت ۱ /۳۱۳۵۱۹۵۲۶)
( سنن ابن ماجۃ کتاب اقامۃ الصلٰوۃ باب ماجاء فی حاجۃ الصلٰوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰۰)

تاہم اس کی جگہ یارسول اللہ ، یا نبی اللہ چاہیے ، حالانکہ الفاظ دعاء میں حتی الوسع تغییر نہیں کی جاتی ۔کما یدل علیہ حدیث نبیک الذی ارسلت ورسولک الذی ارسلت (جیسا کہ اس پر دلالت کرتی ہے حدیث مبارک ''تیرا نبی جس کو تُو نے بھیجا اورتیرا رسول جس کو تو نے بھیجا''ت)

یہ مسئلہ مہمّہ جس سے اکثر اہل زمانہ غافل ہیں نہایت واجب الحفظ ہے ۔ فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس کی تفصیل اپنے مجموعہ فتاوٰی مسمّٰی بہ العطایاالنبویہ فی الفتاوی الرضویہ میں ذکر کی۔وباللہ التوفیق ۔ خیر یہ تو خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا معاملہ تھا ۔ حضور کے صد قہ میں اس امت مرحومہ کا خطاب بھی خطابِ امم سابقہ سے ممتازٹھہرا ۔ اگلی امتوں کو اللہ تعالٰییا ایھا المساکین۱؂۔
فرمایا کرتا۔
(۱؂نسیم الریاض الباب الاول الفصل الثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۸۸)

توریت مقدس میں جابجا یہی لفظ ارشاد ہوا ہے ،قالہ خیثمۃ رواہ ابن ابی حاتم اوردہ السیوطی فی الخصائص الکبرٰی (یہ خیثمہ نے کہا جس کو ابن ابی حاتم نے روایت کیا اورامام سیوطی نے خصائص کبری مین وارد کیا ہے ۔ت)
اوراس مت مرحومہ کو جب ندافرمائی ہےیٰایھالذین اٰمنوا۲؂
فرمایاگیا ہے ، یعنی اے ایمان والو!امتی کے لیے اس سے زیادہ اورکیا فضیلت ہوگی ۔
(۲؂القرآن الکریم ۲ /۱۸۳)
سچ ہے پیارے کے علاقہ والے بھی پیارے ۔ آخر نہ سنا کہ فرماتاہے :فاتبعونی یحببکم اللہ۳؂ ۔
میری پیروی کرو اللہ کے محبوب ہوجاؤ گے ۔
(۳؂ القرآن الکریم ۳ /۳۱)
 

رضا

معطل
آیت سابعہ : قال جل جلالہ​
لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون ۴؂۔ساتویں آیت : حق جل جلالہ اپنے حبیب کریم علیہ افضل الصلٰو ۃ والتسلیم سے فرماتا ہے : تیری جان کی قسم وہ کافر اپنے نشے میں اندھے ہورہے ہیں ۔

(۴؂ القرآن الکریم ۱۵ / ۷۲)
وقال تعالٰی :​
لا اقسم بھٰذا البلد o وانت حل بھٰذا لبلد o ۵؂ ۔اوراللہ تعالٰی نے فرمایا : میں قسم یاد کرتاہوں اس شہر کی کہ تو اس میں جلوہ فرماہے ۔

(۵؂ القرآن الکریم ۹۰ / ۱ و ۲)
وقال تعالی(عہ۱) :​
وقیلہ یرب ان ھؤلاء قوم لا یؤمنون ۱؂۔اور اللہ تعالٰی نے فرمایا : مجھے قسم ہے رسول کے اس کہنے کی کہ اے رب میرے ! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ،

(۱؂ القرآن الکریم ۴۳/ ۸۸)
عہ ۱: قلت اغفل الامام القسطلانی ھذہ الآیۃ فی المواھب وقد سوغ فیھا ھذا المعنی الامام النسفی فی المدارک ۱۲ منہ۔

میں کہتاہوں امام قسطلانی نے مواہب میں اس کی طرف توجہ نہ فرمائی جبکہ تفسیر مدارک میں امام نسفی نے اس آیہ کریمہ میں اس معنی کو روا رکھا ۱۲منہ (ت)۔
قال تعالی : و العصر۲؂۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا قسم زمان برکت نشان محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی۔
(۲؂ القرآن الکریم ۱۰۳/ ۱)
اے مسلمان ! یہ مرتبہ جلیلہ اس جان محبوبیت کے سو ا کسے میسر ہوا کہ قرآن عظیم نے ان کے شہرکی قسم کھائی ،ان کی باتوں کی قسم کھائی ،ان کے زمانے کی قسم کھائی ،ان کی جان کی قسم کھائی ،صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہاں اے مسلمان !محبوبیت کبری کے یہی معنی ہیں والحمد للہ رب العالمین۔ (اور سب تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا ۔ت)
ابن مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :​
ما حلف اللہ بحیاۃ احد الا بحیاۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال تعالی :لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون oو حیاتک یا محمد۳؂۔

یعنی اللہ تعالی نے کبھی کسی کی زندگی کہ قسم یاد نہ فرمائی سوائے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کہ آیہ :لعمرک میں فرمایا تیری جان کی قسم اے محمد(عہ۲)۔
عہ ۲: ذکر ھذہ التاویل فی التفسیر الکبیر ثم القاضی البیضاوی فی تفسیرہ و تبعھما القسطلانی و اقرہ الزرقانی ۱۲ منہ۔

اس تاویل کو (امام رازی نے) تفسیر کبیر میں پھر قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا امام قسطلانی نے ان کی اتباع کی اور زرقانی نے اس کو برقرار رکھا ۔ت )
(۳؂ الدر المنثور بحوالہ ابن مردویہ تحت الایہ ۱۵ /۷۲ دار احیاء التراث العربی بیروت ۵ /۸۰)
ابو یعلی ،ابن جریر ،ابن مردویہ ،ابن بیہقی ،ابو نعیم ،ابن عساکر ،بغوی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی:​
ماخلق اللہ وما ذراء وما براء نفسا اکرم علیہ من محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم وما حلف اللہ بحیاۃ احد الا بحیاۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلملعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون ۱؂۔

(۱؂ الدر المنثور بحوالہ ابی یعلی و ابن جریر و ابن مردویہ و البیہقی تحت الآیہ ۱۵ /۷۲ بیروت ۵ /۸۰)
(جامع البیان تحت الآیہ ۱۵ /۷۲ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۴ /۵۴ ۵۵)
(دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الرابع عالم الکتب بیروت الجز الاول ص۱۲ )
اللہ تعالی نے ایسا کوئی نہ بنایا ،نہ پیدا کیا ،نہ آفرینش فرمایا جو اسے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے زیادہ عزیز ہو ،نہ کبھی ان کی جان کے سوا کسی کی جان کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے مجھے تیری جان کی قسم وہ کافر اپنی مستی میں بہک رہے ہیں ۔
امام حجۃ الاسلام (عہ۱) محمد غزالی احیاء العلوم اور امام محمد بن الحاج عبدری مکی مدخل اورامام احمد محمد خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ اور علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض میں ناقل حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ایک حدیث طویل میں حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں :​
بابی انت وامی یا رسول اللہ لقد بلغ من فضیلتک عند اللہ تعالی ان اقسم بحیاتک دون سائر الانبیاء ولقد بلغ من فضیلتک عندہ ان اقسم بتراب قدمیک فقال :لا اقسم بھذالبلد ۱؂۔یارسول اللہ !میرے ماں باپ حضور پر قربان بیشک حضور کی بزرگی خدا تعالی کے نزدیک اس حد کو پہنچی کہ حضور کی زندگی کی قسم یاد فرمائی ،نہ باقی انبیاء علیہ الصلواہ و السلام کی ۔اور تحقیق حضور کی فضلیت خدا کے یہاں اس نہایت کی ٹھہری کہ حضور کی خاک پاک کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے مجھے قسم اس شہر کی ۔(ت)

(۱؂المواھب اللدنیہ المقصد السادس النوع الخامس الفصل الخامس المکتبہ الاسلامی بیروت ۳ /۲۱۵)
(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الباب الاول الفصل الاول الفصل الرابع مرکز اہلسنت ہند ۱/ ۱۹۶)
عہ۱ : ذکرہ فی احیاء والمدخل بطولہ وفی المواھب والنسیم کلمات منہ ،و کذا الامام القاضی عیاض فی الشفاء و عزاہ الامام الجلال السیوطی فی مناھل الصفاصاحب اقتباس الانوار ولابن الحاج فی مدخلہ قال وکفی بذلک سند المثلہ فانہ لیس مما یتعلق بہ الاحکام اھ و ذکرہ فی النسیم۲؂۔

اس کو احیاء العلوم اور مدخل میں مفصل ذکر کیا ہے جبکہ مواہب و نسیم میں اس سے کلمات ذکر کیے گئے ہیں ۔اور یونہی امام قاضی عیاض نے شفاء میں ذکر فرمایا ۔امام سیوطی نے اس کو مناہل صفاء صاحب اقتباس الانوار کی طرف منسوب کیا ۔ابن الحاج نے اپنی کتاب مدخل میں کہا کہ اس کی مثل کے لیے یہ سند کافی ہے کیونکہ اس کے ساتھ شرعی احکام متعلق نہیں ہوتے اھ اور اس کو نسیم میں ذکر کیا ہے ۔
(۲؂نسیم الریاض فی شرح ش فاء القاضی العیاض الفصل السابع مرکز اھل السنت گجرات ہند ۱ /۲۴۸)
اقول : وھو کلام نفیس طویل جلیل رثی بہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حین تحقق لہ موتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بخطبۃ ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کما یظہر بمراجعۃ الحدیث بطولہ فماوقع فی شرح المواھب للعلامۃ الزرقانی فی المقصد السادس تحت آیۃ

"لااقسم بھذا البلد"

ان عمر رضی اللہ تعالی عنہ قال لنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واقرہ علیہ ۱؂ اھ سہو ینبغی التنبیہ لہ ۱۲ منہ ۔

اقول : میں کہتا ہوں وہ طویل و نفیس کلام ہے جس کے ساتھ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا مرثیہ کہا جبکہ ان کے لیے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے خطبہ سے آپ کی موت ثابت ہوگئی جیساکہ طویل حدیث کی طرف رجوع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے ۔چنانچہ علامہ زرقانی کی شرح مواہب کے مقصد سادس میں آیت کریمہ

"لا اقسم بھذا البلد"

کے تحت جو واقع ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے کہی اور آپ نے اس کو برقرار رکھا اھ سہو ہے جس پر متنبہ کرنا چاہیے ۱۲منہ)
(۱؂ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ المقصد السادس النوع الخامس الفصل الخامس المکتبہ الاسلامی بیروت ۶ /۲۳۴)
شیخ محقق رحمہ اللہ تعالی مدارج میں فرماتے ہیں :​
ایں لفظ در ظاہر نظر سخت مے در آید نسبت بجناب عزت چوں گویند کہ سو گندمے خورد بخاکپائے حضرت رسالت و نظر بحقیقت معنی صاف و پاک است کہ غبارے نیست برآں تحقیق ایں سخن آنست کہ سو گند خوردن حضرت رب العزت جل جلالہ بچیزے غیر ذات و صفات خود برائےاظہارِ شرف وفضیلت و تمیز آں چیز است نزد مردم و نسبت بایشاں تا بدانند کہ آں امر عظیم وشریف است ،نہ آنکہ اعظم است نسبت بوئے تعالٰی الخ ۲؂۔یہ لفظ ظاہری نظر میں اللہ تعالی رب العزت کی طرف نسبت کرنے میں سخت ہیں ۔جب یوں کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت رسالت مآب کی خاک پا کی قسم ارشاد فرماتا ہے اور نظر حقیقت میں معنی بالکل پاک و صاف ہے کہ اس پر غبار نہیں اس کی تحقیق یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم یاد فرمانا اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک لوگوں کہ بنسبت اس چیز کا شرف ،فضلیت اور ممتاز ہونا ظاہر ہو جائے تاکہ وہ جان لیں کہ یہ چیز عظمت وشرف والی ہے ۔یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ چیز اللہ تعالی کی نسبت اعظم ہے الخ (ت)

(۲؂مدارج النبوۃ باب سوم دربیان فضل وشرافت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۶۵)​
 

رضا

معطل

آیت ثامنہ (آٹھویں آیت ): قرآن عظیم میں جا بجا حضرات انبیاء علیہم الصلواۃ والثناء سے کفار کی جاہلانہ جدال مذکور جس کے مطالعہ ظاہر کہ وہ اشقیاء طرح طرح سے حضرات انبیاء میں سخت کلامی و بیہودہ گوئی کرتے اور حضرات رسل علیہ الصلواۃ و السلام اپنے حلم و عظیم و فضل کریم کے لائق جواب دیتے ۔

سیدنا نوح علیہ الصلواۃ والسلام سے ان کی قوم نے کہا :انا لنراک فی ضلال مبین۳؂،بیشک ہم تمھیں کھلا گمراہ سمجھتے ہیں ۔

(۳؂القران الکریم ۷ /۶۰)

فرمایا :یاقوم لیس بی ضلالۃ و لکنی رسول من رب العلمین۱؂۔اے میری قوم !مجھے گمراہی سے کچھ علاقہ نہیں میں تو رسول پروردگار عالم کی طرف سے ۔

(۱؂القران الکریم ۷ /۶۱ا)

سیدنا ہود علیہ الصلواۃ و السلام سے عاد نے کہا :انالنرک فی سفاھۃ و انا لنظمنک من الکذبین ۲؂۔یقینا ہم تمھیں حماقت میں خیال کرتے ہیں ،اور ہمارے گمان میں تم بے شک جھوٹے ہو ۔

(۲؂القران الکریم ۷ /۶۶)

فرمایا :یاقوم لیس بی سفاھۃ و لکنی رسول من رب العلمین۳؂۔اے میری قوم !مجھ میں اصلا سفاہت نہیں ،میں تو پیغمبر ہوں رب العلمین کا ۔

(۳؂القران الکریم ۷ /۶۷)

سیدنا شعیب علیہ الصلواۃ والسلام سے مدین نے کہا :انا لنرک فینا ضعیفا ج ولو لا رھطک لرجمنک وما انت علینا بعزیز۴؂ہم تمھیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں ۔اور اگر تمھارے ساتھ کے یہ چند آدمی نہ ہوتے تو ہم تمھیں پتھروں سے مارتے ،اور کچھ تم ہماری نگاہ میں عزت والے نہیں ۔

(۴؂القران الکریم ۱۱ /۹۱)

فرمایا :یاقوم ارھطی اعزعلیکم من اللہ و اتخذتموہ وراء کم ظہریا۵؂۔اے میری قوم !کیا میرے کنبے کے یہ معدود لوگ تمھارے نزدیک اللہ سے زیادہ زبردست ہیں اور اسے تم بالکل بھلائے بیٹھے ہو ۔

(۵؂القران الکریم ۱۱ /۹۲)

سیدنا موسی علیہ الصلواۃ والسلام سے فرعون نے کہا :انی لاظنک یاموسی مسحورا۶؂میرے گمان میں تو اے موسی !تم پر جادو ہوا ۔

(۶؂القران الکریم ۱۷ /۱۰۱)

فرمایا :لقد علمت ما انزل ھولاء الا رب السموات و الارض بصائر ج وانی لا ظنک یافرعون مثبورا ۱؂۔تو خوب جانتا ہے کہ انھیں نہ اتارا مگر آسمان و زمین کے مالک نے دلوں کی آنکھیں کھولنے کو ،اور میرے یقین میں تو اے فرعون ! تو ہلاک ہونے والا ہے ۔

(۱؂ القران الکریم ۱۷ /۱۰۲)

مگر حضورسید المرسلین افضل المحبوبین محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ اجمعینکی خدمت والا میں کفار نے جو زبان درازی کی ہے ملک السموات و الارض جل جلالہ خود متکفل جواب ہوا ہے ،اور محبوب اکرم مطلوب اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف سے آپ مدافعہ فرمایا ہے ۔طرح طرح حضور کی تنزیہ و تبریت ارشاد فرمائی ۔جابجا رفع الزام اعدائے ایام پر قسم یاد فرمائی ،یہاں تک کہ غنی مغنی عزمجدہ نے ہر جواب خطاب سے حضور کو غنی کر دیا،اور اللہ تعالی کا جواب دینا حضور کے خود جواب دینے سے بدرجہا حضور کے لیے بہتر ہوا۔اور یہ وہ مرتبہ عظمٰی ہے کہ نہایت نہیں رکھتا۔ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ط واللہ ذوالفضل العظیم۲؂ (یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطافرماتاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ت )

(۲؂القرآن الکریم ۵ /۵۴)

(۱)کفار نے کہا :یاایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون۳؂اے وہ جن پر قرآن اترا ،بیشک تم مجنون ہو۔

(۳؂القران الکریم ۱۵ /۶)

حق جل وعلا نے فرمایا :ن o والقلم وما یسطرون o ما انت بنعمۃ ربک بمجنون۴؂قسم قلم اور نوشتہائے ملائک کی تو اپنے رب کے فضل سے ہرگز مجنون نہیں ۔

(۴؂ القرآن الکریم ۶۸ /۱ و ۲)

وان لک لاجراغیر ممنون۵؂اور بے شکتیرے لیے اجر بے پایا ہے ۔

(۵؂القرآن الکریم ۶۸ /۳)

کہ تو ان دیوانوں کی بدزبانی پر صبر کرتا اور حلم وکرم سے پیش آتا ہے ۔مجنون تو چلتی ہوا سے الجھا کرتے ہیں ، تیرا سا حلم وصبر کوئی تمام عالم کے عقلاء میں تو بتادے ۔وانک لعلی خلق عظیم ۶؂اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے ۔

(۶؂القرآن الکریم ۶۸ /۴)

کہ ایک حلم وصبر کیا تیری خصلت ہے اس درجہ عظیم وباشوکت ہے کہ اخلاق عاقلان جہان مجتمع ہو کر اس کے ایک شمہ کو نہیں پہنچتے ۔پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے ،مگر یہ ان کا اندھا پن بھی چند روز کا ہے ۔فستبصرو یبصرون o بایکم المفتون۱؂

(۱؂القران الکریم ۶۸/ ۵ و ۶)

عنقریب تو بھی دیکھے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کسے جنون ہے ۔
آج اپنی بے خردی و دیوانگی وکور باطنی سے جو چاہیں کہہ لیں ،آنکھیں کھلنے کا دن قریب آتا ہے ،اور دوست ودشمن سب پر کھلا چاہتا ہے کہ مجنون کون تھا ۔

(۲) وحی اترنے میں جو کچھ دنوں دیر لگی کافر بولے :ان محمد ا ودعہ ربہ وقلاہ ۲؂ ۔بیشک محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان کے رب نے چھوڑدیا ،اور دشمن پکڑا ۔

(۲؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی )تحت الآیۃ ۹۳ /۴۶۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۴۶۵)

حق جل وعلا نے فرمایا :والضحی o والیل اذا سجی۳؂۔قسم ہے دن چڑھے کی ،اور قسم رات کی جب اندھیری ڈالے ۔

(۳؂ القرآن العظیم ۹۳ /۱ و ۲)

یاقسم اے محبوب تیرے روئے روشن کی ،اور قسم تیری زلف کی جب چمکتے رخساروں پر بکھر آئے ۔ :ما ودّعک ربک وما قلی۴؂۔نہ تجھے تیرے رب نے چھوڑا اورنہ دشمن بنایا ۔

(۴؂ القرآن العظیم ۹۳ /۳)

اوریہ اشقیاء بھی دل میں خوب سمجھتے ہیں کہ خدا کی تجھ پر کیسی مہر ہے ،اس مہر ہی کو دیکھ دیکھ کر جلے جاتے ہیں ،اور حسد وعناد سے یہ طوفان جوڑتے ہیں اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں مگر خبر نہیں کہ :وللاخرۃ خیرلک من الاولی۵؂بے شک آخرت تیرے لیے دنیا سے بہتر ہے ۔

(۵؂ القرآن العظیم ۹۳ /۴)

وہاں جو نعمتیں تجھ کو ملیں گی نہ آنکھوں نے دیکھیں ،نہ کانوں نے سنیں ،نہ کسی بشر یا ملک کے خطرے میں آئیں ،جن کا اجمال یہ ہے :ولسوف یعطیک ربک فترضی۱؂قریب ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا ۔

(۱؂ القرآن العظیم ۹۳/ ۵)

اس دن دوست دشمن سب پرکھل جائے گا کہ تیرے برابر کوئی محبوب نہ تھا ۔خیر ،اگر آج یہ اندھے آخرت کا یقین نہیں رکھتے تو تجھ پر خدا کی عظیم ،جلیل ،کثیر ،جزیل نعمتیں رحمتیں آج کی تو نہیں قدیم ہی سے ہیں ۔کیا تیرے پہلے احوال انھوں نے نہ دیکھے اور ان سے یقین حاصل نہ کیا کہ جو نظر عنایت تجھ پر ہے ایسی نہیں کہ کبھی بدل جائے ،الم یجد ک یتیمافاوی الی اخرالسورۃ۲؂کیا اس نے تمھیں یتیم نہ پایا پھر جگہ دی (سورت کے اخر تک ۔ت)

(۲؂القرآن العظیم ۹۳ /۶)

(۳) کفار نے کہا :لست مرسلا ۳؂۔

تم رسول نہیں ہو ۔

(۳؂القرآن العظیم ۱۳ /۴۳)

حق جل وعلا نے فرمایا :یٰس ط والقران الحکیم انک لمن المرسلین۴؂

اے سردار !مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی تو بیشک مرسل ہے ۔

(۴؂القرآن العظیم ۳۶ /۱تا ۳)

(۴)کفار نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو شاعری کا عیب لگایا ۔

حق جل وعلانے فرمایا :وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ۵؂ ط ان ھو الا ذکر وقرآن مبین۶؂

(۵؂و۶؂ القرآن العظیم ۳۶ /۶۹)

نہ ہم نے انھیں شعر سکھایا اور نہ وہ ان کے لائق تھا ۔وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن بیان والا قرآن۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان عالی بزبان قرآن بیان کرنے کا بہت شکریہ۔
جزاک اللہ ، بہت شکریہ رضا۔
 

رضا

معطل
(۵) منافقین حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے اور ان میں کوئی کہتا ایسا نہ ہو کہیں ان تک خبر پہنچے ۔کہتے : پہنچے گی تو کیا ہوگا ،ہم سے پوچھیں گے ہم مکر جائیں گے ،قسمیں کھا لیں گے ،انھیں یقین آجائے گا ،کہھو اذن۷؂وہ تو کان ہیں جیسی ہم سے سنیں گے مان لیں گے ۔

(۷؂ القرآن العظیم ۹ /۶۱)

حق جل وعلا نے فرمایا :اذن خیر لکم۸؂ ۔وہ تمھارے بھلے کے لیے کان ہیں ۔کہ جھوٹے عذر بھی قبول کر لیتے ہیں ۔

(۸؂القرآن العظیم ۹/ ۶۱)

اور بکمال حلم وکرم چشم پوشی فرماتے ہیں ۔ ورنہ کیا انھیں تمھارے بھیدوں اور خلوت کی چھپی باتوں پر آگاہی نہیں ۔یؤمن باللہ ۱؂

خدا پر ایمان لاتے ہیں ۔

(۱؂القرآن العظیم ۹ /۶۱)

اور وہ تمھارے اسرار سے انھیں مطلع کرتاہے ، پھر تمھاری جھوٹی قسموں کا انھیں کیونکر یقین آئے ۔ہاںویؤمن للمومنین۲؂۔

ایمان والوں کی بات واقعی مانتے ہیں ۔

(۲؂القرآن العظیم ۹ /۶۱)

کہ انھیں ان کے دل کی سچی حالتوں پر خبر ہے ۔اس لیےورحمۃ للذین آمنوا منکم ۳؂۔

مہربانی ان پر جو تم میں ایمان لائے

(۳؂القرآن العظیم ۹ /۶۱)

کہ ان کے طفیل سے انھیں ہمیشگی کے گھر میں بڑے بڑے رتبے ملتے ہیں ۔اور اگر چہ یہ بھی ان کی رحمت ہے کہ دنیا میں تم سے چشم پوشی ہوتی ہے ۔مگر اس کا نتیجہ اچھا نہ سمجھو ،کہ تمھاری گستا خیوں سے انھیں ایذا پہنچی ہے ۔والذین یوذون رسول اللہ لہم عذاب الیم۴؂۔

اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذادیں ان کیلئے دکھ کی مار ہے۔

(۴؂القرآن العظیم۹/۶۱)

(۶) ابن ابی شقی ملعون نے جب وہ کلمہ ملعونہ کہا :لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل۵؂ ،

اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو ضرور نکال باہر کریگا عزت والا ذلیل کو ۔

(۵؂ القران الکریم ۶۳ /۸)

حق جل وعلا نے فرمایا :وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنفقین لا یعلمون۶؂۔

عزت تو ساری خدا ورسول ومومنین ہی کے لیے ہے ،پر منافقین کو خبر نہیں ۔

(۶؂ القران الکریم ۶۳ /۸)

(۷) عاص بن وائل شقی نے جو صاحبزادہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے انتقال پر ملال پر حضور کو ابتر یعنی نسل بریدہ کہا ۔حق جل وعلا نے فرمایا :انا اعطینک الکوثر ۷؂۔

بیشک ہم نے تمھیں خیر کثیر عطا فرمائی ۔

(۷؂القران الکریم ۱۰۸ /۱)

کہ اولاد سے نام چلنے کو تمھاری رفعت ذکر سے کیا نسبت ،کروڑوں صاحب اولاد گزرے جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا ،اور تمھاری ثناء کا ڈنکا تو قیام قیامت تک اکناف عالم واطراف جہاں میں بجے گا اور تمھارے نام نامی کا خطبہ ہمیشہ ہمیشہ اطباق فلک آفاق زمین میں پڑھا جائے گا ۔پھر اولاد بھی تمھیں نفیس و طیب عطا ہوگی جن کی بقاء سے بقائے عالم مربوط رہیگی اس کے سوا تمام مسلمان تمھارے بال بچے ہیں ،اور تم سا مہربان ان کے لیے کوئی نہیں ،بلکہ حقیقت کار کو نظر کیجیے تو تمام عالم تمھاری اولاد معنوی ہے کہ تم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ،اور تمھارے ہی نور سے سب کی آفرینش ہوئی ۔اسی لیے جب ابو البشر آدم تمھیں یاد کرتے تو یوں کہتےیا ابنی صورۃ وابای معنًی۱؂۔

اے میرے ظاہر بیٹے اور حقیقت میں میرے باپ ۔

(۱؂ المدخل لابن الحاج فصل فی مولد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دار الکتب العربی بیروت ۲ /۳۴)

پھر آخرت میں جو تمہیں ملنا ہے اس کا حال تو خدا ہی جانے ۔ جب اس کی یہ عنایت بیغایت تم پر مبذول ہو۔ تو تم ان اشقیاء کی زبان درازی پر کیوں ملول ہوبلکہفصل لربک وانحر۲؂۔

رب کے شکرانہ میں اس کے لیے نماز پڑھو اورقربانی کرو۔

(۲؂ القرآن الکریم ۱۰۸ /۲)

انّ شانئک ھو الابتر۳؂۔

جو تمہارا دشمن ہے وہی نسل بریدہ ہے ۔

(۳؂القرآن الکریم ۱۰۸/ ۳)

کہ اورتمہارے دین حق میں آکر بوجہ اختلاف دین اس کی نسل سے جدا ہوکرتمہارے دینی بیٹوں میں شمارکئے جائیں گے ۔ پھر آدمی بے نسل ہوتا۔تو یہی سہی کہ نام نہ چلتا ۔ اس سے نام بدکاباقی رہنا ہزار درجہ بدتر ہے ۔ تمہارے دشمن کا ناپاک نا م ہمیشہ بدی ونفرین کے ساتھ لیا جائے گا،اورروز قیامت ان گستاخیوں کی پوری سزا پائے گا۔ والعیاذباللہ تعالٰی۔

(۸)جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے قریب رشتہ داروں کو جمع فرماکر وعظ ونصیحت اوراسلام واطاعت کی طرف دعوت کی ۔ ابولہب شقی نے کہا :تبّالک سائر الیوم لہذا جمعتنا۴؂۔

ٹوٹنا اورہلاک ہونا تمہارے لیے ہمیشہ کو ، کیا ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا۔

(۴؂صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ تب یدا ابی لہب ۱۱۱ قدیمی کتب خانہ ۲ /۷۴۳)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان من مات علی اکفرالخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۴)
(تفسیر المراغی تحت الآیۃ ۱۱۱ /۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۰ /۲۶۰)

حق جل وعلانے فرمایا:تبّت یدا ابی لھب وتب o ۵؂ مااغنٰی عنہ مالہ وما کسب o۱؂ سیصلٰی نارًاذات لھبo ۲؂ وامرأتہ حمّالۃ الحطب o ۳؂ فی جیدھا حبل من مسد o۴؂۔

(۵؂تا ۴؂ القرآن الکریم ۱۱۱ /۱ تا ۵)

ٹوٹ گئے دونوں ہاتھ ابولہب کے ۔ اوروہ خودہلاک وبربادہوا،اس کے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اورجو کمایا۔ اب بیٹھاچاہتاہے بھڑکتی آگ میں ۔ اوراس کی جو رولکڑیوں کا گٹھا سر پر لئے ۔اس کے گلے میں مُونج کی رسی ۔

بالجملہ اس روش کی آیتیں قرآن عظیم میں صدہا نکلیں گی۔ اسی طرح حضرت یوسف وبتول مریم اورادھر ام المومنین صدیقہ علی سید ھم وعلیہم الصلٰوۃ والسلام کے قصے اس مضمون پر شاہدِ عدل ہیں۔ حضرت والد ماجد ''سرورالقلوب فی ذکر المحبوب ''میں فرماتے ہیں : ''حضر ت یوسف کودودھ پیتے بچے ، اور حضرت مریم کو حضرت عیسٰی کی گواہی سے لوگوں کی بدگمانی سے نجات بخشی، اورجب حضرت عائشہ پر بہتان اٹھا خود ان کی پاک دامنی کی گواہی دی، اورسترہ آیتیں نازل فرمائیں، اگرچاہتا ایک ایک درخت اورپتھر سے گواہی دلواتامگر منظور یہ ہوا کہ محبوبہ محبوب کی طہارت وپاکی پر خود گواہی دیں اورعزت وامتیاز ان کا بڑھائیں ۵؂۔ ''انتہٰی۔

(۵؂سرورالقلوب فی ذکر المحبوب)

محل غور ہے کہ اراکین دولت ومقربان حضرت سے باغیانِ سرکش بگستاخی وبے ادبی پیش آئیں۔اوربادشاہ ان کے جوابوں کو انہیں پر چھوڑ دے ۔ مگر ایک سردار بلدن اوقار کے ساتھ یہ برتاؤ ہوکہ مخالفین جو زبان درازی اس کی جناب میں کریں ۔ حضرت سطلان اس مقرب ذی شان کو کچھ نہ کہنے دے ، بلکہ بہ نفس نفیس اس کی طرف سے تکفل جواب کرے ۔ کیا ہر ذی عقل اس معاملہ کو دیکھ کر یقین قطعی نہ کرے گا کہ سرکار سلطانی میں جو اعزاز اس مقرب جلیل کا ہے دوسرے کا نہیں ، اورجو خاص نظر اس کے حال پر ہے اوروں کا حصہ اس میں نہیں۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔
 

رضا

معطل
آیت تاسعہ : قال تعالٰی عظمتہ :​
عسٰی ان یبعثک ربک مقاماًمحموداط۱؂نویں آیت: اللہ تعالٰی نے فرمایا : قریب ہے تجھے تیرا رب بھیجے گا تعریف کے مقام میں ۔

(۱؂القرآن الکریم ۱۷ /۷۹)
صحیح بخاری وجامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے فرمایا :​
سئل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن المقام المحمود فقال ھو الشفاعۃ ۲؂۔

(۲؂ صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ ۱۷ باب قولہ عسٰی ان یبعثک الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۶۸۶)
( جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل امین کمپنی دہلی ۲ /۱۴۲)
حضرت سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سوال ہوا : مقام محمود کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : شفاعت ۔
اسی طرح احمد وبیہقی ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :​
سئل عنہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یعنی قولہ عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محموداً ط فقال ھی الشفاعۃ ۳؂ ۔

(۳؂ مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۴۴)
( نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض بحوالہ احمد والبیہقی فصل فی تفضیلہ بالشفاعۃ ۲ /۳۴۵)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اللہ تعالٰی کے قول ''قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں''کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا وہ شفاعت ہے ۔ (ت)
اورشفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اورصحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ، جن کی بعض ان شاء اللہ تعالٰی ہیکل دوم میں مذکور ہوں گی۔
اس دن آدم صفی اللہ سے عیسٰی کلمۃ اللہ تک سب انبیاء اللہ علیہم الصلٰوۃ والسلام نفسی نفسی فرمائیں گے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم​
انا لھا انا لھا ۴؂۔میں ہوں شفاعت کےلیے ، میں ہوں شفاعت کے لیے ۔

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل فی تفضیلہ بالشفاعۃ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۸۰)
انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اوروہ متکلم ۔ سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم۔ سب محل خوف میں ، وہ آمن وناہم۔ سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر عوالم ۔سب زیر حکومت ، وہ مالک وحاکم،۔ بارگاہِ الہٰی میں سجدہ کرینگے ۔ ان کا رب انہیں فرمائے گا:​
یا محمد ارفع رأسک وقل تسمع وسل تعطہ واشفع تشفع۱؂۔

(۱؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۹)
اے محمد!اپنا سراٹھاؤ اورعرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اورمانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اورشفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔

اس وقت اولین وآخرین میں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گااوردوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی افضلیتِ کبرٰی وسیادت عظمٰی پر ایمان لائے گا۔​
والحمدللہ رب العٰلمین۔ ؎
مقام محمود ونامت محمد
بہ نیساں مقامے ونامے کہ دارد

آپ کا مقام محمود اورنام محمد ہے ، ایسا مقام اورنام کون رکھتاہے ۔ت)
 
Top