جگر وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ:: غزل از جگر مراد آبادی

غزل
جگر مرادآبادی


وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ

یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خُسروانہ

میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے؟
مرا عشق بھی کہانی، ترا حسن بھی فسانہ

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہئیے بہانہ

ترے عشق کی کرامت، یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ

تری دُوری و حضوری کا عجیب ہے یہ عالم
ابھی زندگی حقیقت، ابھی زندگی فسانہ

مرے ہم صفیر بلبل، مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیرِ دشت و دریا، تو اسیرِ آشیانہ

میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں ، ہے جو فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا ، مرا غم غمِ زمانہ

ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا!
تجھے اے جگر! مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
ٌٌٌٌ ٌ ٌ ٌ ٌ​
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
واہ واہ کیا خوب انتخاب ہے خلیل بھائی۔
اس کا یہ مصرع تو ضرب المثل بن چکا ہے:
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
 
واہ واہ کیا خوب انتخاب ہے خلیل بھائی۔
اس کا یہ مصرع تو ضرب المثل بن چکا ہے:
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
آداب فاتح بھائی!

اور دیکھیے کہ یہی ایک غزل اردو محفل پر موجود نہیں تھی۔ جگر کی اسی بحر میں ایک اور غزل ہے جو محفل پر موجود ہے۔

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ


یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ


یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
تری پاک تر جوانی، ترا حُسنِ معجزانہ


یہ مرا پیام کہنا تُو صبا مؤدّبانہ
کہ گزر گیا ہے پیارے، تجھے دیکھے اِک زمانہ


مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ
یہ جُنوں ہی کو مبارک، رہ و رسمِ عامیانہ


تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟
ترا دل اگر ہو زندہ، تو نفَس بھی تازیانہ


تری اِک نمود سے ہے، ترے اِک حجاب تک ہے
مری فکرِ عرش پیما، مرا نازِ شاعرانہ


وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ


یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ


کبھی حُسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ


مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے
مرے دل سے کہہ گئی کیا، وہ نگاہِ ناقدانہ


تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی، نہ حدیثِ دلبرانہ


جگر مرادآبادی

اسی بحر میں اقبال کی یہ غزل بھی موجود ہے۔

غزل
علامہ محمد اقبال
تجھے یاد کیا نہیں ہے میرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبت وہ نِگہ کا تازیانہ
یہ بُتانِ عصْرِحاضِر کے بنے ہیں مدرِسے میں
نہ ادائے کافِرانہ نہ تراشِ آزَرانہ
نہیں اِس کھُلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس، نہ آشیانہ
رگِ تاک مُنتَظر ہے تِری بارشِ کرَم کی
کہ عجَم کے میکدوں میں نہ رہی مئے مُغانہ
مِرے ہم صفیراِسے بھی اثرِ بہار سمجھے
اِنہیں کیا خبر، کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
مِرے خاک وخُوں سے تُو نے یہ جہاں کِیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تاب جاوِدانہ
تِری بندہ پروَرِی سے مِرے دن گزر رہے ہیں
نہ گِلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
علامہ محمد اقبال
لیکن جگر کی اس غزل کی بات ہی کچھ اور ہے۔ متفق
 
Top