احمد مشتاق وہی شاخ نہال ہستی ہے۔ نئی کتاب سے ایک انتخاب

وہی شاخ نہال ہستی ہے
وہی دکھ کی دراز دستی ہے

ہوش کو چشم کم سے نہ دیکھ
ہوش تو انتہائے مستی ہے

دل میں پھرتی ہے دھوپ سارا دن
رات بھر چاندنی برستی ہے

ہمہ تن گوش ہے نظر میری
تیری آواز کو ترستی ہے

کیسی ناگن ہے یہ اداسی بھی
بھری محفل میں آ کے ڈستی ہے


فکر خلق خدا نہ خوف خدا
یہ کہاں کی خدا پرستی ہے

ارے کیوں ڈر ہے ہو جنگل سے
یہ کوئی آدمی کی بستی ہے
 
آخری تدوین:
Top