ووٹ کنٹرول کرنے کے طریقے۔۔۔۔۔ڈاکٹر نوید اقبال انصاری

انتخابات قریب آچکے ہیں، مختلف جماعتوں نے ذرایع ابلاغ پر اپنی اشتہاری مہم بھی شروع کردی ہے جن میں اخبارات میں شایع ہونے والے اشتہارات بھی شامل ہیں اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اشتہارات بھی ہیں۔ ان اشتہارات میں رہنما اپنے آپ کو مذہبی ثابت کرنے کے لیے نماز پڑھتے ہوئے منظر بھی پیش کر رہے ہیں اور مسحور کن دھنوں پر نغمے بھی سنائے جارہے ہیں۔ گویا ذرایع ابلاغ پر ہر ممکن نفسیاتی طریقوں سے ووٹر کو کھینچنے یا متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ تمام کوششیں اپنی جگہ لیکن ماہرین ابلاغیات کہتے ہیں کہ ذرایع ابلاغ سے پیغامات کو وصول کرنے والے افراد پیغامات کو تین بڑے طریقوں سے کنٹرول کرتے ہیں، گویا یہ طریقے بھرپور اشتہاری مہم کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔ ماہرین ابلاغ مندرجہ ذیل تین طریقے پیش کرتے ہیں۔
1۔ ترجیحی انتخاب (Selective Exposure)
2۔ ترجیحی ادراک (Selective Perception)
3۔ ترجیحی یادداشت (Selective Retention)
مغربی ماہرین ابلاغیات نے اس سلسلے میں تحقیق سے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ ذرایع ابلاغ سے انسان اپنی ترجیح کے مطابق انتخاب کرکے پیغام وصول کرتا ہے۔ فسٹنگر اور کالیپر جیسے ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ ابلاغ عامہ کے اسی حلقے کو منتخب کرتے ہیں جو ان کے موجودہ خیالات کے مطابق ہوں اسی طرح چیلڈز (Childs) کے مطابق لوگ اس چیز کے پڑھنے کی طرف رجحان رکھتے ہیں جو ان کے خیالات کو درست ثابت کرتی ہو یا اس کے مطابق ہو۔ ماہرین کے مطابق امریکی انتخابات میں یہ بات مشاہدے میں آئی کہ جو لوگ ری پبلکن پارٹی کے حامی تھے وہ ذرایع ابلاغ سے اسی پارٹی کے رہنماؤں کی تقریریں سننا پسند کرتے تھے۔ عموماً جہاں بھی انتخابات ہوں وہاں یہی صورت حال ہوتی ہے عموماً لوگ مخالف پارٹی کا پیغام بھی سننا گوارا نہیں کرتے اس کو سمجھنا اور عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔
اسی طرح ماہرین ابلاغیات اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ لوگوں کی ہمدردیاں بہت سی چیزوں میں صرف ان ہی کے ساتھ ہوتی ہیں جو وہ پہلے ہی سے پسند کرتے ہیں۔ انتخابات کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین ابلاغ کہتے ہیں کہ اس موقع پر لوگ ذرایع ابلاغ سے بہت سی معلومات حاصل کرلیتے تو ہیں مگر اپنی پسند کے رہنماؤں کی غلط باتوں کو بھی پسند کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح منطقی طور پر اسے درست ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں، گویا لوگوں کا اس معاملے میں ادراک (Perception) غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ لوگ عموماً اپنے ترجیحی ادراک کے باعث اپنی پسند کے رہنماؤں کی غلط باتوں میں سے بھی روشن اور اچھا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔
اسی طرح ماہرین ابلاغ ترجیحی یادداشت (Selective Retention) کے بارے میں اپنی تحقیقات سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ چیزیں جو کسی انسان کے خیالات سے ہم آہنگی رکھتی ہیں اور جنھیں وہ پڑھنا یا سننا پسند کرتے ہیں ان کو باآسانی یاد کرلیتے ہیں وہ ان کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتی ہیں اور جو خیالات سے ہم آہنگ نہ ہوں وہ بھول جاتی ہیں۔ ماہرین مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو باتیں بائیں بازوؤں کے حق میں ہوتی ہیں وہ بائیں بازوؤں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو یاد رہ جاتی ہیں جب کہ وہ مخالفانہ باتیں بھول جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا تحقیقات اور ماہرین کی رائے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اشتہار ان کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کے لیے مثبت پہلو یہ ہے کہ ان اشتہارات سے ایسے ووٹر جو اپنی جماعتوں سے زیادہ محبت و رغبت نہیں رکھتے ہیں، ان اشتہارات کے باعث مضبوط ووٹر میں تبدیل ہوجائیں گے کیونکہ ان اشتہارات میں اپنی جماعتوں کی اچھی کارکردگی اور دوسری جماعتوں کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔
مغربی ماہرین کی تحقیقات کو سامنے رکھا جائے تو اس قسم کے اشتہار سے سیاسی جماعتیں اپنے ناراض ووٹروں کو اور کمزور ووٹروں کو (جن کا فیصلہ تبدیل ہونے کا اندیشہ ہے) اپنے پکے یا مضبوط ووٹر میں تبدیل کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ کیونکہ ووٹر نہ صرف اپنی ہم خیال و نظریات کی حامل جماعتوں کے اشتہارات کو نہ صرف دیکھنے کے لیے منتخب کرے گا بلکہ اسے سو فی صد درست سمجھے گا اور اسے یاد بھی رکھے گا۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے اشتہار دینے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ووٹر اس کو یاد رکھے اور انتخابات والے دن ووٹ بھی اسی کے حق میں ڈالے۔ یوں مندرجہ بالا تھیوری کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اشتہار اس کے ہم خیال و ہم نظریات افراد کو تو اپنا مضبوط ووٹر بناسکتا ہے مگر مخالف نظریات رکھنے والے کو نہیں کیونکہ اول تو وہ ان کے پیغامات (اشتہارات) پر توجہ نہیں دے گا نہ ہی بیان کیے گئے نکات کو حقائق پر مبنی سمجھے گا اور نہ ہی ووٹ کا فیصلہ ان کے حق میں بدلنے کا سوچے گا، یعنی اپنی یادداشت میں کوئی جگہ نہیں دے گا۔
یہ عام مشاہدے کی بھی بات ہے پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے لیے فیصلے کرنے کا رجحان اپنی ہم خیال جماعت کے حق میں تو ہوتا ہے لیکن اس فیصلے میں وہ انسیت بھی شامل ہوتی ہے جو ہم نسل، ہم زبان، ہم برادری اور ہم مسلک وغیرہ پر مبنی ہوتی ہے۔ یہی وہ انسیت ہے جب ووٹر پر غالب آجاتی ہے تو پھر وہ مندرجہ بالا مغربی مفکرین کی پیش کردہ تھیوری (نظریات) کے مطابق ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن اگر ووٹر باشعور اور درست معنوں میں پڑھا لکھا اور آگہی و شعور کا حامل ہو تو پھر وہ اس تھیوری کے دائرے سے باہر نکل آتا ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اشتہار میں نماز پڑھنے والا لیڈر اچھا مسلمان ہے اسی بنیاد پر ووٹ دے دیا جائے بلکہ وہ ووٹ دینے کے لیے جس شخص کا انتخاب کرتا ہے اس کے کردار کا پورا جائزہ لیتا ہے کہ آیا اس کا کردار باعمل مسلمان کی طرح ہے؟
وہ کتنا امانت دار ہے، ماضی میں اس نے امانت داری کا مظاہرہ کیسا کیا؟ لوگوں کی خدمت کیسی کی، یا اس کا ویژن کیسا ہے؟ وہ صرف نام کا مسلمان ہے یا واقعی دینی تعلقات کے تحت بلاتخصیص عوام کی خدمت کرنے کا حقیقی عزم بھی رکھتا ہے؟ مندرجہ بالا تھیوریز کے تناظر میں تمام ووٹرز کو چاہیے کہ وہ اس تھیوری کے دائرے سے خود کو باہر نکالیں اور بلاتعصب، برادری، لسانی، مسلکی و مذہبی اپنے ووٹ کے لیے صرف اور صرف باکردار افراد کا انتخاب کریں کیونکہ باکردار لوگ ہی اس ملک اور قوم کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔
 
Top