ولا تفرّقُو۔

رشید حسرت

محفلین
ظالمو کچھ خوف تم کو ھے خدا کا یا نہیں؟
بے گناہوں کے لہو سے کھیلنا اچھّا نہیں

چند ٹکّوں کی ھوس میں مار دیتے ھو اِنہیں
جوّا گر! جوّے میں اپنے ہار دیتے ہو اِنہیں

جب خدا کے رو برو ھو گے تو کیا دو گے جواز
کیوں نِہتّے بے کسوں کو مار کر کرتے ھو ناز

کس قدر گودیں اُجاڑیں، کس قدر اُجڑے سہاگ
تم کو کیا معلوم جو جلتی ھے اُن سینوں میں آگ

کیا تمہیں آتا نہیں ھے پھول بچّوں کا خیال
جن پہ سایہ باپ کا رہنے دیا نہ ایک سال

بہن، بیوی، بھائی، بیٹی اور بوڑھے باپ، ماں
تم ہی کہہ دو قاتلوں یہ لوگ اب جائیں کہاں

"ق"
کیا ہمیں اسلام نے تفریق کی تعلیم دی؟
قتل و غارت، تفرقے، انسان کی توہین کی؟
جی نہیں، اسلام تو مذہب روا داری کا ھے
بے کسوں کی دستگیری کا ھے، دلداری کا ھے

کس قدر مکروہ ھے انسان کی غارت گری
ھم تڑپ کر رہ گئے گر چیونٹی ھم سے مری

قتل کرتے وقت کر لو فرض تم اپنا پِسر
اور اپنے آپ کو مجبور جانو سر بہ سر

اپنے بیٹے کے تصوّر سے تو ھے اتنا ملال
بے گُنہ مرتے جو، وہ بھی تو ہیں ماؤں کے لعل

بے خبر کیوں خُود پرستی کی ھوا میں غرق ھو
ایک حیواں اور انساں میں کوئی تو فرق ھو

کیا تمہیں تہذیب نے ایسی کوئی تعلیم دی
یا تمہیں قانون نے ایسی کوئی تفہیم دی؟؟

لوٹ کر کھانا ستمگر، ظلم ھے، اک جور ھے
اپنی محنت کی کمائی کا مزہ کچھ اور ھے

اشرف المخلوق ھو، اللہ کے نائب ھو تم
چھوڑ دو یہ قتل و غارت آج سے تائب ھو تم

اپنا رُتنہ جان لو او بے خبر تم جان لو
چھوڑ دو خنّاس کی یاری، خدا کی ماں لو

آج سے انسان کی توقیر کا وعدہ کرو
اور حسرتؔ عشقِ عالمگیر کا وعدہ کرو۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top