وقت اُس سے ملا دے توکیسا رہے

نوید ناظم

محفلین
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا لمحہ خدا دے تو کیسا رہے
وقت اُس سے ملا دے تو کیسا رہے

جو تِرے ہجر میں مجھ پہ بیتی ہے، وہ!
کوئی تجھ کوبتا دے تو کیسا رہے

عشق کی آگ جو میرے سینے میں ہے
وہ بھی اس کو ہوا دے تو کیسا رہے

قتل مجھ کو کیا جس نے، آ کے وہی
زندگی کی دعا دے تو کیسا رہے

جو ستم مجھ پہ تم ڈھا رہے ہو، خدا
اُس کے اندر مزا دے تو کیسا رہے

بے دھیانی میں بیٹھے ہوئے ایک دن
دل جو اُس کو بھلا دے تو کیسا رہے؟

جو مِری پیاس پر ہنس رہا ہے وہی
تشنگی کا صلہ دے تو کیسا رہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ’خدا دے‘ صوتی طور پر اچھا نہیں لگ رہا۔
اور یہ ہندی والوں کی طرح ’میں‘ کو ’اندر‘ تو مت بناؤ۔
اُس کے اندر مزا دے تو کیسا رہے
 

نوید ناظم

محفلین
مطلع میں ’خدا دے‘ صوتی طور پر اچھا نہیں لگ رہا۔
اور یہ ہندی والوں کی طرح ’میں‘ کو ’اندر‘ تو مت بناؤ۔
اُس کے اندر مزا دے تو کیسا رہے
بہت شکریہ سر،
دونوں مصرعوں کو بدل کے یوں کر دیا ہے۔۔۔

یہ کرشمہ دکھا دے تو کیسا رہے
وقت اُس سے ملا دے تو کیسا رہے

جو ستم مجھ پہ تم ڈھا رہے ہو، خدا
مجھ کو اُس میں مزا دے تو کیسا رہے
 
Top