وقار خان کی خوبصورت غزل ۔

محمد فائق

محفلین
وقار خان کی خوبصورت غزل ۔

کچھ علاقے آج بھی متھ سے جڑے مل جائیں گے
کچھ گھروں میں اب بھی مٹی کے دیے مل جائیں گے

رائیگاں ہوتے ہوئے لوگوں میں بھی بیٹھو کبھی
فائدے نہ مل سکے تو تجربے مل جائیں گے

اُس کی سانسیں آگ ہیں اور اُس کے لب آبِ حیات
ایک چَکھّو گے تو دونوں ذائقے مل جائیں گے

ہم میں وہ خوش بخت آ کر بیٹھ جاتا ہے تو کیا
کچھ نگینے پتھروں میں بھی پڑے مل جائیں گے

گھر میں ہی بیٹھی ہیں تیزابوں جلی سب لڑکیاں
سارے سوکھے پھول ٹہنی پر دھرے مل جائیں گے

نیند میں آ کر بھی مالا مال کر جائے گا وہ
کتنے کاسے اُس کے خوابوں سے بھرے مل جائیں گے

ہاتھ کی ریکھا میں بھی واضح ہے ماضی کا خیال
کچھ صحیفے بھی چٹانوں پر لکھے مل جائیں گے


کتنا موزوں ہے مرا کمرہ اداسی کے لیے
دن میں بھی سائے یہاں ڈھلتے ہوئے مل جائیں گے
ڈاکٹر وقار خان
 
Top