وزیر بننے کا آسان فارمولا

جاسم محمد

محفلین
وزیر بننے کا آسان فارمولا
09/06/2019 رؤف کلاسرا



شہباز شریف ایک دفعہ پھر فاتح کے انداز میں پاکستان لوٹ رہے ہیں اور مجھے ان کی بارہ برس قبل لندن میں ہم صحافیوں کو کہی گئی بات یاد آ گئی کہ اگر جنرل مشرف اپنے انقلابی نکات پر پچاس فیصد ہی عمل کر لیتے تو عوام ان سیاستدانوں کو بھول جاتے۔

رمضان مبارک ختم ہوا لیکن اب سیاسی ہنگامے پوری قوت سے ابھرنے والے ہیں۔ یہ طے ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے پاس بڑا ایجنڈا ہے جو وہ عمران خان حکومت خلاف استعمال کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھی ہیں۔ عمران خان صاحب کے پاس عوام کو بیچنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا۔ ان دس ماہ میں ایک بھی خبر نہیں جسے خوشخبری کہا جاسکتا ہو۔ اپوزیشن بہت خوش ہے کہ جو کام انہیں دو تین سال بعد کرنا چاہیے تھا حکومت کی نالائقیوں کی وجہ سے دس ماہ میں ہی انہیں اس کا موقع مل گیا ہے۔ شہباز شریف نے لندن میں یہ بات سنائی تھی۔

نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد شریف خاندان جیل میں تھا۔ انہی دنوں ایک تقریر میں جنرل مشرف نے پاکستان کو بدلنے کا عزم ظاہر کیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا وہ بھی ان دنوں جیل میں تھے۔ جب انہوں نے وہ خبر پڑھی تو انہیں یقین ہوگیا کہ اگر ان نکات پر پچاس فیصد بھی جنرل مشرف نے عمل کر لیا تو شاید پاکستانی لوگ سیاستدانوں کو بھول جائیں گے۔ شہباز شریف نے منہ سے تو نہیں کہا لیکن ان کی بات سے یہی لگ رہا تھا کہ شکر ہے جنرل مشرف بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح عام سے حکمران نکلے جنہیں اپنے ان انقلابی نکات سے زیادہ اپنی حکمرانی کا عرصہ طویل کرنے کا شوق تھا اور عوام دوبارہ انہی جلاوطن سیاستدانوں کی طرف دیکھنے لگ گئے۔

پھر جنرل مشرف بھی بھول گئے کہ ان کا اصلی ایجنڈا کیا ہے۔ عوام کی یادداشت ویسے ہی کمزور ہوتی ہے، لہٰذا عوام ان سے پہلے بھول گئے اور یوں جنرل مشرف نے اقتدار کے نام پر وہی کام کرنے شروع کر دیے جو ان سے پہلے حکمران کرتے آئے تھے۔ ہر حکمران جو اقتدار کو عوام کی بھلائی، اپنے وعدوں، کردار اور اپنے دعوئوں پر ترجیح دے گا وہ ہمیشہ بھٹک جائے گا۔ جنرل مشرف پہلے اور آخری حکمران نہیں تھے جو اپنا انقلابی ایجنڈا بھول کر انہی کرپٹ سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے پر مجبور ہوگئے جن کے خلاف انہوں نے اقدامات کئے تھے۔

انسان بھی کیا خوبصورت چیز ہے، اس کے پاس ہر حالت میں اپنے تمام غلط فیصلوں کے جواز تلاش کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر آپ کو جنرل مشرف کے ابتدائی تین سال یاد ہوں تو ان کی بڑھکیں کچھ اور تھیں۔ پہلے تین سالوں میں سارا زور اس پر رہا کہ سیاستدان کتنے کرپٹ اور نااہل ہیں۔ ان تین برسوں میں سب کو بتایا گیا کہ مسئلے کا حل ان سابق حکمرانوں کے احتساب میں ہے ورنہ ملک کو خطرات درپیش رہیں گے۔ اس کام کے لیے نیب کے دو تین چیئر مینوںنے پورا پورا ساتھ دیا۔ ایک چیئرمین نیب نے تمام سیاستدانوں کو جیل میں ڈال دیا جبکہ دوسرے نے ان سب کو رہا کر کے جنرل مشرف کی بنائی گئی کابینہ میں بٹھا دیا۔

یا جیل جائو یا وزیر بنو، اس کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا۔ یوں انقلاب وہیں ٹھس ہوگیا اور جنہیں بڑے بڑے ڈاکے مارنے پر پکڑا گیا تھا وہ سب رہا ہوگئے اور الٹا اگلے پانچ سال تک جمالی اور شوکت عزیز کے دور میں اہم وزیر بھی رہے۔ اور تو اور آفتاب شیر پائو جو ملین ڈالرز سکینڈل میں فرار ہوکر لندن بھاگ گئے تھے انہیں بڑے اہتمام کے ساتھ پاکستان واپس لایا گیا اور جنرل مشرف نے انہیں وزیرداخلہ کا عہدہ دیا۔ یہ تھا جنرل مشرف کا انقلابی ایجنڈا جو بقول شہباز شریف اگر اپنے آدھے نکات پر ہی عمل کر لیتے تو شاید لوگ سیاستدانوں کو بھول جاتے۔

عمران خان بھی اسی راستے پر چلے اور مجھے لگ رہا ہے کہ ان کے انقلاب کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جو جنرل مشرف کا ہوا تھا۔ جنرل مشرف کے حامی بھی یہی کہتے تھے کہ دیکھیں جی اگر اس کی حکومت میں کرپٹ وزیر ہیں یا سب نیب زدہ شامل ہیں تو کیا ہوا، آپ یہ دیکھیں کہ جنرل مشرف خود تو کرپٹ نہیں ہیں۔ جبکہ تین سال پہلے جب جنرل مشرف نے حکومت سنبھالی تھی تو اس وقت کہا گیا کہ وہ نہ صرف خود کلین ہیں بلکہ ان کی پوری ٹیم بھی کلین ہے۔ جب سب نیب زدہ سیاستدانوں نے دوہزار دو کے بعد کابینہ میں جگہ سنبھالی تو ان کے حامیوں نے بھی چپکے سے لائن بدلی اور پھر کہا جانے لگا کہ آپ یہ دیکھیں جنرل مشرف پر کوئی سکینڈل نہیں ہے۔ کیا کریں کرپٹ وزیروں اورکرپشن بغیر کوئی حکومت نہیں بنتی۔

عمران خان صاحب سے جب بھی پوچھا گیا کہ انہوں نے جنرل مشرف سے راستہ کیوں الگ کر لیا تھا تو وہ چہرے پر بہت زیادہ حیرانی لا کر پورے خلوص سے بتاتے تھے کہ ایک دن جنرل مشرف نے انہیں بلا کر کہا کہ وہ چوہدری شجاعت حسین سے مل کر پاور شیئر نگ کا فارمولہ طے کر لیں۔ بقول عمران خان کے وہ بھلا کیسے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے تھے جن کے خلاف وہ تقریریں کرتے رہے اور ان پر قرضے معاف کرانے کے الزامات لگاتے تھے۔ عمران خان برسوں تک جنرل مشرف سے اپنے اختلافات کی یہی وجہ بتاتے تھے کہ انہوں نے کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور وہ ان کے ساتھ ہاتھ نہیں ملا سکتے تھے۔ عمران خان کے اس اصولی سٹینڈ کو بڑا سراہا گیا کہ چلیں کوئی تو ہے جسے اقتدار کا لالچ نہیں اور وہ اقتدار کو لات مار سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بعد میں عمران خان انہی چوہدریوں کے اتنے خلاف ہو گئے تھے کہ وہ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں ہم صحافیوں میں چوہدریوں کی بینکوں میں کی گئی لوٹ مار کی دستاویزات تقسیم کرتے تھے۔ ان کی ہر دوسری پریس کانفرنس گجرات کے چوہدریوں کے خلاف ہوتی تھی۔ بلکہ جب پانچ سال بعد نئے الیکشن ہوئے تو عمران خان نے انہی چوہدریوں کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنا شروع کر دیا تھا۔

یوں جنرل مشرف کا انقلاب اپنی موت آپ مرگیا، جو بقول شہباز شریف: اگر آدھے پر بھی عمل کر لیتے تو ان کی جگہ ختم ہو جاتی۔ اب عمران خان نے اپنا انقلابی ایجنڈا دینا شروع کر دیا۔ لوگ جنرل مشرف کے ایجنڈے سے ڈسے ہوئے تھے وہ عمران خان کے گرد جمع ہونے لگے اور ایک نئی امید پیدا ہوگئی۔ کدھر گیا عمران خان کا ایجنڈا ؟ اس کا بھی وہی حشر ہوا ہے جو جنرل مشرف کا ہوا تھا۔

عمران خان نے بھی جنرل مشرف کی طرح کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف نعرہ لگایا اور آخر پر انہی کرپٹ سیاستدانوں کی مدد سے اقتدار لے لیا۔ عمران خان کے بقول پنجاب کے بڑے ڈاکو جن کی وجہ سے عمران خان نے جنرل مشرف کو چھوڑا تھا، آج وہی سب سے بڑے اتحادی ہیں۔ جنہیں عمران خان چور ڈاکو کہتے رہے، وہی حکومت کے بازو بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان کا ایجنڈا بھی اپنی موت ایسے مر گیا ہے جیسے جنرل مشرف کا مرگیا تھا۔ جنرل مشرف نے بھی آٹھ نو برس حکومت کر لی تھی لیکن کیا ہوا؟

جن سیاسی طاقتوں کے خلاف بغاوت کی تھی انہیں ہی طاقتور کر کے دبئی چلے گئے، جس سے شریف خاندان کو دوبارہ عروج حاصل ہوا۔ لوگوں کو لگا سب جھوٹ تھا، سراب تھا۔ لوگ وہیں لوٹ گئے جہاں سے چلے تھے۔

عمران خان بھی اسی راستے پر چلے ہیں۔ انہوں نے بھی انہی کرپٹ فورسز کے ساتھ کمپرومائز کیا جن کے خلاف وہ کھڑے ہوئے تھے۔ لاکھ آپ لوگوں کو سمجھاتے رہیں کہ اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، تاریخ آپ کو ایسے معاف نہیں کرے گی جیسا کہ جنرل مشرف کو نہیں کیا۔ اگر عمران خان نے بھی جنرل مشرف کی مجبوریاں نہیں سمجھی تھیں جب ان سے کہا گیا تھا کہ چوہدری شجاعت سے مل لیں تو یقین رکھیں عمران خان کی مجبوریاں بھی کل کو کوئی نہیں سنے گا۔

شہباز شریف اور نواز شریف کے سب سے بڑے ہمدرد عمران خان خود ہیں۔ جیسے جنرل مشرف کی ہر قیمت پر اقتدار کی خواہش اور غلطیوں نے شریفوں کے لیے اقتدار کا راستہ دوبارہ کھول دیا اسی طرح عمران خان بھی شریف خاندان کے لیے اقتدار کے راستے دوبارہ کھول کر جائیں گے۔ شریف خاندان خوش قسمت ہے، انہیں ان کی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں ایک بھی سیاسی مخالف نہیں ملا جس کا سیاسی کردار بہت اعلیٰ ہو اور اس نے جو دعوے کیے ہوں وہ پورے کیے ہوں۔ جب تک اقتدار کی خاطر آپ اس نعرے پر چلتے رہیں گے کہ وزیر بنو یا جیل جائو، آپ شریفوں کو شکست نہ دے پائیں گے اور وہ بار بار لندن سے پاکستان کو فتح کرنے آتے رہیں گے۔
 
Top